چھوڑ دو یہ سطور رہنے دو

اتوار 11 اکتوبر 2020

Saad Hashmi

سعد ہاشمی

کمرہ امتحان بھرا ہوا تھا۔ نگران مسلسل بچوں کو خاموش کرانے اور نقل سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن جیسے جیسے پیپر کا وقت ختم ہو رہا تھا بچوں کے شور میں اضافہ ہو رہا تھا۔ نگرانی کرنے والے اساتذہ نقل روکنے میں ناکام نظر آتے تھے۔ جس کو سوال سمجھ نہ آرہا تھا یا جواب معلوم نہ تھا اس کی ہر ممکن کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے جواب حاصل کرلے۔

اسی شوروغل میں امتحان ختم ہوا اور بچے گھروں کو چلے گئے۔
یہ حالات کسی خاص ایگزام سنٹر کے نہیں ہیں بلکہ یہ پاکستان کے ہر اس کمرہ امتحان کے ہیں جہاں کسی بھی قسم کا کا پرچہ ہورہا ہے۔
ہمارے ملک میں جتنے بھی امتحانات ہوتے ہیں بالخصوص بورڈ کے پیپر سب میں تقریبا اسی قسم کا ماحول ہوتا ہے۔ بلکہ جہاں ممتحن خود کمزور ہو یا بےایمان ہو وہاں تو حالات اور بھی بدتر ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)


   یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق پچاسی فیصد طلباء نےComsats
نقل کرنے یا کروانے کے اعتراف کیا لیکن حقیقت میں حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔   
طلباء جب امتحان دے کر نکلتے ہیں تو جس عمل پر سب سے زیادہ فخر کیا جاتا ہے وہ بغیر پکڑے گئے چیٹنگ ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنی نقل کو کسی کارنامے کے انداذ میں پیش کرتا ہے اور سب سے داد وصول کرتا ہے۔


نقل کا کلچر اتنا عام ہوچکا ہے کہ جو اس لعنت سے بچنا چاہے یا نقل نہ کرتا ہو اسے برابھلا کہا جاتا ہے بزدلی کے طعنے دیے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بھی یہ حرام کام شروع کر دے۔ اکثر دوستی کو امتحان میں مدد کرنے یہ نہ کرنے کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔
اس نقل کے ذمہ دار صرف بچے نہیں بلکہ ہمارا پورا معاشرہ اور اس میں رہنے والے ہم سب لوگ ہیں۔

ہم اخلاقی طور پر اس قدر دیوالیہ ہوچکے ہیں کہ برائی کو برائی ہی نہیں سمجھتے۔ دین کا علم حاصل کرنے والے مولانا بھی جب میٹرک کا امتحان دینے جا تے ہیں تو بیشتر کا بھروسہ اللہ اور اپنے علم کے بجائے بوٹیوں اور دوسروں سے ملنی والی امداد پر ہوتا ہے۔
ہمارا سارا اسلام نماز، روزہ یعنی چند عبادات تک محدود ہو چکا ہے۔ ہمارے زیادہ تر علماء منبر پر صرف حقوق اللہ کی بات کرتے ہیں۔

احادیث اور قرآن کا بیان بھی ان تین چار اراکین اسلام تک محدود ہوچکا ہے۔
ہمارے بچے اپنے باپ کو نماز پڑھتا تو دیکھتے ہیں لیکن وہی باپ مسجد سے نکل کر جو بےایمانیاں کرتا ہے وہ بھی ان کے دماغ میں نقش ہوجاتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو یہ وعظ تو کیا جاتا ہے کہ داڑھی رکھو، شلوار قمیص پہنو لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ نقل، جھوٹ اور ظلم جیسے غلط کاموں سے بچو۔


ہمارے معاشرے کا سارا زور جب تک صرف عبادات کی تلقین پر رہے گا ہم دنیا اور آخرت دونوں میں تباہی کی طرف بڑھتے رہیں گے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اسلام صرف نماز، روزے کا نام نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ بات نہیں کہ نماز، روزہ اور دیگر حقوق اللہ ادا نہیں کرنے چاہئیں بلکہ عرض صرف اتنا ہے کہ پورا دین ان پر ہی ختم نہ کیا جائے۔
ہمارے علماء کو چاہئيے کہ وہ اپنی تقاریر میں حقوق العباد کو الگ جگہ دیں وعظ میں لوگوں کو بتائیں کہ ملاوٹ اور بےایمانی کرنے والا بھی امت محمدﷺ سے خارج ہوجاتا ہے۔


بچے سب سے زیادہ اپنے والدین کے زیراثر ہوتے ہیں۔ ان والدین کو چاہئيے کہ بچوں کو مسجد کی حاضری کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی سکھائیں۔ ان کو صرف قرآن رٹوانے کے بجائے قرآن کا مطلب اور تشریح پڑھوائیں اور دین کی روح تک پہنچنے میں مدد دیں۔ بچوں کو حق اور سچ کے لیے لڑنا سکھائیں۔
اساتذہ جو بچوں کے لیے روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں زیادہ نمبر حاصل کرنے کے طریقوں کے بجائے ایمانداری کا سبق دیں۔

ان کو اپنی قابلیت پر یقین کرنے اور محنت کرنے کا درس دیں۔
لیکن یہ وہ باتیں ہیں جن پر بولنا اس معاشرہ میں جرم بن چکا ہے۔ جو یہ باتیں کرے ان کو کافر بنانے کی فیکٹریاں جہنمی کا خطاب دے دیتی ہیں ۔ کفر کے فتوے عام ہیں۔ وہ اسلام جس نے قوموں کو فرش سے عرش پر پہنچایا کہیں گم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ ان مولویوں کے اسلام نے لے لی ہے جو اپنی دکانداری کی خاطر اسلام اور اللہ سے مذاق کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان جو اسلام کے نام پر آزاد ہوا، وہ ملک جس نے ساری دنیا کے لیے ایک مثالی اسلامی ریاست بننا تھا اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
اور اگر یہ معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو قیامت کے دن ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے نبی حضرت محمدﷺ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوںگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :