
عورت آزادی مارچ یا ننگ مارچ ؟
جمعرات 14 مارچ 2019

صابر ابو مریم
آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی جانب سے اعلان کردہ ’’عالمی یوم خواتین‘‘ منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا جو مقصد اقوام متحدہ نے یا یوں کہہ لیجئے کہ اس دن کو قرار دلوانے والی استعماری حکومتوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ خواتین کو آزادی دینے سمیت خواتین کو مردوں کے برابر لانے کی بات کرتے ہیں یعنی ایک عورت اور مرد برابر ہوں ۔
(جاری ہے)
آٹھ مارچ سنہ2019ء کو مغربی استعماری قوتوں کی پیروی کرتے ہوئے خواتین کا عالمی دن بھی منایا گیا اور اس میں سب سے نمایاں کام ’’عورت آزادی مارچ‘‘ تھا جو ملک کے مختلف بڑے شہروں میں دیکھنے میں آیا ۔اس عورت آزادی مارچ کو ننگ مارچ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گاکیونکہ یہاں شریک خواتین کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈز اور بینر ز آویزاں تھے ان پر بے شمری و بے حیائی پر مبنی ایسے نعرے درج کئے گئے تھے کہ جنہیں زباں بیان کرنے سے قاصر ہے۔عورت آزادی مارچ کے نعروں سے مقاصد واضح ہو چکے ہیں کہ در اصل ان کا ایجنڈا پاکستان میں بے حیائی اور فحاشی کا کلچر عام کرنا ہے۔گذشتہ برس بھی اس طرح کے بے ہودہ اور فرسودہ نعروں کا استعمال کیا گیا تھا تاہم اس برس بات حد سے آگے نکل چکی ہے اور صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ خواتین نے ہی اس خواتین مارچ کو مسترد کر دیا ہے اور اس وقت سوشل میڈیا پر خواتین کی بہت بڑی تعداد اس عورت آزادی مارچ یا ننگ مارچ پر شدید تنقید کر رہی ہیں کیونکہ کوئی بھی باعزت اور غیرت مند عورت اس طرح کی توہین کو برداشت نہیں کر سکتی ۔
آخر مغرب کو کیا ضرورت پیش آئی ہے کہ انہوں نے عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کیا اور دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کی عورتوں کو اس کے جھانسہ میں لے کر انہیں اس قدر ورغلایا ہے کہ اب یہ خواتین اپنی آزادی کے نام پر بے حیائی کے کلچر کو عام کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔مغرب اور استعمار گر قوتیں ہمیشہ سے تیسری دنیا کے ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں رہی ہیں اور اس کام کے لئے انہوں نے جنگوں سمیت نت نئے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا ہے جس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔اب جدید دنیا میں انہوں نے سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کو اس کام کے لئے ایک مشن کے طور پر استعمال کیا ہے ۔
بہر حال مغرب کا آزادئ نسواں کا یہ نعرہ جہاں مشرق کے دیگر ممالک میں پھیلا ہے وہاں اس نے مسلمان آبادی والے ممالک میں براہ راست اسلام کی خواتین سے متعلق حقوق اور فکر کو بھی حملہ کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ دراصل مغربی استعماری ممالک کا بنیادی ہدف بھی تھا۔آخر یہ مغرب کی بتائی ہوئی آزادی کس طرح کی آزادی ہے ؟ کیا مغرب کی طرح جس طرح عورت کا استحصال کیا جاتا ہے کیا اسی طرح کی آزادی پاکستان میں بھی مانگی جا رہی ہے ؟ کیا پاکستانی معاشرے کی عورت یہی چاہتی ہے کہ جس طرح مغرب میں عورت کو جنسی ہوس اور بھوک کے لئے استعمال کیا جا رہاہے اسی طرح کی آزادی یہاں بھی ہونا چاہئیے ؟ کیا پاکستانی معاشرے کی عورت واقعی یہی چاہتی ہے کہ مغرب و یورپ کی طرح پیدا ہونے والی اولادیں جن کو اپنے حسب نسب کی شناخت نہیں ہوتی اسی طرح کی اولادیں یہاں بھی آزادی کے نام پر پیدا ہوں ؟ یا یہ کہ جس طرح مغربی او ر یورپی ممالک نے عورت کو سرمایہ دارانہ نظام کی تقویت اور ترقی کے لئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کام کے لئے وہاں کی عورت کو جو کچھ کرنا پڑے وہ اس کو ننگ و عار نہیں سمجھتی تو کیاپاکستان مین بسنے والی خواتین بھی اسی طرح ایک آلہ کار بن کر استعمال ہونے کو ترجیح دیں گی؟۔میرا اپنا ذاتی خیال یہی ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے کی عورت اس طرح کی آزادی لینے سے بہت خود کو اس سے دور رکھنا ہی بہت عافیت جانے گی ۔لیکن کیا کریں کہ کچھ مغرب زدہ پاکستانی خواتین نے مغرب اور یورہپ کے ناپاک عزائم کو بڑھاوا دینے کے لئے آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر فحاشی اور بے حیائی کو عام کرنے کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور اس طرح کی بے حیاء خواتین کو ان کی اپنی کلاس میں ماڈرن یا پھر آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے ۔
حالانکہ اگر یہی پاکستانی معاشرے کی مسلمان عورت اسلام کی بنیادی تعلیمات کو مطالعہ کرے اور اس کے بارے میں ادراک و فہم حاصل کرے تو اس کو اندازہ ہو گا کہ دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی ایسی فکر یا سوچ موجود ہی نہیں ہے کہ جس نے سب سے زیادہ حقوق خواتین کے لئے دئیے ہیں، شاید آج کی مغرب زدہ پاکستانی عورت یہ بھول چکی ہے کہ یہ اسلام ہی تھاکہ جب آیا تو بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا ورنہ زمانہ جاہلیت میں اور مغرب کے افکار آزادئ نسواں میں کوئی فرق نہ تھا۔اسلام نے خواتین کے حقوق اور عظمت کو اجاگر کیا ہے لیکن آج کی مغرب زدہ عورتیں اپنی عزت کو خود چند نعروں کے عوض کھلے بازاروں میں تاراج کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔اسلامی تعلیمات نے عورت کو معاشرے کا عظیم فرد قرار دیا ہے جبکہ مغرب عورت کو پست ترین کردار کے طور پر پیش کر رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ چند مغرب زدہ خواتین مغرب کے اس بہلاوے میں اپنی عظمت کو تاراج کر رہی ہیں۔اسلامی تعلیمات میں معاشروں کی پرورش کی ذمہ داری عورت کے کاندھوں پر ہے اور کہا جاتا ہے کہ عورت کی آغوش میں ہی اصل معاشرہ ترویج پاتا ہے اب اگر یہی عورت مغرب کے آزادی نسواں کے نعرے کا شکار ہو کر ننگ و بے حیائی کو پروان چڑھائے گی تو پھر پاکستانی معاشرہ میں پروان چڑھنے والی نئی نسلوں کا کیا ہو گا؟دنیا میں کئی ایک انقلاب آئے جن میں سے اسلامی دنیا میں آنے والا انقلاب ایران میں آیا جس کے بارے میں اس انقلاب کے بانی امام خمینی نے کسی صحافی کو سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میری فوج ماؤں کی گو دمیں ہے ۔کیونکہ آپ جانتے تھے کہ عورت کی آغوش ہی ایک اچھے اور یا پھر برے انسان کو پروان چڑھا سکتی ہے۔اسلامی تعلیمات کہتی ہیں کہ عورت کی ذمہ داری مرد پر ہے اور مرد کا کام ہے کہ وہ محنت ومشقت کرے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے رزق کی تلاش میں محنت کرے جبکہ ایک عورت بھی گھر کی چار دیواری اور چادر کا تقدس رکھتے ہوئے گھر میں مشقت کرتی ہے یعنی وہ گھر کے کام کاج سمیت معاشروں کو اچھے انسان دینے کے لئے تربیت کرتی ہے۔اب اسلام کی تعلیمات کی رو سے دیکھا جائے تو مرد گھر سے باہر مشقت کرتا ہے تو عورت گھر کے اندر رہ کر مشقت کرتی ہے دونوں کی برابر مشقت ہے اور دونوں کے مشترکہ جدوجہد سے ایک خوبصورت معاشرہ پروان چڑھتا ہے اور عورت کو اپنے تحفظ کا احساس بھی رہتا ہے جبکہ پاکستان میں موجود چند ایک مغرب زدہ عورتیں شاید یہ سمجھ رہی ہیں کہ ننگ مارچ کر کے اور بے حیائی کے نعروں کو پلے کارڈز پر نشر کرکے شاید پاکستان کی یا اپنے گھرانے کی کوئی خدمت کر رہی ہیں تو انہیں جان لینا چاہئیے کہ مستقبل قریب میں ان کو اس بے حیائی اور فحاشی کے پروان چڑھانے کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
صابر ابو مریم کے کالمز
-
اسلام فوبیا کے مقابلہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد ناگزیر
جمعرات 27 جنوری 2022
-
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم اصول جارحیت کی مذمت
جمعرات 30 دسمبر 2021
-
اسرائیل کے ساتھ دوستی اور امن کا خواب
اتوار 19 دسمبر 2021
-
اعلان بالفور اور فلسطینیوں پر مصیبت کے سو سال
منگل 2 نومبر 2021
-
انسانی حقوق اور مغرب کا دوہرا معیار
منگل 26 اکتوبر 2021
-
فلسطین کا مقدمہ اور اقوام عالم
منگل 28 ستمبر 2021
-
ہم پاکستانی ہیں۔پاکستان ہمارا ہے!
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
ایران یا امریکہ: فاتح کون ہے؟
پیر 6 ستمبر 2021
صابر ابو مریم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.