غریب کا بچہ پیچھے رہ جائے گا

ہفتہ 13 فروری 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

کرونا وائرس پھیلاؤ سے جہاں روزمرہ زندگی کے معاملات ‘ سماجی و معاشرتی رابطے پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بن چکے ہیں وہاں تعلیمی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے بلاشبہ کہیں نہ کہیں آن لائن ذرائع سے تدریسی عمل جا ری ہے لیکن اس کے خلاف آئے روز احتجاج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کیونکہ چھوٹے شہروں اور دور دراز کے علاقوں سے طالب علموں کی ایک کثیر تعداد جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہے اور ہاسٹلز میں رہنے والے ان طلبا وطالبات کو تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹنا پڑا تو آن لائن نظام سے جڑنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لینا پڑا جس کی وجہ سے انھیں کمزور سگنلز اور انٹر نیٹ کی مناسب فراہمی وغیرہ نہ ہونے کیوجہ سے گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے جس کو بنیاد بنا کر طلبا و طالبات بھاری بھر کم فیسسز لینے کے بعد آن لائن کلاسز لینے پر یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں اور تبدیلی سرکار کے مذکورہ بالا فیصلے کو بچوں کے مستقبل سے مذاق اور کھلواڑکہہ رہے ہیں اور طلبا وطالبات کی طرف سے جو مجموعی مئوقف اختیار کیا گیا اس کا لب لباب یہی ہے کہ چونکہ انھیں آن لائن پڑھایا گیاہے جس سے انکی تشفی نہیں ہوئی اس لیے آن لائن پیپرزکا ہونا مناسب ہے
یہ ایک انتہائی نا معقول جواز ہے اس لیے کہ وہی اساتذہ آن لائن کلاسز لے رہے ہیں جو کہ گذشتہ کئی برسوں سے جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں لہذا انکی قابلیت ،اہلیت اور تجربے کو ہدف تنقید بنانا مناسب نہیں ۔

(جاری ہے)

ہاں ۔۔البتہ ایسے طلبا وطالبات کا تعلیمی ریکارڈچیک کیا جائے جو کہ اس طرح کے جواز تراش رہے ہیں تو ان کی کلاس میں حاضریاں مشکوک اور تعلیمی کار کردگی بھی سوالیہ نشان ہوگی جو ایسے احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش ہوتے ہیں درحقیقت آن لائن کلاسز سے وقت ضائع کرنے اور فضول محافل سجانے کا موقع نہیں ملتا جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک حالیہ سروے کے مطابق اکثریتی طلبا وطالبات کا آن لائن کلاسز کے متعلق یہی کہنا تھا کہ جتنی توجہ اور جس سلجھے ہوئے طریقے سے اساتذہ انھیں آن لائین پڑھا رہے ہیں ایسا کلاس روم میں کبھی ممکن نہ ہوا تھا اورنہ ہی کوئی اتنا زیادہ پڑھاتا تھا جیسے اب پڑھایا جا ریا ہے ویسے بھی آن لائن تدریسی عمل کیخلاف کوئی بھی توجیہ بیان کی جائے اس سے انکار ممکن نہیں کہ آن لائن پڑھنے اور امتحان دینے میں بہت فرق ہے کیونکہ ا متحان تو طلبا کی ذہنی اور تعلیمی استعداد کی جانچ کا طریقہ ہوتا ہے اور اسی جانچ کے خوف کی وجہ سے طالب علم پڑھائی میں محنت کرتا ہے اورتعلیمی سیڑھیاں عبور کرتا ہوا اس مقام تک جاتا ہے جہاں وہ خواندہ اور اعزاز یافتہ ٹھہرتا ہے یہی خواندگی قوموں کے مستقبل کا تعین کرتی ہے تو آن لائن امتحانات کا حکومتی فیصلہ درست کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا تعلیمی نظام اور تعلیمی قواعد و ضوابط پہلے سے سوالیہ نشان ہیں ۔

۔دور مت جائیں ہمارا فزیکلی امتحانی نظام اس قدر ناقص اور غیر معتبر ہے کہ پی پی ایس سی کے پیپرز لیک ہوجاتے ہیں ، اپنی جگہ پر دوسرے طالب علم کو بٹھا کر ڈگریاں حاصل کی جاتی ہیں اور جعلی ڈگریاں دینے کے معاملات عدالت میں زیر بحث ہیں ، نقل کرنے کے نت نئے طریقے پہلے سے موجود ہیں کہ کڑی نگرانی میں بھی چیٹنگ کیس بنتے ہیں، استاد اور امتحانی عملہ ازخود پیسے لیکر نقل کے لیے آسانی اور سہولت فراہم کرتا ہے اور اس پہ طرہ یہ کہ کوئی امیدوار خواہ کتنی ہی قابلت اور اہلیت کی بنیاد پر نمایاں تحریری پوزیشن حاصل کیوں نہ کر لے تو اس کے باوجود کھلی کتاب کی طرح کرپشن کی وہ سہولت انٹرویو کے نام پر سیلیکشن کمیٹی کو دی گئی ہے کہ جس سے انھوں نے جن کو رکھنا ہوتا ہے ان سے سوال و جواب تک بھی نہیں پوچھتے اور جن کو نہیں رکھنا ہوتا ان سے وہ سوالات پوچھتے ہیں جو شاید قبر میں منکر نکیر اور حشر میں مالک یوم الدین پوچھے گا ۔

کون نہیں جانتا کہ یہ سہولت قانون بنانے والوں اور میرٹ کے نام پر بزنس کرنے والوں کو طے شدہ اور کھلی کرپشن کرنے کا موقع دینے کے لیے عطا کی گئی ہے ایسے میں آن لائن امتحان بارے شفافیت کا دعوی کرنایہ بات انتہائی مضحکہ خٰیز ہے ۔۔!
پاکستان کا محکمہ تعلیم کیاواقعی اتنابے بس ہے جبکہ حالات یہ ہیں کہ ڈاکٹرز ،کسان ،مزدور الغرض تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے احتجاج اور شدت پسندانہ حکومتی ردعمل کی داستانیں مقامی حلقوں میں زیر بحث ہیں جو اپنے مطالبات سمیت ناکام و نا مراد گھروں کو لوٹ گئے اور کچھ اندھیر ی قبروں میں جا سوئے المختصر تعلیم ہماری عملی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی بلکہ پاکستانی یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ میں بھی دنیا کی سو بہترین جامعات کی فہرست سے باہر ہوتی ہیں جبکہ ہرسال متعدد تعلیمی پالیسیوں کا اجراکیا جاتا ہے ‘بلند و بانگ دعوے اور دلکش و دلفریب اہداف مقرر کئے جاتے ہیں ‘ان کے حصول کے لیے ڈیڈ لائنز بھی دی جاتی ہیں اور فنڈز بھی مختص کئے جاتے ہیں ‘بیرون ممالک سے بھی تعلم کی مد میں وظائف اور فنڈز ملتے رہتے ہیں ‘کہاں جاتے ہیں کوئی نہیں جانتا مگر پوچھنے پر غیر مستحکم سیاسی حالات کا رونا رو دیا جاتا ہے۔

۔بہرحال یہ سب تو چلتا رہے گا مگر یاد رہے کہ امتحان وہی ہوتا ہے جو سر عام اورخوف ہو کہ کوئی امداد کرنے والا نہیں اسلئے امتحان کے دیرینہ اور آزمودہ طریقے اختیار کرنے سے راہ فرار حاصل کرنے کی کوشش کرنا کہ حکومت اس کی شفافیت کویقینی بنانے سے قاصر ہے مناسب نہیں ہے بچے تو ہمیشہ سے غیر سیاسی ہوتے ہیں تو ان کے بعض مطالبات بھی اگر اپوزیشن والوں کی انگیخت پر سیاسی شکل اختیار کر جائیں تو حکومتی زعماؤں کو ازخود سے معقول پالیسیاں وضع کرنے میں کمزور ی نہیں دکھانی چاہیے تھی ویسے بھی ملکی و قومی معاملات میں غیر سنجیدہ اور تجرباتی دور رس حکمت عملیوں کیوجہ سے آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہے ایسے میں تعلیم پر تجربہ کرنا ملک و قوم کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے اگر سالانہ امتحانات بھی آن لائن شروع کر دیے گئے تو کسی بچے کو کیا ضرورت ہے کہ وہ خود پیپر دے وہ کسی سیانے کو وہاں پر بٹھائے گا کیونکہ پھرمعاملہ تو اللہ اور بندے کا ہے ان حالات میں اگر ایک طرف تعلیم کا حال برا ہوگا تو دوسری طرف غریب آدمی کا بچہ بہت پیچھے رہ جائے گااور اس سماجی نا انصافی کیوجہ سے جوان طبقہ انارکی کی طرف مائل ہوگا جس سے ملک اور قوم بری طرح متاثر ہونگے اور پھر ایک دن وہ آئے گا کہ ہمارا نام تک نہ ہوگا داستانوں میں ۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :