پلاسٹک بیگز کا کچرا ماحول کے لئے انتہائی مضر

پیر 12 اکتوبر 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

انسانی تاریخ کے ابتدائی دورسے ہی انسان کی کوشش رہی ہے کہ وہ فطرت کو مسخر کر کے ضروریات کی تکمیل کے لئے فطری وسائل کا استعمال کرے۔انسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے آفر نیش میں انسان نے پتھر کو ضروریات کی تکمیل کے لئے ہتھیار بنایا۔ قدیم پتھر کا دور آج سے تقریباً پانچ سے چھ لاکھ سال قبل شروع ہوا تھا اور کوئی تقریباً ایک لاکھ سال پہلے ختم ہوا۔

پھر اس کے بعد دھاتی دور کا آغاز ہوا، دھاتی دور میں نت نئی ایجادات کے ذریعے انسان نے سماجی، تہذیبی اور معاشرتی ترقی کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ انسان کو جب محسوس ہوا کہ دنیا میں فطری اور قدرتی وسائل کے ذخائر محدود اور ضروریات کی تکمیل کے لئے ناکافی ثابت ہو رہے ہیں تو دھات، کانچ، لکڑی اور پتھر کی جگہ گزشتہ صدی کے اوائل میں پلاسٹک کی ایجاد ہوئی۔

(جاری ہے)

ابتدائی طور پر درختوں کے ذریعے پلاسٹک بنایا گیا، مگر رفتہ رفتہ مصنوعی اشیاء کے ذریعے پلاسٹک کی تیاری شروع کر دی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پلاسٹک دھات، لکڑی اور پتھر کا متبادل بن گیا۔ کم قیمت اور بہ آسانی دستیابی کی وجہ سے پلاسٹک کی ا شیاء بہت تیزی سے مقبول ہونے لگیں۔ دو تین دہائیاں قبل پلاسٹک بیگز کا استعمال ڈسپوزایبل کی صورت میں بہت زیادہ ہونے لگ گیا یعنی ایک بار استعمال کرو اور پھینک دو۔

حتیٰ کہ جن کاموں کے لئے ہم بچپن میں تھیلے اور سلور وغیرہ کے برتن لے جایا کرتے تھے ان کے لئے بھی یہی ڈسپوز ایبل بیگز استعمال ہونے لگے۔ اس کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہونے سے ماحول میں آلودگی بہت بڑھ گئی آج صورتحال یہ ہے کہ کوئی گھر نہیں ہے جس کے کچرے میں شاپر بیگز نہ ہوں۔ پلاٹک کے زمین میں تحلیل ہونے کے لئے 500 سے 1000 سال کی مدت درکار ہوتی ہے۔

پلاسٹک کی اشیاء کے تحلیل نہ ہونے کی وجہ سے پلاسٹک فضلات کسی نہ کسی صورت میں زمین پر اور دریاوٴں، سمندروں میں پھیل رہے ہیں۔ جس کی تازہ مثال حالیہ دنوں میں این ڈی ایم اے کی جانب سے کراچی کے صاف کئے جانے والے نالوں سے پلاسٹک کا کچرا ٹنوں کی صورت نکلنا ہے۔ پلاسٹک کو جلا کر بھی ضائع نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے کچرے کو جلانے سے مہلک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جو فضائی آلودگی کا باعث بنتا ہے جو کہ انسانی صحت کے لئے بہت مضر ہے۔

آج صورتحال یہ ہے کہ پلاسٹک کے فضلات زمین کے ماحول کے لئے نہایت ہی خطرناک رخ اختیار کر چکے ہیں۔
پلاسٹک کا استعمال ہماری روز مرہ زندگی میں ایسے شامل ہو گیا ہے جیسے اس کے بغیر زندگی نامکمل سی ہے۔ لیکن تحقیقات میں یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ بظاہر سستی، مظبوط اور نہایت کار آمد یہ چیز انسانی زندگی کے لئے بہت خطرناک ہے۔ پلاسٹک نے جتنی ترقی کی ہے اس کی مثال شائد ہی ملے لیکن اس کے نقصانات سے بھی اب دنیا واقف ہو چکی ہے اور اس سے بچاوٴ کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں بھی اس کے نقصانات سے عوام کو آگاہی دینے کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں ہو رہی ہیں۔ عدلیہ نے بھی پلاسٹک بیگزکے نقصانات کے حوالے سے بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومت کو ایک فیصلے کے ذریعے ہدایت کی ہے کہ ملک میں پلاسٹ کے تھیلوں کے استعمال پر جلد سے جلد پابندی عائد کی جائے۔ ہمارے لوگ ڈسپوز ایبل شاپر کے اتنے نقصانات کے باوجود اس کے متبادل لے کر خریداری کے لئے نہیں نکلتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو آگاہی مہم کے ذریعے بتانا چاہئے کہ پولیتھین کے کتنے نقصانات ہیں لہٰذا اس کے استعمال کو کم سے کم کرنا چاہئے۔
دنیا کے مختلف ممالک پلاسٹک کے نقصانات اور پلاسٹک کچرے سے بڑی حد تک عاجز آ چکے ہیں۔ روم کے شہر میں بس اور ریلوے اسٹیشنوں پر ایکو بونس نامی مشینیں نصب کی گئی ہیں۔ ان مشینوں میں مسافر استعمال شدہ پلاسٹک بوتلیں ری سائیکلنگ کے لئے جمع کرتے ہیں۔

گرین پیس ہاوٴس کا مشورہ ہے کہ ری سائیکلنگ اس کا حل نہیں ہے بلکہ کرہٴ ارض کو آلودگی سے بچانے کے لئے اس کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔ بلکہ یہاں تک کہ اس کے استعمال کو ختم ہی کر دیا جائے۔ اقوامِ متحدہ بھی پلاسٹک کے استعمال سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں ہر برس تقریباً 80 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک پھینک دیا جاتا ہے۔

2014ء کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق امریکیوں نے 330 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک سمندر میں پھینکا تھا۔ آسٹریا کے سائنسدانوں کی گئی ایک تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ پلاسٹک کے اس حد تک زیادہ استعمال سے انسانوں میں پلاسٹک کے خرد بینی سائز کے ذرات پائے گئے ہیں۔ آسٹریا کی میڈیکل یونیورسٹی اور ادارہ برائے ماحولیات نے فن لینڈ، اٹلی، جاپان، روس، پولینڈ، برطانیہ، نیدر لینڈ اور آسٹریا کے باشندوں پر یہ تحقیق کی ہے۔

یہ بین الاقوامی سطح کے وہ ممالک ہیں جنہیں ترقی یافتہ کہا جاتا ہے۔ تصور کریں پاکستان جو کہ ترقی پزیر ممالک کی فہرست میں آتا ہے اس کے لوگوں کے جسموں میں پلاسٹک کے کتنے اثرات موجود ہوں گے اور وہ کس حد تک نقصان پہنچا رہے ہوں گے۔
ایک برطانوی پاور ہاوٴس ایز جی کا کہنا ہے کہ وہ ان کچروں سے ایندھن بنائے گی، جس کا استعمال ہائیڈروجن کاروں کے لئے کیا جائے گا۔

اس کمپنی نے ایک ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جس سے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد پلاسٹک سے سنتھیٹک گیس پیدا ہوتی ہے۔ اس سے بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے اور اسے کاروں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جاپان کاکہنا ہے کہ 2025ء تک 2 لاکھ ہائیڈروجن کاریں سڑکوں پر ہوں گی۔ پلاسٹک سے تیار یہ ایندھن مستقبل میں ٹرک اور بسوں میں بھی استعمال کیا جائے گا۔

پاکستان کو توانائی کا جو بحران ہے اس سے نکلنے کے لئے پلاسٹک کی ری سائیکلنگ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ایک طرف بجلی پیدا ہو گی تو دوسری طرف ہائیڈروجن گاڑیوں کے آنے سے پیٹرل کی امپورٹ کے بابت زرِ مبادلہ میں بچت ہو گی۔ اب یہ ہمارے سیاست دانوں کو سوچنا ہو گا کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں کو پلاسٹک سے کس طرح نجات دلاتے ہیں تاکہ پلاسٹک کا کچرا بھی ختم ہو جائے اورا یک منافع بخش کاروبار کی صورت میں ملک کے ریونیو میں بھی اضافہ کا سبب بنے اور عوام کو اس کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رکھا جا سکے۔


انسانی زندگی کی بقاء اور تحفظ کے لئے یہ بات بہت ضروری ہو گئی ہے کہ پلاسٹک سے ہر صورت نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر چہ ری سائیکلنگ سے بھی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس میں فوائد سے زیادہ نقصانات ہی ہیں۔ اس کی آلودگی کا عفریت کسی بھی عالمی جنگ جیسی وباء سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے لئے قومی سطح پر اس پر پابندی عائد کرنے کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں ان کو حتمی شکل دینے کی ضرورت ہے اور عوام میں ہر سطح پر شعور وآگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم میں سے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی سطح پر اس کے نقصانات سے ملک و قوم کو معلومات بہم پہنچائے تا کہ ہمارے ساتھ ساتھ ہماری آنے والی نسلیں بھی محفوظ ہوں اور ہم اپنے پیچھے ایک خوشگوار اور بہتر زندگی گزارنے والا ماحول چھوڑ کر جائیں۔ اس طرح دنیا کورونا جیسی وباوٴں سے بھی محفوظ رہے گی۔
پلاسٹک بیگز کا خاتمہ کر کے ماحول کو صاف کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ماحول کو خراب کرنے کا باعث ہے اورا س کے مضر اثرات انسانوں اور دیگر جانداروں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

حکومت کو لوگوں کو قائل کرنا چاہئے کہ وہ پلاسٹک کے استعمال کو بند کریں۔ لیکن اگر زمینی سطح پر اس کا مشاہدہ کریں تو اس وقت تک پلاسٹک کے ڈسپوز ایبل استعمال میں کمی نہیں آئے گی جب تک پلاسٹک بنانے والی کمپنیوں کو بند نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ پلاسٹک بیگ بنانے والی کمپنیاں جب تک بیگز سپلائی کرتے رہیں گے آگے دوکاندار اور عوام ان کا استعمال کرتے رہیں گے۔

وطنِ عزیز کے رہنے والے اس کے مضرِ صحت اثرات سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود اس کے استعمال میں کمی لانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب کسی چیز کی رسد مہیا رہتی ہے تو لوگ اپنی ضرورت کے مطابق اس کی خریداری کرتے رہتے ہیں۔
اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ نے عبوری حکم کے تحت پرچون دوکانداروں، پھل فروشوں، میڈیکل سٹورز، فارمیسیز میں بھی پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے اور محکمہ تحفظِ ماحول سے گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور فیصل آباد میں پلاسٹک بیگز کے غلط استعمال کے حوالے سے جامع رپورٹ طلب کی ہے۔

جس کے لئے دو ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے جس کے بعد پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی کی خلاف ورزی کی صورت میں دوکانداروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ پاکستان میں ڈسپوز ایبل پلاسٹک بیگز کا استعمال بڑھنے کی وجہ سے اس کی تیاری میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پلاسٹک کچرا کی مقدار میں اضافے کو روکنے کے لئے ہائی کورٹ کے فیصلے پر سختی سے عمل کرے اور کمپنیوں کو پابند کرے کہ پلاسٹک سے ڈسپوز ایبل اشیاء کی تیاری جگہ ری سائیکل کئے جانے والے پلاسٹک کی اشیاء ہی صرف تیار کریں تا کہ ماحول کی حفاظت کی جا سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے بچاوٴ کے لئے قواعد و ضوابط بنائے جانے چاہئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :