
ترجیحات بدل جاتی ہیں مگر ۔۔۔
منگل 9 جون 2020

رقیہ غزل
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا ٹیسٹنگ سسٹم اور احتیاطی تدابیر میں روز اول سے غفلت موجود رہی ہے بریں وجہ اعدادو شمار متوقع تھے تاہم موجودہ صورتحال کے لیے جو ہونا چاہیے تھا وہ ہوتا بھی نظر نہیں آرہا یہی وجہ ہے کہ عوام نے بھی وبائی مرض کو سنجیدہ نہیں لیا تھا جو کہ واضح نظر آرہا تھا اسی غیر سنجیدگی پر جناب چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کو کورونا وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں کیے گئے اخراجات سے زیادہ خدمات کے معیار پر تشویش ہے ، قرنطینہ مراکز کی صورتحال بھی سوالیہ نشان ہے اور بادی النظر میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امدادی پیسہ ایسی جگہوں پر چلا گیا ہے جہاں ضرورت مندوں کو نہیں مل سکتا لہذا حکومت کورونا کے خلاف اقدامات تیز کرے اور دیگر بیماریوں اور ملک کو درپیش مسائل پر بھی توجہ دے ۔
(جاری ہے)
غیر سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ ٹک ٹاکرز کو آگاہی مہم سونپی جا رہی ہے عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیا کرونا ناچ گا کر بھگایا جائے گا ؟ کیاالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا صرف نام نہاد کارکردگیوں کی تشہیر اور عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ہے ؟ وزیراعظم نے کہا ہے کہ پٹرولیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات کا عمل تیز کیا جائے اور وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر مارکیٹوں اور بازاروں کو سیل کر دیا جائے گا تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ عملدرآمد کب ہوگا اور کس نے کروانا ہے ۔ اگر تیل کی قیمتوں میں کمی کی گئی تو تیل غائب ہوچکا ہے اور بجٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ نئی قیمت پر باہر نکالا جا سکے اور اس بات کو سبھی جانتے ہیں مگر ہنوز خاموشی ہے اور اگر کرونا کا پھیلاؤ اس حد تک بڑھ گیا ہے تو ماسک اور سینی ٹائیزر دستیاب نہیں ہیں اور اگر کسی کے پاس مل جائیں تو قیمت خرید جیب پر بھاری ہے اسقدر امداد اکٹھی ہوئی ہے آپ عوام الناس کو ماسک اور سینی ٹائیزر بھی مفت فراہم نہیں کر سکتے ؟ آپ کو ٹیکس وصولی میں 30فیصد کمی آنے کا افسوس ہے یہ افسوس نہیں کہ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے عوام خوراک کی کمی کو کیسے پورا کریں گے کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے تو کیا لفاظی سے حالات بدل جائیں گے ؟ کیا مہذب اقوام کا یہی وطیرہ ہے ؟
شاید تبدیلی سرکار کو اندازہ نہیں کہ وہ اپنا مقام کھو رہے ہیں اگرچہ اپنی تضاد بیانیوں اور نا ادانیوں کو چھپانے کے لیے کرپشن قصے سنائے جاتے ہیں جوکہ دلچسپ ضرور ہیں مگر ان میں کشش باقی نہیں رہی کیونکہ ہوائی قلعوں کی قلعی کھل چکی ہے کہ مسیحائی کے دعوے ،ایک کروڑ درخت ،50 لاکھ گھر ،اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ملازمتیں ،زرعی منصوبے ،معیشیت کی بحالی ،نئے اداروں کا قیام (پرانے بھی بند ہو رہے ہیں ) ، کشکول توڑنے کا دعوی، ترقی و خوشحالی کے سارے دعوے خواب و خیال بن چکے ہیں، مسیحائی کے بت ٹوٹ رہے ہیں کہ ہر افتاد غریب پر ہی ٹوتتی ہے حالانکہ ریاست مدینہ کی تعمیر مقصد حیات تھا۔ تبدیلی سرکار نے سٹیل ملز کے ملازمین کو فارغ کرنے کی اصولی منظوری دے دی ہے لیکن حکومت میں آنے سے پہلے خان صاحب سمیت ان کے رفقاء اسٹیل ملز کی نجکاری کی مخالفت اور اس کی بحالی پر زور دیتے رہے اور ملازمین سے وعدہ کیا تھا کہ انھیں ان کا حق دلوائیں گے ۔ تبدیلی سرکار ایک بار پھر اپنے دیگر وعدوں اور دعووں کی طرح اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور ایک بڑے پیمانے پر غریب ملازمین کا معاشی قتل ہونے جا رہا ہے مگر پرواہ کسے ہے کہ جب عقل پر خواہشات اور عادات حاوی ہوجائیں تو سب چلتا ہے لہذاعوام کو بھی اب سمجھ جانا چاہیے کہ کرسی پانے والے نہیں بدلتے بس ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں مگر یاد رہے کہ جو ماضی کو یاد نہیں رکھتے ان کے نصیب میں اسے دہرانا لکھ دیا جاتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.