تحریک انصاف حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی دوڑ

منگل 28 دسمبر 2021

Saeed Mazari

سعید مزاری

دسمبر کے ٹھٹھرتے موسم میں پاکستانی سیاست کا پارہ چارسُو گرم دکھائی دے رہا ہے ناقدین ان حالات کو پاکستان تحریک انصاف کی تین سالہ دور اقتدار میں انتظامی نااہلی قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں پی ٹی آئی حکومت ملکی معاملات چلانے میں ناکام رہی اور ان کی پالیسیوں کے سبب ایوزیشن کو متحد ہونے کا موقع ملا۔ بظاہر ناقدین کی یہ رائے معقول دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پاکستانی عوام نے پی ٹی آئی کے ان تین سالوں کے دوران ہر آنیوالے دن کو گزشتہ روز سے مشکل ترین پایا۔

تین سالوں کے دوران ملکی معاشی عشاریوں میں جو خطرناک کمی واقع ہوئی اس سے ایک طرف عام آدمی کی آمدن اور قوت خرید کم ہوگئی دوسری طرف بری ایڈمنسٹریشن کا خمیازہ عوام کو بدترین مہنگائی کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

(جاری ہے)

ایسا لگ رہا ہے کہ پورے ملک میں کہیں کسی شعبے میں کسی بھی چیز پرکوئی چیک  اینڈ بیلنس ہے ہی نہیں۔ سیاسی لوگوں کی نااہلی کے سبب پاکستانی بیوروکریسی خودکو  دنیاکی طاقتور ترین بیورو کریسی سمجھتی ہے یہی بیورو کریسی ان تین سالوں کے دوران ملکی معاملات اور عوام کو درپیش مشکلات سےلاتعلق ہوکر بیٹھے ایسے تماشہ دیکھ رہی ہے جیسے کہ میدان میں ریچھ اور کتوں کو لڑتے ہوئے دور بیٹھے تماشائی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔


عمران خان اس ملک کو کرپشن سے پاک کرکے ایک عوامی فلاحی ریاست بنانے کا منشور لے کر وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد ریاست مدینہ کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے پاکستان کو اسی طرز پر نیا پاکستان بنانے کا اعلان کیا۔ گو کہ انہوں نے اس کیلئے چند ایک اقدامات ایسے اٹھائے بھی جن پر چل کر ایک اچھی ریاست کا قیام ممکن ہو۔

لیکن عمران خان کو اپنے اطراف موجود مفاد پرست لوگوں نے بری طرح اپنے شکنجے میں پھنسا لیا ہے۔ وہ عمران خان کو اپنے چرب زبانی سے سبزباغ دکھا کر ایسے فیصلے کروا لیتے ہیں جو بظاہر خوشنما دیکھائی دیتے ہیں لیکن ان کا ملکی معیشت اور عوام کی معاشی حالت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اوپر سے عمران خان کو ایوزیشن بھی ایسی ملی کہ جو عمران خان کو ناکام اور نااہل ثابت کرنے کیلئے کسی بھی جائز ناجائز حد تک جانے کیلئے صف آراء ہے۔

عمران خان کی مخالفت میں ایوزیشن کے جو لوگ دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف تھے ساری رنجشیں بھلا کر یا پھرعارضی طور پر ناراضگیوں کو کسی کونے میں رکھ کر میدان میں ہے ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ عمران خان کو کامیاب نہیں ہونے دینا خواہ اس لیے پورے ملک اور یہاں کی ساری عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگانا پڑ جائے۔
دراصل گزشتہ تیس پینتیس سال سے پاکستان میں صرف دو جماعتوں کی حکومتیں رہیں ان دونوں جماعتوں نے ہر دور میں اپنی مخالف پارٹی کی حکومت کو سازشوں سے گرایا اور باریاں لیں۔

عوام کے پاس تیسرا کوئی آپشن تھا ہی نہیں اس لیے ان دو جماعتوں نے اس ملک کو جاگیر اور عوام کو رعایا سمجھ کر باری باری حکمرانی کی۔ ہردونوں جماعتوں نے حکمران پارٹی سے اقتدار چھیننے کیلئے ہرحربہ استعمال کیا۔ تاہم اپنے درمیان کسی تیسری جماعت کو مدمقابل کھڑے ہونے  کا موقع نہ دیا۔ عمران خان نے تحریک انصاف کے نام سے جماعت بنائی تو اس وقت ان دو بڑی جماعتوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی روز یہ جماعت ان سے ان کا اقتدار چھین لے گی۔


شریف خاندان اور زرداری خاندان ( میں یہاں بھٹو خاندان قصدا" نہیں لکھ رہا کیونکہ بھٹو اور ان کے بیٹے میرمرتضیٰ بھٹو کی موت کے بعد عملی طور پر پاکستانی سیاست سے اس خاندان کا نام مٹ گیا تھا اور اب جو لوگ صرف عوامی ہمدردی کیلئے اپنے نام کے ساتھ بھٹو لگاتے ہیں وہ بھٹونہیں بلکہ زرداری خاندان کے ہیں خواہ بینظیر ہو، بلاول ہو یا پھر آصفہ یہ سب زرداری خاندان کے لوگ ہیں بھٹو نہیں) نے اپنی تین تین چار چار باریوں کے دوران اپنی حکومتوں کو مضبوط کرنے اور اس ملک کے نظام کو اپنی مٹھی میں رکھنے کیلئے ناصرف ہر سرکاری دفتر اور عہدے پر اپنے بندے لا بٹھائے بلکہ غیر سرکاری اداروں میں بھی اپنے وفا اداروں کی فوج لاکر بٹھا دیا۔

پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں ناصرف اہم عہدوں پر بلکہ چپراسی تک ان دو خاندانوں کے وفاداروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ آج جب عمران خان کی حکومت ان خاندانوں کی کرپشن پر ہاتھ ڈالتا ہے تو وہی وفادار لوگ کرپشن کے ثبوت غائب کردیتے ہیں۔ جہاں زیادہ معاملہ پھنس جاتا ہے تو وہاں پر عدالتوں میں بڑے بڑے منصبوں پر بیٹھے لوگوں کے ذریعے ریلیف لے لیا جاتا ہے۔


اس قدر چالوں سے بنائے گئے دو خاندانوں کی بادشاہت کوعمران خان نے ایک ہی جھٹکے میں ختم کردیا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ عمران خان ان دونوں خاندانوں اور ان کے گماشتہ نما اتحادیوں کی  سازشوں سے محفوظ رہتے۔
ان دونوں خاندانوں نے عمران خان کاراستہ روکنے اور اسے ناکام ثابت کرکے عوام کے دل سے نکالنے کیلئے اپنے تمام تر حربے استعمال کرڈالے عدالتی منصبوں پر بیٹھے اپنے وفادارلوگوں سے لیکر بیوروکریسی تک اور ہر سرکاری محکمے میں بیٹھےاپنے ہی ہاتھوں لگائے افسر سے لیکر چپراسی تک کو عمران خان کو ناکام حکمران ثابت کرنے پر لگا دیا۔

اب ہوتا یہ ہےکہ عمران خان کوئی حکم دے بیوروکریسی اس پر عملی اقدامات کی بجائے ناصرف کاغذی کارروائیاں ڈالتی ہے بلکہ اس حکم کو الٹا کر عوام پر مصیبت نازل کردیتی ہے اور سب اچھا کی رپورٹ عمران خان کی ٹیبل پر پہنچا دی جاتی ہے۔ اگر کہیں واقعی کوئی کارروائی ہو بھی جائے تو عدالتوں میں بیٹھے مہان ہستیاں ان لٹیروں کو کسی نا کسی طرح ریلیف دے دیتی ہیں۔


عمران خان کی حکومت نے گراس روٹ لیول پر عوام کو ریلیف دینے کیلئے صحت کارڈ، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم، احساس پروگرام ، کامیاب پاکستان، کامیاب نوجوان، ہنر مند نوجوان سمیت بے شمار بہترین منصوبے شروع کیے لیکن ہر جگہ پر موجود کرپٹ مافیا ان سب کا فائدہ عوام تک پہنچنے ہی نہیں دے رہا۔ اس وقت مخالف جماعتیں ہر ممکن کوشش میں ہیں کہ مہنگائی کی شرح روزبروز بڑھتی ہی جائے کم نہ ہو تاکہ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔


 بیوروکریسی سب کچھ جان بوجھ کر اپنے کرپٹ آقاؤں کی تسکین کیلئے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی نہیں کرتی جس سے ناصرف مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ضروریات زندگی کی اشیاء کی قلت بھی پیدا ہوجاتی ہے جس سے عوام حکومت سے متنفر ہورہی ہے۔
اپوزیشن کی حلیف بیورو کریسی اور عمران خان مخالف قوتوں کے گٹھ جوڑ کے اثرات خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سامنے آ چکے ہیں۔

مہنگائی کی ستائی عوام نے پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کردیا۔ جس سے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بالعموم جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو بالخصوص بہت حوصلہ ملا۔ اگر حالات میں بہتری نہیں لائی گئی  مستقبل قریب میں کوئی بہتری نظر بھی نہیں آرہی تو ایسے میں چند ماہ بعد پنجاب میں متوقع بلدیاتی انتخابات کا نتیجہ پی ٹی آئی حکومت کیلئے خیبر پختونخوا سے  کہیں زیادہ خطرناک ہوگاجو برسراقتدار پارٹی کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں۔


دوسری جانب پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے بھرپور تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں آصف علی زرداری نے لاہور میں خیمہ لگا کر پڑاؤ ڈالنے کا اعلان کیا تو دوسری جانب ن لیگ اپنے بکھرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کرنے اور ورکروں کا جوش و جذبہ بڑھانے کیلئے نواز شریف کے وطن واپسی کا کارڈ کھیلنے کی کوششوں میں ہے۔

عین ممکن ہے کہ نواز شریف واپس آ بھی جائیں کیونکہ برطانیہ نے ان کا ویزہ بڑھانے سے انکار کردیا اور اگر اپیل کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا تو پھر جنوری کے دوسرے یا تیسرے ہفتے تک میاں نواز شریف کو برطانیہ سے نکلنا ہی پڑے گا لیکن ن لیگ اس معاملے کوگھما پھرا کر اپنے حق میں استعمال کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے اس لیے ابھی سے وہ میاں نوازشریف کی وطن واپسی اور اگلے چند مہینوں میں کچھ بڑی تبدیلی کی خبریں چلوائی جا رہی ہیں۔

اس سب میں ایک بات تو طے ہے کہ میاں نواز شریف خواہ خود واپس آئیں ( جو سزائیں ختم کروانے تک تو ممکن دکھائی نہیں دیتا) یا پھر برطانوی حکومت انہیں ڈی پی پورٹ کرکے پاکستان بھیج دے پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات میں اضافہ دونوں صورتوں میں ہوجائے گا۔ کیونکہ عوام کی ایک معقول تعداد کے علاوہ عدالتوں میں اور بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں ان کے ہمدردوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود میاں نوازشریف کو ریلیف دینے سے نہیں کترائیں گے۔

بلکہ حکومتی پارٹی کیلئے مزید مشکلات میں اضافہ ہی کرینگے۔ تاہم گزشتہ کچھ دنوں سے ن لیگ اور دیگر اپوزشیشن پارٹیوں کی جانب سے یہ تاثر کہ عمران خان کے خلاف ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہو گئی ہے تو یہ فی الوقت صرف اور صرف پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے واضح کہا گیا کہ آصف زرداری یا کسی اور پارٹی سے اگر ان کے کسی بندے کوئی ملاقات کی ہے تو اس کا نام بتایا جائے۔

ان حالات میں اب عمران خان کی حکومت کے پاس اپنی ساکھ بچانے کے صرف دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ کسی بھی طرح کرکے مہنگائی کے جن کو قابو کرے اور لوگوں کو سستی اشیاء کی فراہمی سہل کردے جو اب تک کے اقدامات اور بیورو کریسی کے رویے سے ممکن ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کو بلدیاتی انتخابات سے قبل انتظامی طور پر دو یا تین صوبوں میں تقسیم کردے جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ پورا کرنے پر وہاں کی عوام سب دکھ بھول کر پی ٹی آئی کے گن گائے گی اور پنجاب کے سنٹرل اور اپرحصوں میں مزید تقسیم سے پی ٹی آئی کی حریف جماعتیں خاص طور پر ن لیگ کمزور ہوجائے گی اپر پنجاب میں ق لیگ اور دیگر جماعتیں اکثریت میں آ جائینگی اور پی ٹی آئی سے الگ صوبہ ملنے کی وجہ سے پنگا نہیں لیں گی جبکہ سنٹرل پنجاب میں اکثریت اور صوبائی حکومت بنانے کے باوجود مجموعی طور پر کم سیٹوں کی وجہ سے ن لیگ پی ٹی آئی کو مرکز میں حکومت بنانے سے روکنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوگی۔

اور یوں پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے پی اور سندھ سے اتنی سیٹیں لینے میں کامیاب ہوجائے گی کہ اگلی حکومت بنا سکے اور دو سے تین صوبوں میں اپنی یا الگ یا ایک آدھ صوبے میں اشتراکی حکومت بھی بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ابھی اس وقت جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں ان حالات میں پی ٹی آئی حکومت کیلئے مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی عوام کا اعتماد بحال کرنا بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ جنوری، فروری کے مہینے میں پاکستانی سیاست اور ملکی حالات انتہائی حساس ہو جائینگے۔

اب تک پی ٹی آئی کے ہاتھ عوام سے اپنے لیے ہمدردی لینے کیلئے کچھ بھی پاس نہیں ہے۔ اس وقت تیس فیصد سے زائد پی ٹی آئی کے کارکن خود اپنی پارٹی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ آنیوالے وقتوں میں دیکھا جائے گا کہ عمران خان جو ایک مضبوط اعصاب کے مالک کھلاڑی اور لیڈر ہیں اپنی پارٹی کے کم بیک کیلئے کیا فیصلے اور اقدامات کرتے ہیں۔ فی الوقت حکومتی ترجمانوں کے بیانوں سے پی ٹی آئی کے سر پر منڈلانے والے خطروں کے بادل چھٹتے ہرگز دکھائی نہیں دیتے۔ بلکہ یہ عمران خان سمیت پوری پارٹی کو گمراہ کرکے تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :