بابری مسجد کیس کا فیصلہ

جمعرات 1 اکتوبر 2020

Saeed Mazari

سعید مزاری

ایودھیا میں واقع صوبے کی سب سے بڑی مسجد جوبابری مسجد کے نام سے مشہور تھی اورجس کے بارے میں ہندوؤں کا خیال ہے کہ مسجد انکے مذہبی پیشوا ”راما“ کی جائے پیدائش پر موجود مندرکو گراکر بنایا گیا تھا گزشتہ کئی صدیوں سے بھارتی ہندوؤں اورمسلمانوں کے مابین متنازعہ چلا آرہا ہے ایک طرف ہندوستان کی مسلم آبادی ہے جن کے مطابق یہ مسجدبابر بادشاہ کے دور کی اعلیٰ طرز تعمیر کی شاہکار اور اللہ کی طرف سے بے شمار کرشمات کی حامل ہے اور پھر مسلمانوں کی تاریخ حکمرانی کی قدیم اورسب سے بڑی مسجد ہے جب اسکی تعمیر عمل میں لائی گئی تو یہاں پر کسی قسم کا مند ریا مقبرہ موجود نہیں تھا بلکہ یہ ایک غیر متنازعہ زمین تھی ہندو اکثریت صرف تعصب کا شکارہوکر مسجد کو مندر ثابت کرنے پر بضد ہے مسلمانوں کا کہناہے کہ ہندو قوم جس مندر کے اوپر اس مسجدکی تعمیر بتارہے ہیں اس کا کوئی وجود تک ہی یہاں نہیں تھا۔

(جاری ہے)

اس تنازعے کا دوسرا فریق ہندو قوم ہے جو یہ کہتے ہیں کہ جب 1526ء میں بابر بادشاہ نے ہندوستان کوفتح کیا تواس وقت مسلمانوں نے ہندوستان کی بے شمار مندروں کومسمار کردیا تھا اور ان مسمار مندروں میں سے ایک ”راما“ کاوہ مندر بھی تھا جہاں پربعد ازاں 1528ء میں بابر کے جرنیل میرباقی نے مذکورہ مسجد تعمیرکردی اپنے دعوے کے حق میں وہ ایک پتھر کے سلیب کا ذکر کرتے ہیں جوانکے بقول 1992ء میں انہیں مسجد کے احاطے سے ملا اس پتھر پرسنسکرت زبان میں 20 لائنوں پرمشتمل ہندو مذہب کی 30 آیات درج ہیں جوہندوؤں کے مطابق ”راما“ نے لکھے تھے بابری مسجد جس جگہ پرواقع ہے اس سے متعلق بھارت کی ہندوکمیونٹی کا مانناہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کا دیوتا ” راما “ پیدا ہوا تھا۔

بابری مسجد کا تنازعہ سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا جب 1853ء میں ایک ہندو انتہا پسند گروپ نے بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا اعلان کیا تاہم اس وقت یہ ایک عمومی تنازعہ خیال کیا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی گئی ایک طرف ہندو تھے جومسجد کو گراکروہاں مندر کی تعمیر پربضد تھے جبکہ دوسری طرف مسلمان جوکسی صورت مسجد کا انہدام نہیں چاہتے تھے نرموہی گروپ کے اعلان کے دوسال بعدایودھیا کی مقامی انتظامیہ نے نرموہیوں کومندر کی تعمیر سے روک دیا اورکہا” گوکہ بابری مسجد کو مندرکی بنیادوں پر تعمیر کیا گیا ہے لیکن اسکی تاریخی اہمیت اورطرز تعمیر کے پیش نظر مسجد کوگراکر مندر کے تعمیر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

1853ء کے تنازعے سے قبل بابری مسجد ہندو اورمسلمان دونوں کے لیے انتہائی قابل احترام جگہ کی حیثیت رکھتی تھی بابری مسجد جو سات ایکڑ سے بھی زائد رقبے پر محیط ہے اپنے طرز تعمیر کے حوالے سے منفرد مقام رکھتا تھا سنگ مرمراور قیمتی سفید پتھروں سے تعمیر اسکی دیواریں اور گنبد و مینار اپنی مثال آپ ہیں،مسجد کی وسیع وعریض احاطہ میں 125 فٹ گہرا کنواں جس کے پانی سے متعلق کہاجاتاہے کہ جوبھی بیماریہاں کا پانی پی لے ٹھیک ہوجاتاہے اوریہ عقیدہ صرف ہندوؤں یا صرف مسلمانوں میں نہیں بلکہ دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں مشترک ہے تاہم اس پانی سے بیمارٹھیک کیوں ہوتاہے اس بارے میں دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ایک دوسرے سے الگ ہے ہندو لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ انکے دیوتا ”راما“ کی جائے پیدائش ہے اس لیے یہاں کے پانی میں شفاء ہے جبکہ اس کے برعکس مسلمان اس کوعطیہ خداوندی قراردیتے ہیں۔

ایودھیا کوہندومذہب میں ایک خاص مقام حاصل ہے ان کا ماننا ہے کہ جس جگہ انکے پانچ دیوتازمین پراترے تھے وہ ایودھیا کی زمین ہے ہندوہرسال بابری مسجد کے پاس ملحقہ احاطہ میں ایک بہت بڑا مذہبی تہوار مناتے ہیں جس میں ہندوستان بھرسے پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہندو شریک ہوتے ہیں وہ یہاں اپنے مذہبی رسومات اداکرتے ہیں اوربابری مسجد کے احاطے میں موجود کنویں کا پانی پیتے ہیں بہت سی ہندوعورتیں منتیں بھی مانتی ہیں اسی طرح یہ کنواں مسلمانوں کے لیے بھی کافی معتبر حیثیت رکھتاہے ایک عرصہ تک مسلمان اورہندو بابری مسجد کومشترکہ طورپر ایک غیرمتنازعہ مذہبی اورعقیدت کی جگہ تصورکرتے تھے تاہم دونوں مذاہب کے پیرکاروں میں باہم رضا مندی سے کچھ ممنوعات تھی جن کادونوں فریق خیال رکھتے تھے مثال کے طورپرمسلمان ہندوؤں کے لیے مخصوص جگہ پر کبھی جاکر عبادت نہیں کرتے اور اس طرح ہندوؤں کوبھی مسجد کے اندر آنے کی اجازت نہیں تھی لیکن 1857ء کے واقعات کے بعد ہندوؤں نے بابری مسجد کے ایک بیرونی حصے کوگراکر ممنوعہ حصے میں داخل ہوگئے اورایک چبوترے کی تعمیر شروع کردی پھر1883ء میں ہندو اس چبوترے کی جگہ ایک مندربنانے میں لگ گئے مقامی انتظامیہ نے کئی بار مندر کی تعمیر رکوائی لیکن ہندوؤں کے باز نہ آنے پر 19 جنوری 1885ء کواس حصے کو ممنوعہ قرار دے دیا اسی سال ایک ہندو انتہا پسند رہنماء رگھبیر داس نے فیض آباد کے جج کو17x21 فٹ کے ایک مندر کی تعمیر کے لیے درخواست جمع کروادی لیکن عدالت نے اسکی درخواست رد کردی پھر اس نے 17 مارچ 1886 کوڈسٹرکٹ جج فیض آباد کی عدالت میں اپیل دائرکردی عدالت نے اسے بھی رد کردیا اس نے ایک اوراپیل 25 مئی کوجوڈیشل کمشنر اودھ کی عدالت میں جمع کروائی رگھبیر کویہاں بھی مایوسی ہوئی اوراس طرح ہندوؤں کو بابری مسجد کیخلاف پہلی قانونی جنگ ہارنا پڑی ۔

انتہاپسند ہندوؤں نے1934ء میں مسجد کی دیوار اورایک گنبد کوتوڑدیا لیکن اس وقت کی برطانوی حکومت نے نہیں دوبارہ تعمیر کروادیا ،بابری مسجد اوراس سے ملحقہ گنج شہیداں قبرستان کا رقبہ یو پی سنی مرکزی بورڈ برائے وقف اسلامی املاک جسے حرف عام میں سنی وقف بورڈکہاجاتاہے کے نام 1936ء ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے۔
1949ء میں وقف بورڈ کے انسپکٹر محمد ابراہیم اوربعد ازاں سیکرٹری وقف بورڈ کو حراساں کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا مقد مے میں ان کا موقف تھاکہ بابری مسجد کو ہندوؤں سے خطرہ ہے جبکہ ہندومسلمانوں کو مسجد کی طرف جانے سے بھی روکتے ہیں ،محمد ابراہیم نے بتایا کہ جب وہ اوردیگر لوگ نمازپڑھنے میں مصروف تھے تو اس وقت کچھ لوگ کے جوتوں کی آواز انہیں سنائی دیں اورمسلمانوں کی طرف کچھ پتھر بھی پھینکے گئے جس کی وجہ سے نمازیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا انہیں ساری رات مسجد میں گزارنی پڑی انہوں نے مزید بتایاکہ تقریباً آدھی رات کو جب پولیس گارڈ سورہے تھے تو”راما“ کے کچھ پیروکار جولگ بھگ50 یا 60 کی تعداد میں تھے مسجد کی صحن کا گیٹ توڑ کر اندرداخل ہوگئے جہاں انہوں نے اپنے دیوتا ”سیتارام“ کا بت نصب کیا اس اثناء میں 5 سے 6 ہزارلوگ مزیداکھٹے ہوگئے جنوں نے بھجن گانا شروع کردیا اور مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ،اگلی صبح ہندوؤں کابہت بڑا ہجوم مسجد کے اطراف جمع ہوگیا اوراپنی پوجاپاٹ شروع کردیا۔

ضلعی مجسٹریٹ کے مطابق ایک بہت بڑا ہجوم مسجد میں زبردستی داخل ہونا چاہتاتھا حالات اس قدر بے قابو ہوگئے کہ اس وقت کے وزیراعظم جواہرلال نہرو کومطلع کرنا پڑا اس نے مشتعل لوگوں کوزبردستی وہاں سے نکالنے کا حکم دیا اورمسجد کوتالا لگوادیا گیا یہ تھی بابری مسجد کیخلاف پہلی باقاعدہ اورمنظم ہندو تخریب کاری پھرکچھ عرصہ خاموشی رہی لیکن 1984ء میں ایک بار پھر وشوا ہندوپریشدنامی انتہا پسند ہندوتنظیم نے بابری مسجد کا تالا کھلوانے کیلئے ایک بہت بڑی تحریک کا اعلان کیا اگلے سال 1985ء میں راجیوگاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے تالے کھولنے کا حکم دے دیا اس وقت ہندوؤں کوصرف سالانہ پوجاپاٹ کی اجازت دی گئی جو ایک مخصوص جگہ جہاں ان کا خیال تھاکہ ”راما“ یہاں پیداہوا ہے کیلئے مخصوص تھی اس طرح بابری مسجد کوہندوؤں کا مندر بنانے کی طرف پہلی سیڑھی عبورکرلی گئی 1989ء کے قومی انتخابات میں بی جے پی کے سینئررہنماء ایل کے ایڈوانی نے بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے رتھ باترا شروع کردیا مسلمانوں نے ایل کے ایڈوانی کی اس یاترا تحریک پر شدید تحفظات اور اپنے غصے کا اظہار کیا کیونکہ مسلمانوں کا کہنا تھاکہ ہندوکئی صدیوں سے جس مندر کا دعویٰ کررہے ہیں کہ اس کے اوپر بابری مسجد تعمیرہوئی ہے اسے آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا مسلمانوں کا موقف ہے کہ ہندوؤں کا دعویٰ بغیرکسی ثبوت اوردلیل کے ہے اور اس کا انحصار صرف پرانے قصے کہانیوں پرہے اورحقیقت میں بابری مسجد کی جگہ پرکوئی مندروغیرہ سرے سے موجود نہیں تھا بابری مسجد سے متعلق بھارتی ہندومسلم جنگ چلتی رہی لیکن اس جنگ نے اس وقت خوفناک صورت اختیارکرلی جب 1992ء کے16 دسمبر کے کی اللصبح انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد پر زبردستی قبضہ کرکے اسے شہید کردیا بابری مسجد کی اس بیہمانہ شہادت کیخلاف پورے ہندوستان میں ہندومسلم فسادات شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں دوہزار سے زائد لوگ مارے گئے مسجد کی شہادت یقینی طورپر دنیا بھرکے مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز اقدام تھا اس لیے پوری دنیا میں مسلمان ہندوؤں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے حکومت وقت جس نے مسجد کی شہادت کے وقت فوج اورپولیس کومشتعل ہندوؤں کے کیخلاف مسجد کو شہید ہونے سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا وہی حکومت مسجد کی شہاد ت کے بعد مسلمانوں سے پرامن رہنے کی اپیل کرتی رہی اوراندرون خانہ ہندو انتہا پسندوں کی سپورٹ کرتی رہی بعد میں بھارت کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے بابری مسجد پراپنی سیاست چمکائی لیکن کسی میں اس مسجد کو تعمیر کرنے کی ہمت نہ ہوئی بابر مسجد کی شہادت کے واقعے کی تحقیقات کا وقت آیا تودوران تحقیقات یہ بات سامنے آئی کہ مسجد کی شہادت میں اس وقت کی حکومت کا بہت بڑا عمل دخل تھا اورنہ صرف یہ بلکہ رپورٹ میں ایل کے ایڈوانی منوہر جوشی اورکاٹھیا کومسجد کی شہادت کے منصوبے میں براہ راست ملوث پایا گیا رپورٹ کے مطابق مرلی منوہر جوشی اورایڈوانی نے اپنی نگرانی میں تمام انتظامات کو حتمی شکل دی اورمسجد کی شہاد ت کے وقت یہ دونوں لیڈر مسجد کے سامنے واقع ”رام کتھا کنج“ کی عمارت میں موجود تھے جوبابری مسجد سے صرف دوسومیٹر دورتھا اس رپورٹ نے جہاں ہندوؤں کے سکیولر ازم اورلبرل ازم پر سے پردہ اٹھایا وہاں بھارتی لیڈروں کا اصل چہرہ بھی دنیا کے سامنے عیاں ہوگیا بابری مسجد کی شہادت کے الزام میں ایل کے ایڈوانی اعترافی بیان بھی دے چکے ہیں لیکن بھارتی ایوان انصاف کوان کے اندرموجود مجرم دکھائی نہیں دے رہا اس لیے وہ اب تک آزاد پھررہا ہے
 بابری مسجد کی شہادت کے 18 سال تک بھارتی عدالت میں معاملہ زیرسماعت رہنے کے بعد 2010 میں اس کیس کاالہٰ آباد ہائیکورٹ کے تین رکنی بنچ نے دنیا کے عدالتی تاریخ کا انتہائی متنازعہ فیصلہ سنایا۔

یہ فیصلہ چونکہ پہلے سے طے شدہ تھا اس لیے بھارتی حکومت نے فیصلہ آنے سے پہلے ہی لوگوں کوپرامن رہنے کی اپیل کردی تھی عدالت نے اپنے فیصلے میں مسجد کی زمین تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم جاری کیا تھافیصلے کے مسجد کا ایک حصہ مسلمانوں کو دوسرا ہندوؤں اورتیسرا نرمائی اکھاڑہ کو دیا گیا تین رکنی بنچ کے دوججوں نے مذکورہ جگہ کو بابر ی مسجد ہی کا قراردیا تھا لیکن اس کے باوجود عدالت نے حکومت اورانتہا پسند قوم کے سامنے بے بسی دکھاتے ہوئے بابری مسجد کی اراضی کے دو اہم حصے غیرمسلموں کو جبکہ صرف ایک حصہ مسلمانوں کودینے کاحکم دیا ۔

2019 میں بھارتی عدالت نے اپیلوں کو رد کرتے ہوئے مسجد کی زمین ہندووں کے حوالے کرنے کا حکم صادر کیا ۔ اور اب 2020 میں ایکبار پھر ہندوستانی عدالت نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو تہس نہس کرتے ہوئے بابری مسجد شہادت کے حوالے سے ایسا متنازعہ فیصلہ دیا جس نے دنیا بھر کے ایوان عدل کے سر شرم سے جھکا دیئے، بھارتی عدالت نے 1992 میں بابری مسجد پر حملہ کرکے اسے شہید کرنے والے تمام ملزمان کوبے گناہ قرار دے کر بری کردیا، عدالت نے ایل کے ایڈوانی جس نے خود عدالت میں اعتراف جرم بھی کیا اس ایل کے ایڈوانی سمیت تمام ملزمان کو بری کرکے ثابت کردیا کہ ہندوہستان کی عدالتیں بھی نا صرف عدل و انصاف سے عاری ہیں بلکہ ان میں بھی مذہبی تعصب کا عنصر انتہا کو چھو رہا ہے۔

ہندوقوم کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ امن سے نہیں رہی کیونکہ شیطانیت انکی فطرت میں شامل ہے اوریہی چیز انہیں مسلمانوں کے خلاف تعصب پر اکساتی رہتی ہے اس لیے انہیں جب بھی موقع ملتاہے اس تعصب اورنفرت کا اظہار کرتے ہیں۔بابری مسجد سے متعلق فیصلے کو بھی عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ اس فیصلے سے عالمی دنیا کو تعصب اور مذہبی امتیاز واضح دکھائی دے رہا ہے۔


بابری مسجد کا متعصب اور انصاف سے مبرا فیصلہ آنے کے بعد ہمارے ان لوگوں کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہیے جو بھارت اور دیگر غیر مسلم اقوام سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، انہیں اب سمجھ جانا چاہیے کہ کفار کبھی ” امن کی آشا “ والی بھاشا نہیں سمجھتے بلکہ یہ صرف ڈنڈے کے سامنے ” رام رام “ کرنا ہی جانتے ہیں ہم اپنی طرف سے جتنے مرضی دوستی کی ٹرینیں چلائیں یا بسیں دوڑائیں ،چاہے تو انکے قدموں میں گریں یا پھران سے بغلگیر ہو کر دوستی نبھائیں لیکن یہ ” رام وام “ کے پجاری کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ ہم نے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے روز اول ہی سے طے کر دیا تھا کہ کافرکبھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا جب تک کہ مسلمان اس جیسا( یعنی معاذ اللہ کافر ) نہ ہو جائے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :