عرب کا شہزادہ

جمعرات 3 ستمبر 2020

Rida Bashir

ردا بشیر

28 اپریل بغداد کے ایک گاؤں میں کسان کے گھر  نومولود کی آواز گونجی۔ کون جانتا تھا کہ یہ خوبصورت آنکھوں والا اور مردانہ وجاہت والا شیردل عراق کا تخت سنبھالے گا ۔اور امریکہ جیسے ملک کو انگلیوں کے اشاروں پر نچا ڈالے گا۔ دو عشروں سے زیادہ عرصے تک  عراق کاصدر رہے گا اور انہیں عراق، ایران  امریکہ کے ساتھ  دیگر تنازعات میں بھی اہم مقام حاصل رہا ہو گا۔

ان کے دور حکومت میں قوم تیل کی دولت سے مالامال ہوئی۔
1963 میں ایک نام نہاد انقلاب" رمضان" آیا جس نے قاسم  کی حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔ صدام "بعث"پارٹی میں شمولیت کے لیے خواہش مند تھے. لیکن پارٹی میں لڑائی اور دیگر تنازعات کی وجوہات کے نتیجے میں انہیں گرفتار کر لیا گیا. جیل کے اندر رہتے ہوئے اپنی  سبھی سیاسی اور سما جی  سرگرمیاں جاری رکھی. انہوں نے عراق کے انفراسٹرکچر صنعتی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی اور زراعت کو خطے کے دوسرے عرب ممالک میں مثالی حد تک آگے بڑھایا۔

(جاری ہے)

۔ 1973 کے توانائی کے  بحران سے عین قبل عراق کی تیل کی صنعت کو  قومی شکل دی۔ صدام نے عراق کو پہلے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کو تیار کرنے اور بغاوت سے بچنے کے لئے ایک طاقتور حفاظتی سازوسامان کا لائحہ عمل تیار کیا۔ صدام 16 جولائی 1979 کو عراق کا صدر بنا۔ صدام نے اپنے سینکڑوں سیاسی دشمنوں کو پھانسی دلوائی ۔۔۔بش انتظامیہ کو شبہ تھا کہ اسامہ بن لادن کی القاعدہ   تنظیم سے  حسینی حکومت کا رشتہ ہے ۔

۔۔۔جنوری 2002 میں اپنی ریاست کے یونین خطاب میں امریکی صدر جارج بش نے عراق ،ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ مل کر نام نہاد "ایکسسں آف کا ایول" ایک حصہ نامزد کیا اور دعوی کیا کہ یہ ملک بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کر رہے ہیں... اور دہشتگردی کی حمایت کرتے ہیں... امریکی زیر قیادت اتحاد نے عراق پر حملہ کردیا ہفتوں میں ہی حکومت اور فوج کا تختہ الٹ گیا۔

اور 9 اپریل 2003 کو بغداد کا خاتمہ ہوگیا۔
 یہ ایک متنازعہ ہے کہ صدام حسین کی دہشت گرد تنظیموں بشمول القاعدہ اور اس کے ساتھ وابستہ افراد کے ساتھ گہرے دور رس اور دوستانہ تعلقات  تھے ۔دستاویزات میں ایک بار پھر تصدیق ہوئی کہ صدام حسین نے متعدد نام نہاد دہشت گرد تنظیموں اور افراد کو کئ دہائیوں سے مالی اعانت، تربیت اور دیگر امداد فراہم کی ہے۔

صدام حسین بحثیت لیڈر ایک بہت اچھا انسان ثابت ہوا۔ جب تک ک رہا ملک و قوم کو ہر لحاظ سے مستحکم کیا ۔۔۔۔ملک محفوظ کیا۔۔۔ خلفائے راشدین کی بہت سی خصوصیات اس میں موجود تھیں۔۔ راتوں کو خود گشت کیا کرتا اور لوگوں کے مسائل سنتا اور  حل کرتا۔۔ لیکن یہ شیر امریکہ کے شر سے نہ بچ سکا۔ 2003 کے بعد امریکہ نے صدام حسین کی تلاش شروع کی ۔چھپتے ہوئے صدام حسین  نے بہت سی آڈیو ریکارڈنگز جاری کیں۔

جس میں اس نے عراق کے حملہ آوروں کی مذمت کی۔ اور مزاحمت کا مطالبہ کیا۔۔۔ 30 جون 2004 تک وہ بغداد میں موجود ہوائی اڈے میں موجود رہے پھر انہیں سرکاری طور پر عبوری عراقی حکومت کے حوالے کیا گیا تھا کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کی سماعت کر سکے۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران صدام حسین ایک متشدد مدعی ثابت ہوا۔
 جو اکثر عدالت کے اختیار کو دیدہ دلیری سے چیلنج کرتا اور عجیب و غریب بیان دیتا۔

5نومبر 2006 کو صدام حسین کو قصوروار ٹھہرایا گیا اور سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ اس سزا پر اپیل کی گئی لیکن پھر بھی اسے جاری رکھا گیا پھانسی سے قبل آخری خواہش پوچھنے پر صدام نے کہا" مجھے میرا صدارت والا سوٹ پہنایا جائے وہ پیش کیا گیا وجہ پوچھنے پر بتایا گیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ سردی کی کپکپاہٹ کو عراقی عوام موت کی کپکپاہٹ سمجھے"شیر دل کو پھانسی دے دی گئی۔ ایک اور مرد مجاہدامریکہ کی دانتوں میں اڑ گیا اور موت اس کا مقدر بنیں۔
ان کو ان کی جائے پیدائش "الوجاہی" میں سپرد خاک کیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :