تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟

جمعہ 31 دسمبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

حالیہ انتخابی نتائج نے پی ٹی آئی کے مستقبل کا واضح تعین کر دیا ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ حکمران جماعت اپنی رابطہ کاری سے غفلت ،لاپرواہی اور عوامی مسائل سے لاتعلقی برتنے کی بدولت مقبولیت کھو چکی ہے۔عام آدمی تبدیلی وعدوں سے متنفر ہو چکا ہے اور اس نے سوچ لیا ہے کہ ”نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی ۔۔یہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ہی لگے “ یہ چھوٹی بات نہیں کہ خیبر پخوتخواہ جو کہ تبدیلی سرکار کا گڑھ مانا جاتا ہے وہاں سے پی ٹی آئی کا خاتمہ لمحہ فکریہ ہے لیکن حیرت تو اس بات پر ہے کہ وزیر و مشیر بچگانہ بیانیوں سے دفاع کر رہے ہیں اور اگر زیادہ کریدا جائے تو تکبرانہ ڈائیلاگ بازی کا سہارا لیتے ہیں وہ بھلا چکے ہیں کہ ”جو شاخ تنے کی نفی کر دے ۔

۔

(جاری ہے)

اس شاخ پر کیا گلاب آئے “۔لیکن اس اطمینان کے کیا کہنے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ جیتنے والی جماعت دہشت گرد ہے جبکہ ہم تو مسیحا تھے تبھی باشعور کہنے پر مجبور ہیں ”آپ نے صرف مسیحائی کی ۔۔درد کیوں حد سے گزرتا ہی گیا “۔
 2021 اپنے اختتا م کی طرف بڑھ رہا ہے اگر غیر جانبداری سے گذشتہ برس کا جائزہ لیں تو ہم پر عیاں ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا البتہ جو موجود تھا وہ بھی جاتا ہوا نظر آرہا ہے اور یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ پی ٹی آئی کے چاہنے والے لکھ رہے ہیں کہ مافیاز دھندناتے پھر رہے ہیں کہ ایک عجب لوٹ مار مچی ہے جس میں عام آدمی کی جمع پونجی خرچ ہو چکی ہے مگر فریاد کوئی نہیں سنتا بلکہ پہلے جو گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے تھے وہی پی ٹی آئی کارکنان اور بہی خواہ یہی ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں کہ ان کی سنی نہیں جا رہی بلکہ نظریاتی کارکنان کا تو اہم جگہو ں پر داخلہ بند ہوئے تین برس گزر چکے ہیں اور احتجاج بھی نہیں کرنے دیا گیا ۔

تبھی سی تبدیلی سرکار پر آمریت نما جمہوریت کی چھاپ لگ چکی ہے جس کا مظاہرہ ہر احتجاج کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی نہ کوئی لاشہ گرتا ہے مگر عام آدمی کو حاصل حصول کچھ نہیں ہوتا ۔عوامی رائے یہی ہے کہ تمام اعلی وحکومتی عہدے داران جن کو دلکش اور اعلی عہدے بخش دیے گئے ہیں وہ اپنے موج میلوں میں لگے ہیں اور اُنکا کام صرف اور صرف ٹی وی ٹاک شوز میں بیانات داغنا اور عوامی اجتماعات و تقریبات کی رونقوں سے دل بہلانا رہ گیا ہے ۔

اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یا تو ان میں مطلوبہ صلاھیتوں اور اہلیتوں کا فقدان ہے یا پھر وہ ہر وقت غیر سنجیدہ رہ کر اپنے الٹے کام سیدھے کرتے رہتے ہیں اور سرکاری ذرائع و اختیارات سے ذاتی نفع بخشیوں میں لگے رہتے ہیں کیونکہ منصوبوں میں تو بھنگ کی کامیاب کاشت کے علاوہ کوئی قابل ذکر منصوبہ نظر نہیں آیااور اگلے پانچ برسوں میں بہتری دکھانے کا لالی پاپ تھمایا جا رہا ہے۔

حالانکہ اب بیانیوں کا نہیں کچھ کر دکھانے کا وقت تھا کیونکہ مولانا یا دیگر کوئی جماعت بھی جیتے اس سے صاف ظاہر ہے کہ کپتان، حکومتی عہدے داران اور بیوروکریسی کی لاپرواہی اور زیادتیوں نے عوام کوانتقامی طور پر ایسے کرنے پر مجبور کیا ہے وگرنہ ناکام اور باغی آزمائی ہوئی جماعتوں کوکون ووٹ دیتا ہے جبکہ یہ علم ہو کہ کرنا تو انھوں نے بھی کچھ نہیں بس ان کے عہدے اور مراعات بحال ہو جائیں گی۔

کیونکہ کونسا ایسا محکمہ ہے جس میں شفاف بنیادوں وں پر معاملات ہوتے ہیں بلکہ تبدیلی سرکار کے دور میں تو ایسی چھوٹ ملی ہے کہ جو سنتے تھے اب غراتے ہیں یعنی ریاستی رٹ اپنی حیثیت کھو چکی ہے حالانکہ سوشل میڈیا ایک طاقتور میڈیم تھا مگر اب سچ و جھوٹ کو الجھا کر گمراہی پھیلا رہا ہے اور ساری سیاسی جماعتیں ایکٹوہیں ۔ان حالات میں خان صاحب نے کہا ہے کہ تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ ابھرے گی !سوال یہ ہے کہ اب کون سی گیدڑ سنگی ان کے ہاتھ لگ گئی ہے کہ جو آپ ہتھیلی پر سرسوں جما ئیں گے ۔

تنظیمیں توڑنے سے بھی کچھ فرق نہیں پڑنے والا کہ وقت چال قیامت کی چل چکا آپ نے اپنے وفا دار ، اہلیت رکھنے والے اور حق دار کارکنان سے بھی بہت زیادتی کی ہے کہ اقتدار ملتے ہی ان کی خدمات کو بھلا کر طاقتوروں اور سر مایہ دار موقع پرستوں کو نوازا جس کی وجہ سے نظریاتی کارکن اور عوام کا بھروسہ ختم ہواپھر کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو کہ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں سرگرم عمل ہو البتہ ایک دوسرے کی تضحیک کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے اور جو وقت بچتا ہے اسے اٹکل پچو تشہیری کوششوں میں گزارتے ہیں ۔

بدنامی اور ناکامی کی اس سے بڑھ کر بات کیا ہو سکتی ہے کہ شنید ہے آئندہ انتخابات میں ایک سزا یافتہ اور ملک سے فرار ہونے والا شخص وزارت عظمیٰ کا فیصلہ کرے گا جبکہ جو اس وزارت پر براجمان ہے وہ ہر طرح سے ناکام ہے حالانکہ ن لیگ بلا وجہ ہی ٹھان چکی ہے کہ وزارت عظمیٰ کی سیٹ وہ جیتیں گے اور میاں شہباز شریف یا مریم نواز کو عہدے کے لیے چنا جائے گا ۔


بہر حال یہ برس بھی سسکیوں ،آہوں ،دکھوں ،تکلیفوں ،پریشانیوں ،اقربا پروری ،میرٹ کا قتل ،سفارش اور رشوت کی آلودہ فضاؤں سے لڑتے بیت گیا ۔حکومتی کار کردگی پر ہر طرح کے عوامی تحفظات رہے اور اپوزیشن نے سوائے ڈس انفارمیشن کے کوئی کار دگی نہیں دکھائی ۔دعا ہے کہ اگلا آنے والا سال پاکستان کے لیے ہر لحاظ سے بہتر ہو کیونکہ اگر پاکستان ترقی کرے گا تو عوام خوشحال ہونگے جہاں تک ہو سکا ہم نے تعمیر وطن کے لیے جو بھی کڑوا سچ کہنا پڑا کہا اور حق گوئی اور بیباکی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا کبھی ذاتی یا تخریبی سوچ سے کوئی منفی ،تخریبی تحریر نہیں لکھی ۔

انشا اللہ آنے والے سال میں بھی میانہ روی ،اعتدال اور حق و انصاف سے کام لیتے ہوئے صحافتی اوراق کو خدمت وطن کے مقدس مشن میں استعمال کریں گے تاکہ اسلامی فلاحی ریاست کی ترقی و خوشحالی کے لیے قانون و انصاف ،اسلامی تعلیمات اور انسانی فلاح و بہبود کے پروگراموں کی با مقصد اور معیاری خدمت کر سکیں آخر میں حکومت کے لیے یہ پیغام ہے کہ برسر اقتدار کوئی بھی آجائے ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن اگر حکمران جماعت کے عہدے داران عوامی رابطہ کاری کو بہتر کریں اور عوام کے خادم بن جائیں تو اس سے عوام بھی گرویدہ ہو جائیں گے کہ اپوزیشن جو بھی منفی پروپگنڈے کرتی ہے پھر اسے قبول نہیں کریں گے اور اپنے ووٹ کاا ستعمال ذہنی غلام بن کر نہیں بلکہ پاکستان کے آزاد شہری بن کر کریں گے تو ایسا کرنے سے یقینا نتائج مثبت ہونگے وگرنہ حالیہ نتائج تو واضح عندیہ دے رہے ہیں کہ ”اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ ۔

۔جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :