
رحمت مایوس ہے
بدھ 22 جولائی 2020

ردا بشیر
وہ سرکاری ہسپتال کے بستر پر کراہ رہی تھی۔دارلامان ک کسی جالے زدہ کمرے میں سرکاری ڈاکٹرز فرسٹ ایڈ دے رہے تھے۔لیکن وہ خوشی یا غم کے کسی بھی احساس سے عاری چھت پر لٹکے پنکھے سے لگی چھپکلی کو گھور رہی تھی جو کب سے ایک جگہ ساکت تھی۔
کہا جاتا ہے کہ وقت بدل گیا۔جی ھاں۔۔۔۔بدل گیا سب بدل گیا۔1400 سال پہلے اسلام مکمل ھوا لڑکی کو رتبہ ملا عزت ملی۔مٹھی سے سرکتی ھوئ ریت کی طرح وقت کا پہیہ تیزی سے گھوما اور ہم اکیسویں صدی میں آ گئے۔عورت چاند پر پر پہنچ گئی۔عورت نے فضاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی۔اور سمندری مخلوقات سے رابطے کیے۔لیکن پھر بھی وہ ان دیکھی زنجیروں میں جکڑی ہے۔1400 پہلے اور آج ایک ھی بات کا فرق ہے کہ تب لڑکیوں کو پیدا ھوتے ھی زندہ دفنا دیا جاتا تھا۔
کبھی اسے باپ کے سر پر موجود `پگ` کا واسطہ دیا جاتا ہے تو کبھی بھائیوں کی عزت کا۔`تمہاری شادی کردی ہے اب گھر سنسار وہی ہے وہاں سے مر کر ہی نکلنا`چاہے جس سے بیاہی گئ ہو وہ جانور ہی کیوں نا ہو۔
میں پوچھتی ہوں کہ کیا عزتوں کے سارے ٹھیکے بیٹیوں کے کندھوں پر ہیں؟وہ تو صنف نازک نہیں؟بلی اور کاکروچ سے خوفزدہ ہو جانے والی نہیں؟انکی اپنی کوئی رائے کوی مرضی نہیں؟
وہ آہستہ آہستہ آنکھیں بند کرتی جا رہی تھی۔اور پھر میری آنکھوں نے دیکھا کہ اس پر سفید چادر تان دی گئی تھی۔پنکھے کے پاس موجود چپکلی کب کی جا چکی تھی۔کب تک بیٹیاں ان نام نہاد عزتوں کا ٹوکرا سروں پر اٹھائے گی؟اگر تو مان گئی اس سے اچھا اور فرمابردار کوئی نہیں اور نا مانی تو تباہی اسکا مقدر۔۔؟۔۔۔رحمت کا لقب جو میرے مذھب نے بیٹی کو دیا۔اس رحمت کو زحمت مت بناؤ کے رحمت مایوس ہو جائے۔شوہر اور سسرال کے ہاتھوں آج ایک اور رحمت مٹی تلے جا سوئ۔والدین کی عزتوں کا بوجھ اٹھائے۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے سے بڑے دریاؤں کی موجیں بھی وہ نھیں کر سکتی جو تڑپ کر نکلا گیا آنسو کر سکتا ہے۔۔۔۔۔دریاوں کی موجیں عرش الٰہی کو نہیں ہلا سکتی۔۔۔۔ہاں مگر!ترپ کر بھری گئ آہ اور آنکھوں سے نکلا ہوا آنسو میرے رب کے عرش کو ہلانے کی طاقت رکھتا ہے۔اور یوں تڑپ کر آنسو ایک بےبس اور لاچار کا ہی نکلتا ہے۔میرے رب نے اگر کچھ حقوق مقرر کییے ہیں تو لگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے حقوق کے بدلے اللّٰہ پاک نے کچھ فرائض بھی مقرر کییے ہیں۔جن کی ادائیگی لازم قرار دی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکیاں بات بات پر رونے کی عادی ہوتی ہے۔یا انگریزی کی اصطلاح میں'ڈرامہ کویین'بھی کہا جاتا ہے۔نہیں صاحب ہرگز ایسا نہیں ہے۔دل دکھے تو آہ نکلتی ہے اور آنکھ بھرتی ہے۔وہ الفاظ جو دوسروں کے چیتھڑے اڑانے کے طاقت رکھتے ہیں انہیں براہِ کرم خود تک محدود رکھیں دوسروں کو لہو لہان مت کریں۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ وقت بدل گیا۔جی ھاں۔۔۔۔بدل گیا سب بدل گیا۔1400 سال پہلے اسلام مکمل ھوا لڑکی کو رتبہ ملا عزت ملی۔مٹھی سے سرکتی ھوئ ریت کی طرح وقت کا پہیہ تیزی سے گھوما اور ہم اکیسویں صدی میں آ گئے۔عورت چاند پر پر پہنچ گئی۔عورت نے فضاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی۔اور سمندری مخلوقات سے رابطے کیے۔لیکن پھر بھی وہ ان دیکھی زنجیروں میں جکڑی ہے۔1400 پہلے اور آج ایک ھی بات کا فرق ہے کہ تب لڑکیوں کو پیدا ھوتے ھی زندہ دفنا دیا جاتا تھا۔
(جاری ہے)
اج بھی دفنایا جاتا ھے۔
پتا فرق کھاں ھے؟تب لڑکی بے حس ہوتی تھی بول تک نہیں سکتی تھی۔اج پورے ہوش و حواس میں مرضی سے زندہ قبر میں اتر جاتی ہے۔کبھی اسے باپ کے سر پر موجود `پگ` کا واسطہ دیا جاتا ہے تو کبھی بھائیوں کی عزت کا۔`تمہاری شادی کردی ہے اب گھر سنسار وہی ہے وہاں سے مر کر ہی نکلنا`چاہے جس سے بیاہی گئ ہو وہ جانور ہی کیوں نا ہو۔
میں پوچھتی ہوں کہ کیا عزتوں کے سارے ٹھیکے بیٹیوں کے کندھوں پر ہیں؟وہ تو صنف نازک نہیں؟بلی اور کاکروچ سے خوفزدہ ہو جانے والی نہیں؟انکی اپنی کوئی رائے کوی مرضی نہیں؟
وہ آہستہ آہستہ آنکھیں بند کرتی جا رہی تھی۔اور پھر میری آنکھوں نے دیکھا کہ اس پر سفید چادر تان دی گئی تھی۔پنکھے کے پاس موجود چپکلی کب کی جا چکی تھی۔کب تک بیٹیاں ان نام نہاد عزتوں کا ٹوکرا سروں پر اٹھائے گی؟اگر تو مان گئی اس سے اچھا اور فرمابردار کوئی نہیں اور نا مانی تو تباہی اسکا مقدر۔۔؟۔۔۔رحمت کا لقب جو میرے مذھب نے بیٹی کو دیا۔اس رحمت کو زحمت مت بناؤ کے رحمت مایوس ہو جائے۔شوہر اور سسرال کے ہاتھوں آج ایک اور رحمت مٹی تلے جا سوئ۔والدین کی عزتوں کا بوجھ اٹھائے۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے سے بڑے دریاؤں کی موجیں بھی وہ نھیں کر سکتی جو تڑپ کر نکلا گیا آنسو کر سکتا ہے۔۔۔۔۔دریاوں کی موجیں عرش الٰہی کو نہیں ہلا سکتی۔۔۔۔ہاں مگر!ترپ کر بھری گئ آہ اور آنکھوں سے نکلا ہوا آنسو میرے رب کے عرش کو ہلانے کی طاقت رکھتا ہے۔اور یوں تڑپ کر آنسو ایک بےبس اور لاچار کا ہی نکلتا ہے۔میرے رب نے اگر کچھ حقوق مقرر کییے ہیں تو لگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے حقوق کے بدلے اللّٰہ پاک نے کچھ فرائض بھی مقرر کییے ہیں۔جن کی ادائیگی لازم قرار دی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکیاں بات بات پر رونے کی عادی ہوتی ہے۔یا انگریزی کی اصطلاح میں'ڈرامہ کویین'بھی کہا جاتا ہے۔نہیں صاحب ہرگز ایسا نہیں ہے۔دل دکھے تو آہ نکلتی ہے اور آنکھ بھرتی ہے۔وہ الفاظ جو دوسروں کے چیتھڑے اڑانے کے طاقت رکھتے ہیں انہیں براہِ کرم خود تک محدود رکھیں دوسروں کو لہو لہان مت کریں۔۔۔۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.