لمحوں نے خطا کی تھی ،صدیوں نے سزا پائی !

جمعہ 17 جولائی 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

آج میرا جنم دن ہے تو مناسب جانا کہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ،معاشی نشیب و فراز اور ملکی حالات و واقعات سے ہٹ کر اس دنیا میں ہمارے آنے کا سبب بننے والے والدین کی عزت و عظمت بارے لکھوں کہ جو ہیں تو ہم ہیں مگر بعض نادانوں کا خیال ہے کہ ان کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا والدین اولاد کیلئے انمول عطیہ خداوندی ہیں والدین اور اولاد کاخونی تعلق ان کے باہمی ،پرخلوص اور بے غرض محبت کا متقاضی ہے ۔

”بچہ “والدین کیلئے خدا کا تحفہ ہوتا ہے جو وہ اپنے خدا سے دعائیں مانگ مانگ کر لیتے ہیں اور پھر اس کی نازو نعم سے پرورش میں کوئی دقیقہ گرو گذاشت نہیں کرتے ۔”ماں اور باپ دونوں کی توانائیاں اپنے جگر گوشوں کی بہتر نشونما اور تربیت میں صرف ہو جاتی ہیں اور بالخصوص ماں کا کردار تو لازوال ہے کہ اپنی راتوں کی نیند یں حرام کرنا ،بچہ پیشاب کرے تو خود گیلی جگہ پر سوجانا بچہ بے چین ہو تو خود بے چین اورپریشان ہوجان الغرض اسکا ہر لمحہ اپنے بچے کے لیے وقف ہوتا ہے اور باپ کی بھی تگ و دو اپنے خاندان خصوصاً بچوں کیلئے بہتر وسائل ،خوراک ،لباس اور تعلیم کے حصول کے لیے ہوتی ہے اور ہمہ وقت گھرانے کے ہر فرد کی جان و مال کا محافظ ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

دیکھا گیا ہے کہ کم وسائل والے والدین خود روکھی سوکھی کھا کراپنے بچوں کیلئے بہتر غذا اور دیگر ضروریات زندگی کا بندو بست کرتے ہیں تاکہ انہیں کسی قسم کا شکوہ باقی نہ رہے سچ تو یہ ہے کہ شفقت پدری اور آغوش مادر وہ انمول خزانے ہیں جو خوش نصیبوں کو حاصل ہوتے ہیں کسی کے ماں باپ حیات ہیں تو سمجھیں آپ دنیا کے سب سے زیادہ مالدار انسان ہیں کیونکہ والدین کی دعائیں اور سرپرستیاں مقدر والوں کونصیب ہوتی ہیں ۔


مسلم معاشرے میں والدین کی عزت و احترام تو مذہبی فریضہ بھی ہے قرآن حکیم میں والدین بارے ارشاد ہے :”اور انھیں اُف تک نہ کہو “ یعنی اللہ تعالی نے اولاد کو والدین بارے سخت تلقین کی ہے ۔بچہ ماں باپ کی گود میں پلنے سے لیکر چلنے ،بڑھنے اور سیکھنے کی منازل تک پہنچتا ہے نیک اولادیں ہر حال میں والدین کے ان احسانوں کو یاد رکھتی ہیں اور کچھ ایسے نادان ہوتے ہیں جوخوشحال ہوتے ہی اپنے والدین کا پیار ،محنت،ریاضت اور توجہ سبھی کچھ بھلا کر خود خدا بن بیٹھتے ہیں کہ والدین کی عزت تو درکنار ان سے پیار سے بات بھی نہیں کرتے انکی جائز ضروریات کا خیال نہیں رکھتے انکے علاج معالجے پر دھیان نہیں دیتے بس وہ گھر کے کسی کونے میں پڑے رہیں تو پڑے رہیں مگر یاد رکھیں ”انسان “بھوک پیاس تو برداشت کر لیتا ہے مگر اولاد کے ہاتھوں تذلیل اور بے توجہی سے دلگرفتہ ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں والدین کو جیتے جی مار ڈالتی ہیں اورپھر اس عالم میں کوئی دکھی دل اپنے خالق سے اگر فریاد کر بیٹھے تو اس کی آہ نارساعرش بریں سے مایوس نہیں لوٹتی کہ خدا ہر ذی روح کا گھڑی گھڑی کا بہتر اور اعلیٰ حساب رکھنے والا ہے خود سر اولاد کا والدین کے ساتھ رعونت بھرا لہجہ اور فرعونیت وقتی طور پر اولادکو مطمئن کرتا ہو گا مگر یہ والدین کے ساتھ سراسر زیادتی ، نا انصافی اور بد نصیبی ہے وہ اپنا آج اور اسکی رعنائیاں ایک امید کے سہارے اور اپنے بچوں کے اچھے مستقبل پر قربان کر دیتے ہیں تو جب انکے اعصاب کمزور پڑ جائیں اور انہیں محبت اور شفقت کی ضرورت ہو تو انکے ساتھ بد لحاظی کرنا ”چہ معنی دارد “اسلام کسی کو بھی اپنے والدین کے ساتھ اونچے لہجے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا مجھے ایک سچا واقعہ یاد آگیا جو کہ میرے والد محترم کا قریبی دوست تھا وہ ایک کارخانے کا مالک تھا کچھ بوڑھا ہوا تو اس نے کارخانے کی نگرانی و ذمہ داری اپنے بیٹے کو سونپ دی مگر حسب عادت خود بھی کارخانے چلا جاتا کیونکہ بوڑھوں کیلئے وقت گزارنا مشکل ہوتا ہے خاص طور پر اس بندے کے لیے جو محنت کا عادی ہو ۔

وہ بوڑھا باپ حسب عادت ملازموں کے ساتھ کوئی باز پرس کرنے لگتا تو نوجوان لاڈلا اسی وقت اسے ملازموں کے سامنے اکثر جھڑک دیتا بلکہ سر کو ہاتھ لگا کر کہتا کہ ”ابا جی تہاڈا دماغ ہن کم نہیں کردا ،تسی ہن کارخانے دے کماں وچ دخل نہ دیا کرو “ملازم ہنس پڑتے کسی دن وہ یوں کہتا کہ : ابا جی ! ”تہاڈی عقل جواب دے گئی بس کرو “خدا جانے بیٹے کیپرورش ، تعلیم میں اس شخص سے کوئی کوتاہی رہ گئی تھی یا وہ غلط صحبت کا شکار ہوگیا تھا مگر والد کے ساتھ اس کا رویہ سخت تضحیک آمیز تھا ،خود کو عقل کل سمجھتا مگر وہ بوڑھا باپ اسے جواب میں چپ چاپ دیکھنے کے سوا کچھ نہ کہتا مگر دل میں خیال کرتا کہ بیٹے تمھیں زندگی خدا کے حکم سے ملی اور پروان تمھیں خدا کی عطاسے تو ہم نے ہی چڑھایا ہے ،تمھیں کسی غلط بات پر ڈانٹا تو ضرور ہوگا مگر تمہاری عزت نفس کو اس قدر مجروح تو نہ کیا ہوگا مگر وہ یہ سب سوچتا کہتا کچھ نہیں تھا ۔

ایک دن ایسے ہی کسی چھوٹی سی بات کے جواب میں بیٹے نے حسب عادت کہا کہ” ابا پاگل ہوگیا ہے“ اور سارے ملازم کھلکھلا کر ہنس پڑے بوڑھوں کی نصیحتیں تو سب کو گراں گزرتی ہیں مگر ان کی آہ خاموش عرش الہی تک جاتی ہے اور یہ وہی لمحہ تھا جب مشیت ایزدی نے ایسے گستاخ اور بدتمیز بیٹے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا اس دن کام کے دوران کارخانے میں موجود کوئی گیس ٹینکی پھٹی اور اسکا چھوٹا ساٹکڑا اس عقلمند بیٹے کے سر میں جا لگا اور اندر دماغ تک گھس گیاپھر ڈاکٹروں کی سر توڑ کوشش کے باوجودزیادہ عقلمند اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا اس کا وہی بوڑھا باپ کارخانہ بھی چلاتا اور بیٹے کو بھی سنبھالتا تھا مگر اسے لوگ پاگل پکارنے لگے کیونکہ اسکا سر ہر وقت ہلتا رہتا اور وہ کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں تھابس روتا ہی رہتا تھا یوں خدا نے جوانی میں ہی اسکا دماغ خراب کر دیا بلکہ ذہنی مفلوج ہوگیا تو یہ سب عظمتیں صرف اس خدا کیلئے ہیں جو خالق ہے اپنی مخلوق کیلئے وہ بہتر فیصلے کرتا ہے وہ جو چاہے فیصلہ کرے اور پھر مہر لگا دے اور پھر کوئی ان فیصلوں کو تبدیل نہیں کر واسکتا ماسوائے والدین کی دعاؤں اور التجاؤں کے ۔

ہم اگر آج نوجوان اور طاقتور ہیں اور اچھی باتیں کر لیتے ہیں تو یہ سب خدا کی دین ہے اور والدین کی دعاؤں اور تربیت کا نتیجہ ہے ۔ہمیں ہر وقت خدا سے ڈرتے رہنا چاہیے اسکے حکام پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے والدین اگر ضعیف ہیں تو وہ پہلے سے بھی زیادہ ہماری توجہ اور پیار بھرے لہجے کے مستحق ہیں کہ بڑھاپے میں انہیں ہماری توجہ ،احترام اور پیار کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے ہوتا
قارئین کرام ! تاریخ گواہ ہے کہ لمحوں کی غلطیوں سے ایسی سزائیں مل گئیں کہ صدیوں یاد رہیں گی تو وہ لوگ جو اپنی غلطیوں سے باز نہیں آرہے ،مڑ کر دیکھ ہی نہیں رہے ان کیلئے یہ زندگی ضرور ایک لمحئہ فکریہ ہے ہمارے جتنے بھی بزرگ ،بوڑھے ،جوان اور بچے فوت ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل سے ان سب کی مغفرت فرمائے اور ہمیں راہ مستقیم پر رکھ کر ہدایت یافتہ بنا دے ۔

آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :