حساب کون دے گا ؟

ہفتہ 20 نومبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے کہ تحریک لبیک تبدیلی سرکار سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئی اور ملک ایک بہت بڑے فساد سے بچ گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے سربراہ مولانا سعد رضوی سمیت تحریک لبیک سے منسلک درجنوں افراد کے نام فورتھ شیڈول لسٹ سے نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔ فورتھ شیڈول ایک ایسی فہرست ہے جس میں ایسے افراد کے نام ڈالے جاتے ہیں جن پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کے تحت دہشت گردی یا فرقہ واریت پھیلانے کا الزام ہو۔

واضح رہے کہ تحریک لبیک کارکنان نے گذشتہ کئی روز سے لاہور میں دھرنا دے رکھا تھا اور پھر اسلام آباد یلغار کی دھمکی دیتے ہوئے آگے بڑھنا شروع کر دیا تھا جنھیں وزیرآباد روکتے ہوئے مذاکرات کی کوشش کی جارہی تھی تو حکومت سے ہونے والے معاہدے کے بعد گرفتار کارکنوں کو رہا جبکہ اس تنظیم کا نام بھی کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے جس کے بعد ٹی ایل پی نے وزیرآباد دھرناختم کر کے واپس لاہو رکا رخ کرلیا ہے ۔

(جاری ہے)

تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے متعلق حکومت کا کہناہے کہ اس قدام سے جماعت کو قومی دھارے میں لانے میں مدد ملے گی کیونکہ اس جماعت نے ملکی آئین اور قانون کی پاسداری کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اس طرح کے احتجاجی مظاہرے نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے جبکہ تحریک لبیک کے اکابرین کا کہنا ہے کہ ہماری تحریک کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکل چکا ہے اور فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے لیے کمیٹی کے قیام پر کام شروع ہو چکا ہے لیکن جبتک جماعت کے تمام کارکنان رہا اور ان کے بینک اکاؤنٹس عملی طور پر بحال نہیں ہو جاتے تب تک تحریک کے تحفظات دور نہیں ہونگے ۔

ہمیں ماننا پڑے گا کہ تحریک مولانا طاہر القادری کی ہویا لبیک کی دونوں اتنی جاندار ہوتی ہیں کہ تخت لاہور لرزتا ہوامحسوس ہوتا ہے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ”جل بھی چکے پروانے ،ہو بھی چکی رسوائی ۔۔اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی “۔لیکن ذاتی مفادات کے حصول کی جنگ میں کوئی ناکام نہیں ہوتا۔باقی کس کو کیا ملا اور مذکورہ معاہدوں کی حیثیت کیا ہے یہ تو وقت بتائے گا کیونکہ کل تک اتنے سخت بیانات داغے جارہے تھے کہ تحریک لبیک دہشت گردی مچا رہی ہے مگر اب سنتے ہیں کہ مذہبی لوگوں سے ٹکراؤ نہیں چاہیے اورریاست کا کام ڈنڈا چلانا نہیں ہے یقینا ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں کا کام ڈنڈا چلانا نہیں ہوتا یہی ہم نے دھرنے کے آغاز میں لکھا تھا کہ مذہبی و ملکی معاملات میں ہٹ دھرمیاں نہیں افہام و تفہیم کی پالیسی کارگر ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے آمریت سے جمہوریت کا سفر تو طے ہوگیا مگر یہ جمہوریت تو آمریت سے بھی بد تر ٹھہری کہ جب تک لاشے نہیں اٹھتے تب تک قانون و انصاف اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔


سوال تو یہ ہے کہ ریاست معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بروقت فیصلے کیوں نہیں کرتی یاہمیں لاشے اٹھانے کا شوق ہے؟ رعونت اور انانیت ہمیں ذاتی مفادات سے ہٹ کر کچھ سوچنے ہی نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ جو طاقتور ہوتا ہے وپالیتا ہے اور غریب عدالتوں کی پیشیاں بھگت بھگت کر مر جاتا ہے ۔تبھی تو ماہر نفسیات انتھونی سٹیونزنے کہا تھا کہ جنگیں پارلیمینٹ یا فوجی ہیڈ کواٹرز میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں سے شروع ہوتی ہے یعنی کسی کے خلاف جنگ لڑنے کا محرک انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اور اسے تحریک تب ملتی ہے جب اسے باور کروایاجائے کہ اولاً اس کی حق تلفی ہو رہی ہے اوردوئم یہ کہ اس کیساتھ ہونے والی نا انصافی پر کوئی بھی پشیمان نہیں ہے لہذا اپنے حق کو چھیننے کے لیے وہ جو بھی کرے گا وہ جائز اور برحق ہوگا پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس جذبے کی بالیدگی بنی نوع انسان کے لیے واقعی خطرناک ہے ؟تو اس کا جواب بھی ہمیں نسلی ارتقا کے ماہرین سے ملتا ہے کہ جنسیت کی طرح جارحیت بھی ہر نوع کی بقا کے لیے ناگزیر ہے ۔

جارحیت وہ خوبی ہے جو انسان میں دھونس بازی اور آگے بڑھنے کی تحریک اجاگر کرتی ہے اسی جارحانہ رویے کی وجہ سے انسان طاقتور کو ہرا کر خوش ہوتا ہے جس کا آغاز سکول میں نمبر ون پوزیشن کے حصول سے ہو جاتا ہے پھر زیست کی پر پیچ پگڈنڈیوں پر دوڑتے بھاگتے معاشی حصول ، رہائش اور زندگی کے آسائش و آرام کے لیے کی جانے والی تگ و دو اسی تحریک کی بدولت ہوتی ہے ۔

دور مت جائیں اس کی مثال بھکاریوں سے مل جاتی ہے کہ انھوں نے بھی اپنے لیے علاقے مختص کر رکھے ہیں کہ ہرنئے آنے والے بھکاری کو اپنی جگہ بنانے کے لیے ہمت دکھانا پڑتی ہے ۔یہی برتری اور غالب آنے کی خواہش ایک عام فرد کو رہنما بنا تی ہے ۔یعنی ثابت ہوا کہ جارحیت چھوٹے گروہ کا بڑے گروہ کے خلاف ایسا ردعمل ہے جو طاقت کے توازن میں کمی کی صورت میں احساس محرومی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے جس میں مذکورہ شخص خود کو یا دوسروں کو لاشعوری طور پر نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے اور اگر اس کی بات نہ سنی جائے تو وہ تخریب کاری اور بد تہذیبی پر اتر آتا ہے اور یوں ایک مظلوم ایک ظالم بن جاتا ہے جو اپنے انتقام کی آگ میں خود بھی اور دوسروں کو بھی جلا دیتا ہے ۔

پاکستان میں بحرانوں کے پیچھے ایسے ہی عوامل کارفرما ہوتے ہیں بایں وجہ حل سڑکوں پر ہونے لگا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس وقت جو ملک کا حال ہے کہ مہنگائی ،بے روزگاری اور لوٹ مار نے جینا دوبھر کر رکھا ہے کہ ہر دل کے اندر آگ لگی ہے کیونکہ عوامی ریلیف کے لیے کوئی دھرنا دینے ۔آواز اٹھانے اور سنجیدہ اقدام کرنے کو تیار نہیں تو ایسے میں جو لاوا پک رہا ہے وہ بہہ نکلا تو کیا ہوگا ؟باقی یہ تو سچ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کی تدابیر کر لی ہیں اور تحریک لبیک نے اپنی بقاء کو یقینی بنا لیا ہے مگر وہ جو تمام ناحق شہید کئے گئے ہیں ان کا حساب کون دے گا ؟جہاں تک اعلیٰ عدلیہ کا فرض ہے ان پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر ازخود نوٹس لیں اور پاکستانی مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے ہی پاکستانی مسلمانوں کو شہید کرنے والوں اور ذمہ داران کے خلاف اپنی اسی عہدہ داری اور اسی زندگی میں جلد سے جلد انصاف کو یقینی بنائیں کہیں ایسا نہ ہو یہ سب ذمہ داران بھی اس دنیا سے یا اپنے اپنے منصب سے فارغ ہو کر چلے جائیں اور سپریم کورٹ پھر ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :