خواب اور حقیقت

ہفتہ 8 اگست 2020

Saad Hashmi

سعد ہاشمی

وہ ایک عام سا نوجوان ہے۔ جس کی صبح کا آغاز سات بجے بجنے والے الارم سے ہوتا ہے۔ یہ نوجوان تیار ہو کر30 :7 سے پہلے سٹاپ پر پہنچتا ہے جہاں سب لوگ قطار میں کھڑے ہو کر بس کا انتظار کرتے ہیں اور اپنی باری پر سوار ہو جاتے ہیں۔ یہ جوان بھی اپنی باری آنے پر سوار ہوجاتا ہے۔ بس کے  اندر سکوت طاری ہوتا ہے اور اس میں بیٹھا ہر شخص اپنے کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوتا ہے۔

یہ نوجوان بھی اپنا لیپ ٹاپ نکال کر اسائنمنٹ کی تیاری کرتا ہے۔ یونیورسٹی کے سامنے اتر کر وہ بغیر کوئ لمحہ ضائع کیے بھاگ کر اپنی کلاس لیتا ہے۔
لیکچرز لینے کے بعد وہ اسی آرامدہ بس میں سفر کرکے واپس گھر پہنچتا ہے۔ شام میں وہ حکومت کی جانب سے بنائے گئے میدانوں میں ورزش کرتا ہے اور رات کو ایک آرام دہ بستر پر سوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

    
آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ نوجوان ایک مہذب اور ترقی یافتہ ملک کا باشندہ ہے جس کو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات میسر ہیں اور وہ بہترین زندگی گزار رہا ہے۔


 یہ نوجوان اس ملک خداداد پاکستان کا باشندہ ہے جس کی بنیاد 73 سال پہلے رکھی گئ تھی لیکن ایک چھوٹا سا مسٔلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ انسان جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہے۔
یہ وہ خواب ہے جو پاکستان کا ہر جوان رات کو سونے سے پہلے دیکھتا ہے۔ اب بے شک وہ علی نام کا نوجوان ہو، گل خان ہو یا اسلم گجر۔ چاہے اس کا تعلق پنجاب سے ہو،سندھ سے ہو یا خیبرپختونخواہ سے۔

پاکستان کا ہر جوان رات کو ایسا خواب دیکھ کر اور ایک اچھے کل کی آرزو لیکر سوتا ہے۔
لیکن جب صبح یہی لوگ بیدار ہو کر گھر سے نکلتے ہیں تو جو اصلیت سامنے آتی ہے وہ بہت بھیانک ہوتی ہے۔ ہر طرف دھول اڑ رہی ہے۔ سٹاپ پر ایک دھکم پیل ہے۔ ہر کوئ جلد سے جلد منزل پر پہنچنا چاہتا ہے۔ جو بس میں سوار ہونے کا معرکہ سر انجام دے لیتا ہے اس کے لیے اگلی مشکل اپنے آپ کو کھڑا رکھنا ہوتی ہے کیونکہ بیٹھنا تو درکنار بس میں کھڑا بھی نہیں ھوا جاسکتا۔

یونیورسٹی پہنچتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ سٹرائک کی وجہ سے کلاسیں نہیں ہوں گی۔ سارا دن آوارہ گردی کے بعد شام میں گھر سے نکلتے ہیں تو کھیل کے میدانوں کے بجاۓ  ہر طرف کوڑے کے ڈھیر اور ان کے اردگرد بوسیدہ عمارتیں نظر آتی ہیں۔ نشے تک رسائ آسان اور کھیل کے میدان ڈھونڈنا مشکل ہے۔
اور یہ نوجوان آخرکار حسین پاکستان کا خواب اور اپنے آپ کو پنکھا جھلتے سوجاتے ہیں کیونکہ ان کو ایک ایسے ہی تھکادینے اور مشکلات سے بھرپور کل کا سامنا ہوتا ہے۔


پچھلے ستر سالوں میں تیسری نسل ہے جو یہ خواب دیکھتے بڑی ہورہی ہے۔ آج بھی پاکستان کی وہی حالت ہے جو 1950 میں تھی۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم 1950 میں جی رہیں ہیں لیکن ہم  ریس میں جتنا اور ملکوں سے پیچھے تھے اب بھی ان سے اتنے ہی فاصلے پر ہیں بلکہ شائد اور بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔
 اور ہمارے نوجوان اس انتظار میں ہیں کہ کوئ اور قائداعظم یا علامہ اقبال آکر انہیں ان مشکلات سے نکالے گا لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اقبال اور محمد علی جناح آسمان سے نہیں اترے تھے بلکہ محنت اور مسلسل کوشش سے بنے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :