پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !

جمعرات 11 نومبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

 گزرے وقتوں کی بات ہے کہ ایک طوطا اور طوطی کا گزر ایک ایسے ویرانے سے ہوا جہاں ہُو کا عالم تھا اورشجر بھی خزاں رسیدہ تھے‘ یہاں تک کہ جانوروں اور انسانوں کی ہڈیاں بھی اِدھر اُدھربکھری پڑی تھیں‘ یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان سے وحشت ودہشت برس رہی ہو‘چشمے بھی خشک ہو چکے تھے۔ طوطی نے طوطے سے کہا : کس قدر ویران جگہ ہے جبکہ موسم بھی اچھا ہے مجھے تو ڈر لگ رہا ہے یہاں کونسا عذاب نازل ہوا ہے‘ تو طوطے نے کہا : میری پیاری !یوں لگتا ہے کہ یہاں سے کسی الّو کا گزر ہوا ہے جو کہ بھری بہار میں بھی یہ علاقہ ویران ہوگیا ہے ۔

جس وقت وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے عین اسی وقت ایک اُلّو وہاں سے گزر رہا تھا۔ الّو نے جب طوطے کی بات سنی تو رک گیا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا: تم لوگ مسافر لگتے ہو‘مجھے مہمان نوازی کا موقع دو اور میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔

(جاری ہے)

الّو کی محبت بھری دعوت سے طوطوں کا جوڑی انکار نہ کر سکی اور اس کے ساتھ ہو لیے‘ الّو نے خوب خاطر داری کی اور جب انھوں نے کھانے کے بعد اجازت چاہی تو الّو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا تم کہاں جا رہی ہو؟ اس نے کہا! اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہو ں الّو یہ سن کر ہنسا اور کہا ! یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تم تومیری بیوی ہو۔

اس پر طوطا ‘طوطی اور الّو کے بیچ ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ جب بحث و تکرار بہت بڑھ گئی تو اُلّو نے ایک تجویز پیش کی کہ ایسا کرتے ہیں کہ قاضی کے پاس چلتے ہیں وہ جو فیصلہ کرے گا ہمیں منظور ہوگا۔ الّو کی تجویز سے سب متفق ہو گئے اور قاضی کے سامنے مقدمہ پیش کیا قاضی نے دلائل کی روشنی میں الّو کے حق میں فیصلہ دیکر عدالت برخاست کر دی طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلّو نے آواز دی کہ بھائی! کہاں جاتے ہو؟ اپنی بیوی تو لے جاؤطوطے نے تعجب سے اُلّو کی طرف دیکھا اور کہا کہ سب کچھ چھین کر مذاق کیوں اڑاتے ہو! اب تو عدالت نے بھی فیصلہ دے دیا ہے یہ اب میری بیوی کہاں ہے تو اُلّو نے محبت سے کہا : نہیں دوست ۔

۔یہ تمہاری ہی بیوی ہے‘ میں تو تمہیں صرف یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ بستیاں اُلّو ویران نہیں کرتے بلکہ بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے اور حکمرانوں کو خواہشات گمراہ کر دیتی ہیں :کمزور کو دبایا جاتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا چلن عام ہوتا ہے۔ہر قسم کی برائی کی سرپرستی حکومتی سطح پر کی جاتی ہے یہاں تک کہ راہبر راہزن بن جاتے ہیں اور پھر ایسی ریاستیں ایسی کھلی تجوری کی طرح ہو جاتی ہیں جنھیں کوئی بھی لوٹ لے پھرخدائی عذاب نا زل ہوتا ہے ۔

وزیراعظم پاکستان کا حالیہ خطاب سنا تو مجھے یہ کہانی یاد آگئی کیونکہ گذشتہ چار برس سے ہمیں یہی لالی پاپ دیاجارہا تھا کہ مہنگائی مافیاز کیوجہ سے ہے جوکہ بہت طاقتور ہیں مگر ہم انھیں ختم کر لیں گے لیکن اب کہا جارہا ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے بلاشبہ ہر ذی شعور حیرت زدہ رہ گیا ہے کیونکہ آٹا ،چینی مافیاز تو ایک طرف ڈالر مافیا کا بھی انکشاف ہوچکا ہے پھر بھی عوام کو برداشت کی ہی تلقین ایک سوالیہ نشان ہے ۔


مجھے کہنے دیجیے! اس وقت ملکی حالات لمحہ فکریہ ہیں بس غرض اور ہوس کا معاملہ رہ گیا ہے لہذا اگر اس ریاست کو بچانا ہے تو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انصاف کا بول بالا کرنا ہوگاکیونکہ قوموں کی عظمت و حشمت تبھی قائم رہتی ہے جب وہ حق بات کہنے اورگنہ گار کو سزا دینے میں غیر جانبداری کا مظاہر ہ کرتی ہیں مگر کیا کیا جائے۔۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں سیاست اور افسر شاہی میں کسی بھی عہدے پر فائز ہونے والا نیت اور اراداتاً ہی ملک و قوم کو لوٹ کر کھا جانے لیلئے ہی آتا ہے ،عہدہ طلبی اور اختیارات کے حصول کیلئے ہر نا جائز حربہ استعمال کرنے کے بعد اس نے منزل مراد حاصل کی ہوتی ہے لہذا کیسے ممکن ہے کہ وہ اس فرقہ بندی اور ذاتوں میں تقسیم قوم کو معاف کر دے ،لیکن اگر صرف قانون ا ور انصاف کی عملداری ہوجائے تو پھر یقینا آئیس لینڈ اور یوکرائن کے وزرائے اعظم اور عوام جیسی اخلاقی جرائتیں یہاں بھی دیکھنے میں آسکتی ہیں کہ پانامہ لیکس میں نام آنے پر فوری طور پر مستعفی ہوگئے تھے اور جو نہیں ہوئے تھے انھیں عوام نے نکال باہر کیا تھا ۔

جبکہ ہمارے ہاں جن کے نام آئے تھے وہ ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں اور دوسری طرف جن کے پینڈورا بکس میں نام آئے ہیں وہ بھی اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہیں اورکوئی قابل ذکر ایکشن بھی دیکھنے میں نہیں آرہا ۔۔البتہ زیادتی تو یہ ہے کہ ایک بار پھر سعودی عرب سے امداد ملنے اور تاریخی ٹیکس ریونیو اکٹھا ہونے کے باوجود پٹرولیم مصنوعات اور تمام اشیائے خوردونوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیاگیا ہے جو کبھی گذشتہ چوہتر برسوں میں نہیں ہوا تھا اور یہیں پر بس نہیں ہوئی بلکہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مزید اضافوں کا عندیہ دیکر آدھی رات کو مزید اضافہ کر کے گڈ گورننس کے فقدان کو ثابت کر دیا ہے اور رائے عامہ یہی ہے کہ وزیراعظم کرپشن کی راہ روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں جس پر اپوزیشن رنگین بیانی کر رہی ہے ۔

افسوس !ہر ناکام پارٹی صرف رنگ بازی اور سیاسی بھنگڑا دکھانے میں مصروف ہے جونہی مفادات کے اہداف پورے ہوجائیں گے تو جاری تماشوں کی پٹاریاں بند کر دی جائیں گی یہی وجہ ہے بظاہر لگتا ہے کہ کوئی مضبوط امیدوار موجود نہیں اور یہی خوش فہمی ماضی کے حکمرانوں کو تھی اسلیے میں آج پھر کہونگی کہ مکافات عمل کی چکی چلتی آہستہ ہے مگر پیستی بہت باریک ہے کہ کہیں ٹھکانہ نہیں ملتا ۔ اب ہر کسی کو یہ کہنے کا حق ہے کہ : پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :