سیاستدانوں باز آجاؤ !

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

سیاسی حریفوں کی بڑھتی ہوئی عوامی پذیرائی سے گھبرا کر سوقیانہ زبان استعمال کرنے کی روایت پرانی ہے ۔اگر ہم تاریخ کے ابواب پلٹیں تو حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ قائداعظم کی وفات کے بعد جتنے بھی سیاستدان اور حکمران آئے انھوں نے گفتار کے معاملے میں رحمت الالعالمین نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی کو رہبر نہ جانا اور مخالفوں اور حلیفوں کے لیے ایسے الفاظ استعمال کئے جو کہ مسلمان سربراہان کو کسی طور زیب نہیں دیتے تھے ۔

حالانکہ سبھی جانتے تھے کہ قیام پاکستان سے پہلے جتنی بھی تحریکیں چلیں ان کے قائدین اپنے قول و فعل اور اخلاق کے معاملے میں با عمل مشہور تھے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس قبیح سیاسی روایت کی داغ بیل لیاقت علی خان نے ڈالی اور حسین شہید سہروردی کو غدار ، ہندوستانی ایجنٹ اور بھارت کا چھوڑا ہوا کتا تک کہہ دیا تھا ۔

(جاری ہے)

جس پر مولانا مودودی نے اصلاح بھی کرنی چاہی اور کہا تھا کہ غداری کا الزام ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص پر کوئی بدکاری کا الزام لگا دے ،اس لیے جبتک ثبوت نہ ہو ،یہ گالی دینا سیاست میں مناسب نہیں ہے ۔

یقینا یہ بھی ایک بڑی بات ہے کہ ایک عالم دین نے نوٹس لیا جبکہ آج تو اکثریتی مذہبی علماء بھی حکومتی سربراہان کے ایسے قول و فعل جو اسلامی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں ان کی مذمت اور اصلاح کم ہی کرتے ہیں بلکہ الٹا ان کے ہی گیت گاتے ہیں ۔ممکن ہے اس وقت بھی دیگر مذہبی علماء نے تائید میں آواز بلند نہ کی ہو اور یہ سلسلہ تواتر سے چلنے لگے کہ گورنر جنرل ملک غلام محمد کے بارے میں لکھا گیاکہ وہ تو باقاعدہ مخالف سیاستدانوں کو گالیاں دیتے تھے ۔

پھر جنرل ایوب خان نے جو کیا وہ انتہائی اہانت آمیز تھا کہ جب دیکھا عوام کا اعتماد اور بے پناہ عزت محترمہ فاطمہ جناح کی جیت کو یقینی بنا رہی ہے توان پر ملک دشمن ہونے کے علاوہ شادی نہ کرنے کے حوالے سے بھی الزامات لگائے۔ شاید مکافات عمل تھا کہ ایوب خان کے خلاف تحریک چلی اور مخالفین نے یوں قوم کو ابھارا کہ قوم گالی گلوچ پر اتر آئی ۔ شیخ مجیب الرحمن یوں گویا ہوئے کہ اقتدار میں آکر نورالامین کی کھال ادھیڑ کر اس کے جوتے بنائیں گے ۔

رہی سہی کسر بھٹو نے پوری کی وہ مخالفین کے نام بگاڑتے اور اصغر خان انھیں اڑے ہاتھوں لیتے رہتے اور ضیاء دور میں ایسی انتہا ہوئی کہ سیاستدانوں کی آپسی گالم گلوچ سے تنگ آ کر میاں محمد علی قصوری نے کہاکہ سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں نہ دیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے اس قدر عامیانہ زبان شریف مخالفین نے استعمال کی اسی ضمن میں شیخ رشید کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی ۔

پھر شیریں مزاری کیلیے خواجہ آصف نے ،بشری بی بی اور عمران خان کے لیے رانا ثنا اللہ اور دیگر کے بیانات اور عمران خان نے مخالفین کے لیے جو کچھ کہا وہ ابھی قصہ پارینہ نہیں ہواہے کہ اب مریم نواز نے کہہ ڈالا ہے کہ خان صاحب جادو ٹونے سے ملک چلا رہے ہیں اور ردعمل میں وزیراعظم کے خصوصی معاون شہباز گل نے مریم نواز کو سیاسی چڑیل کہہ کر عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیارہبران قوم کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف ایسے ہی ہوتے ہیں ؟حالات یہ ہیں کہ سیاست میں دشنام طرازی اور لغو زبان کے استعمال کے ذریعے مخالفین کو زیر کرنا لازمی جزو بن چکا ہے اور جو سبقت لے جاتا ہے وہ بہترین ترجمان قرار پاتا ہے ۔


بدقسمتی سے سیاست وہ اکھاڑا بن چکا ہے جس میں مختلف طاقتور گروہ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے اور مطلق العنان بننے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے باہم معرکہ آرا رہتے ہیں ۔ عوام بے زبان بھیڑ بکریوں کا گلہ بن کر رہ گیا ہے جسے طاقتور طبقات ہانکتے رہتے ہیں بلکہ ایسے بیانات داغتے ہیں کہ غریب آدمی خود بخود قدموں میں بیٹھ جاتا ہے جیسا کہ ہمارے لیے جیل کوئی نئی بات نہیں ہے اگر گرفتار کرنا ہے تو کر لیں ۔

۔ایسی نوبت کیوں آتی ہے یقینا اسے یقین ہوتا ہے کہ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جبکہ ایسے بیانات کسی بھی مسلم ریاست کے لیے بڑا المیہ اور تشویش کا باعث ہونے چاہیے لیکن میڈیا یوں دکھاتا ہے جیسے مفکرین کے اقوال ہوں ۔یہ پاکستانی سیاست کے لیے لمحہ فکریہ اور غورو خوض کا وقت ہے ۔۔کوئی جوتا مارتا ہے ،کوئی گالیاں نکالتاہے ،کوئی بہتان لگاتا ہے اور کوئی سر عام آئین توڑتا ہے تو آپ ملکی اقدار و روایت اور آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے آنے والی نسلوں سے کیا امید کرتے ہیں کہ وہ کس کے نقش قدم پر چلیں گے ؟ جبکہ انھیں سارا ہی پتہ چل چکا ہے کہ آج تک جس کو بھی حکومت ملی اس نے اپنے حالات سنوا ر لیے اور عوام کی بد حالی مزید بڑھی ۔

عوام کو نہ کوئی بنیادی سہولتیں ملیں ،نہ قانون و انصاف کا بول بالا ہوا اور نہ ہی کوئی ایسا قانون بن سکا جس سے ایوانوں میں بیٹھے ہوؤں لوگوں کی اخلاقیات کو بہتر کیا جا سکے اور حکومت اس قابل ہو سکے کہ ملکی اداروں کے ساتھ ملکر ملک کے اندر عوام کے لیے کوئی بھی کام میرٹ پر کر سکے ۔ آج عوام کو جو بھی سیاستدان یا سیاسی جماعت نظر آتی ہے وہ ہمہ تن صرف حکومتی ایوانوں میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے حسب روایت ایسے وعدے کرتی نظر آتی ہے جس کو وہ اسی وقت ہی بھول جائیں گے جب ان کو ان کی حسبِ منشا اقتدار یا اختیار مل گیا ۔


بحر کیف ہم مانتے ہیں کہ سوقیانہ زبان اور دشنام طرازی کی روایت پرانی ہے اور بہت سی مثالیں ہیں جو کہ نا قابل بیان ہیں مگر سیاستدانوں کی سوقیانہ زبان سیاسی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ مسلم ریاست کی سیاسی گراوٹ کو بھی ظاہر کرتی ہے کیونکہ ہم اس نبی پاک کی امت ہیں جو کہ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے تو ہم کس کی پیروی میں اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور اس پر کمال ڈھٹائی سے مسکراتے ہیں ۔۔ظاہر ہے کہ ملک میں لا قانونیت اور غیر جمہوری اور غیر اسلامی کلچر کے فروغ سے ظلم اور نا انصافی کے علاوہ کوئی فصل برگ و بار نہیں لاسکتی اور یہی ہو رہا ہے مگر ہر چیز کی حد ہوتی ہے تو سیاستدانوں باز آجاؤ کیونکہ زمانے کی کروٹ ہلاکت خیز ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :