زیادتی و بدفعلی کے بڑھتے واقعات اور ہماری بے حسی

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Razi Tahir

رضی طاہر

وطن عزیز پاکستان میں زیادتی، ریپ اور گینگ ریپ کے کیسز میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، گزشتہ 10دنوں کے اندر8ایسی خبریں سامنے آئیں جنہوں نے دل دہلا کررکھ دئیے، زیادتی اور بد فعلی کے واقعات جہاں غور طلب ہیں وہیں حل طلب بھی ہیں، لیکن ہم ہر واقعے پر تشویش کا اظہار کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہونے میں عافیت سمجھتے ہیں ، گزشتہ دنوں سب سے پہلے وہ خبر، جو میڈیا میں نمایاں کوریج نہ لے سکی، لاہور کے علاقے رائیونڈ میں زمینوں کی رکھوالی کرنے والے غضنفر علی ولد غلام قادر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حویلی میں سو رہا تھاکہ اچانک نا معلوم ڈاکو دیوار پھیلانگ کر کمرے کے اندر داخل ہوئے اور شدید تشدد کیاغضنفر علی کو باندھ کراس کے سامنے اس کی بیوی کے ساتھ رات بھر زیادتی کرتے رہے، اس کیس کو ہوئے 8روز ہوگئے ابھی تک ایک گرفتاری سامنے نہیں آئی۔

(جاری ہے)

دوسری خبر کراچی سےہے، شہر قائد کے علاقے عیسیٰ نگری کی رہائشی مروہ جمعہ چار ستمبر کو صبح دکان پر کیک لینے گئی تھی جس کے بعد وہ لاپتہ ہو گئی تھی۔ معصوم مروہ کی نعش چھ ستمبر کی شب عیسیٰ نگری کے عقب میں واقع گراؤنڈ میں کچرا کنڈی سے ملی تھی۔اس کیس میں پولیس نے مجرم کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے، تیسرا بدترین بھی کراچی سے ہے، جہاں 7ستمبر کو10سالہ معصوم بچی روبی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، بچی دو روز بعد بازیاب ہوئی،چوتھا واقعہ گجرات میں پیش آیا، جہاں گجرات کے نواحی گائوں ماجرا میں دو بہنوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور دونوں کو ہی قتل کردیا گیا، اس واقعے میں پولیس نے مجرم کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے جو بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا، پانچواں واقعہ وہ ہے جو اس وقت سوشل میڈیاپر سب سے زیادہ زیر بحث ہے، موٹروے پر لاہور سے گوجرانوالہ آتے ہوئے ایک خاتون کے ساتھ ڈکیتی کی واردات ہوئی اور اس خاتون کو بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، یہ لاہور کے علاقے گجرپورہ کا واقعہ ہے، اس علاقے میں کچھ ہفتے قبل پانچ درندوں نے ایک خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جو رپورٹ بھی ہوا، لیکن پولیس کو ہوش نہیں آئی، ایک اور المناک واقعہ تونسہ شریف میں پیش آیا، جہاں10ستمبر کوبستی لاشاری میں خاتون سے اجتماعی زیادتی کی گئی، خاتون کو گھر میں بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اس کیس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، 11ستمبر کو گوجرانوالہ میں12سالہ لائبہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، معصوم بیٹی تشویش ناک حالت میں اس وقت ہسپتال داخل ہے۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں، زیادہ تر ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ ہمارا معاشرہ کس سمت جارہا ہے جہاں ہمیں شوہر کے سامنے بیوی کی عزت تار تار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

کراچی میں 2معصوم کلیوں کی عزت لٹتے دکھائی دیتی ہے جو ابھی ہر بڑے شخص کو انکل کہہ کر مخاطب کرتی تھیںجن میں سے ایک کو جلا دیا گیا۔ گجرات میں دو بہنیں زیادتی کا شکار ہوئیں اور بعدازاں قتل کردی گئیں۔ مجرم نے ایک ہی گھرکی باپ کی دونوں آنکھوں کی ٹھنڈک چھین لی۔ لاہور میں فرانس سے اپنے وطن آنے والی خاتون کے ساتھ جو ہوا وہ سبھی جانتے ہیں ، اب کیا وہ یا اس کا خاندان کبھی پاکستان رہنے کا سوچے گا بھی؟  لاہور اور تونسہ شریف میںہونے والے دو واقعات میں ظالموں نے بیٹوں کے سامنے ماں کی عزت کو تار تار کیا۔

یہ آج کا پاکستان ہے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا اور جہاں حاکم وقت کا دعویٰ ہے میں پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنائوں گا،  97 فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں عوام نعروں میں، حکمران بھاشن دینے میں، ادارے شائنگ سٹارز بننے میں اور میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے چکروں میں مصروف نظر آتا ہے۔ جہاں ایسے واقعات قانون نافذ کرنیوالے اداروں ، عدالتوں کی ناکامی ہیں وہاں ہم سب کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ کہیں ہم نے خود ہی اپنے اردگرد ایسے درندوں کو کھلی چھٹی نہیں دے رکھی؟  بچوں کے ساتھ روز بروز بڑھتے جنسی واقعات کے پیش نظر، بچوں کو جسمانی صحت، جنسی افعال اور خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا اور خطرناک صورت حال سے نبٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا، تعلیمی اداروں، معاشرے اور والدین اور / سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کرنے والے بچوں سے ان کی معصومیت اور ان کا بچپن چھین لیتے ہیں، یہ صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ سخت سے سخت قانون بنا کر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اولین کردار ادا کرے۔ ایسے مجرموں کو سرعام پھانسی دینی چاہیے۔ اس امر سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ وحشیانہ سزا ہی اس وحشیانہ جرم کا سدباب کر سکتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یہ سزا ایسے مجرموں کو کیوں نہیں دی جاتی؟ آپ کو تعجب ہوگا کہ پاکستان میں کسی انسان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی سزا محض سات سال کی قید ہے اور اگر کو ئی شخص جانوروں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا پکڑا جاتا ہے تو اُسے سزائے موت دی جاتی ہے۔ کیا ہماری نظر میں انسان کی قیمت جانوروں سے بھی کم ہے؟  حکومت کو چاہیے کہ جس طرح اپنے مفادات کے لیے آئین میں ترمیم کی جاتی ہے اسی طرح عوام کے مفادات کے لیے بھی اس میں ترمیم کرے۔ حکومت کے فرائض بڑھنے سے والدین کے فرائض کسی صورت کم نہیں ہوتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :