آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر

بدھ 1 دسمبر 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

کہتے ہیں کہ سردی کا موسم بہت رومان پرور ہوتا ہے ۔اس میں سورج کی شدت اور آگ کی گرمی بھی مزہ دیتی ہے۔لیکن اب کہ ایسا موسم اترا ہے کہ یہ دونوں شدتیں اپنا اثر زائل کر چکی ہیں کیونکہ ایک طرف تو لاہور کی فضاؤں میں اسموگ کا راج ہے تو دوسری طرف منہ زورمہنگائی سے ناکافی ضروریات زندگی دستیاب ہونے کیوجہ سے ہر کوئی پریشان ، بیمار اور بد حال ہے اور حالات یہ ہیں کہ” جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا ۔

۔ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو “۔کچھ پاکستانیوں کے نصیب بھی ایسے ہیں کہ ”سردی میں دن سرد ملا ۔۔ہر موسم بے درد ملا “کہ گرمیوں میں لائیٹ نہیں ہوتی اور سردیوں میں گیس نہیں ہوتی اسلیے پنکھا اور ہیٹر بھی ڈیکوریشن پیس بن کر رہ گئے ہیں ۔جو بھی برسر اقتدار آیا اس کی ناقص منصوبہ بندیوں ، مفاد پرستیوں اورنا اہل ساتھیوں نے پہلے سے موجود عوامی مشکلات میں اضافہ ہی کیا اور پانچ برس طفل تسلیوں اور لفاظیوں میں گزار دیے۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیونکہ عمران خان روایتی سیاست کا بت توڑنے کا وعدہ کر کے آئے تھے اور یوں انٹری لی کہ دکھائی دیے یوں کہ بے خود کئے اور پھر یوں کیا کہ سبھی کی خودی اور خوداری چھین لی کہ جیسے ہی اقتدار انکی زندگی کا جزو لاینفک بنا تو یہی بہتر سمجھاکہ ہر اچھے برے کام پر کہا جائے کہ سب چلتا ہے کیونکہ بازار سیاست کا کاروبار یونہی چلتا ہے ۔

تبھی توٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹس کے مطابق جتنی کرپشن حالیہ دور حکومت میں ہوئی ہے اتنی چوہتر برسوں میں نہیں ہوئی ”ہوئے رشوت کے آگے سرنگوں سب ۔۔مثالیں دے رہے تھے کربلا کی “۔
لیکن اب کہ تو وزیراعظم نے وہ آخری شمع بھی بجھا دی ہے جس کی ضیا چار برسوں کی تلخ نوائیوں اور پریشانیوں کے بعد بھی اچھے کی امید دلاتی تھی بقول شاعر ”تم نے لہجہ بھی سرد کر ڈالا ۔

۔سردیوں کے عذاب کم تھے کیا ؟جناب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ملک چلائیں حالانکہ وہ اس تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس میں وہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں بڑی کامیابی حاصل ہونے پر ایف بی آر اور وفاقی مشیر خزانہ کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے کہ ان کی حکومت میں ٹیکسوں کی ریاکارڈ وصولی ہوئی ہے ۔مگر پرانی روایت کو برقرا رکھتے ہوئے بات جب عوامی ریلیف کی آئی تو وہی رونا دھونا اور ماضی کے حکمرانوں کی غلطیاں ،چوریاں اور نا اہلیاں گنوا دیں گئیں بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ ہمارے ہاں ٹیکس کلچر بنا ہی نہیں ہے تبھی ملک نہیں چل سکتا ۔

عوام حیران ہیں کہ ریکارڈ ٹیکس وصولی اور مختلف ممالک سے ملنے والی امدادی رقوم کہاں گئیں اور کہاں جاتی ہیں ؟یہ کیساپاکستانی حکومتی خزانہ ہے کہ اس میں جتنا مرضی ڈالو یہ خالی ہی رہتا ہے ؟حالانکہ نہ تو کوئی ڈیم بنا ہے اور نہ ہی کوئی انفراسٹرکچر پروگرام تیار کئے گئے ہیں بلکہ جو بنا ہوا تھا وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہورہا ہے کہ کہیں کسی بھی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آتی بلکہ حالات یہ ہیں کہ کورونا سے تھوڑا سکون ہوا تو ڈینگی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے مگر وزیروں اور مشیروں کو بیانات داغنے اور مبینہ آڈیوز و ویڈیوز کی فرانزک کرنے سے فرصت نہیں ملتی ۔

۔عجیب دور حکومت ہے کہ اب تو بچہ بچہ کہتا ہے کہ ”کیا سنائیں تمھیں حکایت دل ۔۔ہمیں دھوکا دیا گیا جاناں “۔ہمارے وزیراعظم کو لفاظی میں ید طولیٰ حاصل ہے مگر جب بات عوامی ریلیف اور وسیع عوامی مفادات میں اصلاحات کے نفاذ کی آتی ہے تو ہر بار ثابت ہوا ہے کہ ”علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں ۔۔وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے “۔واقعی ہر فریاد ایوانوں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے البتہ طاقتور کو سب مل جاتا ہے جبکہ کمزور کے لیے سب اچھا ہے ۔

۔۔!پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنیں تو صبح اپنے وزیروں سے پوچھا کہ آجکل گیدڑ بہت شور کرتے ہیں جس سے نیند خراب ہوتی ہے‘ کیا وجہ ہے ؟ وزیر نے کہا : جناب ! کھانے پینے کی کمی ہوگی اسلیے فریاد کر رہے ہیں تو بادشاہ نے حکم دیا کہ بہترین بندوبست کیا جائے تو سارا سامان اور پیسے وزیروں اور درباریوں نے آپس میں بانٹ لیے مگر رات پھر آوازیں آئیں تو بادشاہ نے صبح پھر استفسار کیا کہ کیا سامان نہیں بھجوایا گیا ؟تو وزیر نے کہا : جناب ! سردی کیوجہ سے شور کر رہے ہیں۔

بادشاہ نے حکم دیا کہ بستروں اور دیگر ضروری چیزوں کا انتظام کیا جائے تو صبح پھر وزیروں اور درباریوں کی موجیں لگ گئیں مگر رات ہوئی تو پھر وہی آوازیں آنا شروع ہوگئیں تو بادشاہ نے فوری طور پر وزیر کو طلب کیا اور کہا کہ تم نے بندوبست کیوں نہیں کیا ؟ وزیر نے کہا کہ میں ابھی پتہ کر کے آتا ہوں اور کچھ دیر بعد آ کر کہا: بادشاہ سلامت !وہ شور نہیں کر رہے بلکہ آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور اب کرتے ہی رہیں گے کیونکہ انھیں ان کی اوقات سے زیادہ مل گیا ہے ۔

یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور وزیر کو انعام و کرام دیکر رخصت کیا ۔۔یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ یہی رپورٹ دی جاتی ہے کہ سب اچھا ہے تبھی وزیراعظم کہتے ہیں کہ پاکستانی اوپر جا رہے ہیں اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے لیکن کب تک یہ ایوانوں سے ڈھابوں تک کا فاصلہ جلد ختم ہوجائے گا اورمیں تو جب ان سیاستدانوں کی عمریں دیکھتی ہوں اور کارنامے سنتی ہوں تو مجھے افتخار عارف یاد آجاتے ہیں ۔۔
”آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی ہوئی عمر
سانس اکھڑتی ہے نہ زنجیرِ ہوس ٹوٹتی ہے“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :