اظہار رائے کی آزادی، حقیقت یا فسانہ

اتوار 3 مئی 2020

Saeed Mazari

سعید مزاری

آج دنیا بھر میں آزادیِ صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔  اقوام متحدہ نے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس 1948 کی شق 19 کے تحت ہرسال 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن (پریس فریڈم ڈے ) قرار دے رکھا ہے، اسے آزادیِ اظہارِ رائے کا دن بھی کہا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد دنیا بھر میں صحافت سے جڑے ہوئے لوگوں کی خدمات کا اعتراف کرنا اور اظہار رائے کی ازادی کیلئے کوششیں کرنے والے اور اس مقصد کیلئے قربانیاں دینے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

1991 میں افریقی اخبارات کے صحافیوں نے آزاد صحافت کے حوالے سے کچھ اصول وضع کیے جو بعد ازاں وقتاً فوقتاً کچھ تبدیلیوں کے ساتھ قابل استعمال قرار پاتے رہے۔
آزادی اظہار رائے یا پھر آزادی صحافت کیلئے جدو جہد ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور آج بھی دنیا میں 63 فیصد سے زائد ممالک میں صحافت اور اظہار رائے پر کسی نہ کسی طرح پابندی عائد ہے۔

(جاری ہے)

دنیا کی مختلف صحافتی تنظیمیں آزادی صحافت اور آزادی اظہاررائے کیلئے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کی بیشتر حکومتیں آزاد صحافت اور رائے کی آزادی کو ناپسند کرتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ زبانی کلامی طور پر اس حوالے سے بڑے بڑے دعوے اور اعلان کیے جاتے ہیں عملی طور پر مقتدر حلقہ صحافت کو اپنی مٹھی میں بندکرکے رکھنے کا خواہشمند ہی دکھائی دیتا ہے۔ اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے مختلف حیلے بہانوں سے ایسے ہتھکنڈے، قوانین اور اصول بروئے کار لاتے ہیں جن کی وجہ سے ناصرف کسی بھی صحافی یا صحافتی ادارے کیلئے آزادانہ طور پر کام کرنا مشکل ہوتا ہے بلکہ کسی بھی عام شہری کیلئے بھی اپنی رائے کا آزادانہ اظہار ممکن نہیں رہتا۔

اگر پھر بھی کوئی ادارہ ، صحافی یا کوئی شہری جراؑت کا مظاہرہ کرے اور مقتدر حلقوں یا ان کے زیرانتظام اداروں سے متعلق حقائق عوام  کے سامنے لے آئے اور ان کے غلد اقدامات پر تنقید کرے تو ایسے لوگوں اور اداروں کومقتدر اور طاقتور حلقوں کی طرف سے بے شمار سختیوں اور مسائل سے دوچار کردیا جاتاہے۔ انسانی حقوق کے طے شدہ قوانین کے مطابق دنیا کے ہر فرد کواپنے ارد گرد کے حالات سے باخبر رہنے اور اپنی رائے کے اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے۔

لیکن دنیا کی آمرانہ سوچ کی حامل حکومتوں اور شخصیتوں کو اظہاررائے کی آزادی اور لوگوں کو باخبر رکھنا انتہائی ناگوار گزرتا ہے۔ اس لیے ایسی حکومتیں ،اور شخصیات اداروں اور صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے سمیت حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے والوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے پریشان کرتے ہیں۔
سال 2020 کا آغاز ہی مختلف ممالک میں غیرجانبدارانہ رائے کا اظہار کرنے والے افراد اور صحافیوں کے خون سے ہوا ایک رپورٹ کے مطابق جنوری سے اپریل تک 7 صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

لوگوں کو حقائق کی آگاہی دینے کے دوران جانبحق ہونے والوں میں عراق اور شام سے 2،2 جبکہ پاکستان،سومالیہ، پیراگوئے سے ایک ایک صحافی شامل ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں کی رپورٹس کے مشاہدے کے بعد یہ بات واضح ہے کہ آزادی اظہار رائے یا پریس فریڈم کے حوالے سے ترقی پذیر ممالک کی نسبت ترقی یافتہ اور خود کو انسانی حقوق کا علمبرادر سمجھنے والے امریکہ، چین اور بھارت جیسے ممالک اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے میں زیادہ  آگے ہیں۔

صحافیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ( سی پی جے) کی طرف سے صحافیوں اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے دس انتہائی برے ممالک کی فہرست میں چین کا پانچواں نمبر ہے جبکہ اس لسٹ میں ایریٹیریا پہلے، جنوبی کوریا دوسرے،ترکمانستان تیسرے اور سعودی عرب چوتھے نمبر پر موجود ہے سی پی جے کی لسٹ میں ساتویں نمبر ایران بھی دکھائی دے رہا ہے۔

جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں پریس فریڈم گزشتہ پانچ سالوں کی نسبت ٹرمپ دور میں زیادہ متاثر ہوا اور یہ پریس فریڈم اور اظہار رائے کے حوالے سے انتہائی برا وقت ہے۔
دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے بلند و بانگ دعووں کے باوجود 1992 سے اپریل 2020 تک 1370 صحافی قتل ہوئے۔ ان سالوں میں 2009 کو صحافیوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا کیونکہ 2009 میں 76 صحافیوں کو فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیا گیاجبکہ دوسرے نمبر پر 2012 اور 2013 کے سالوں کو صحافیوں کا قاتل سال کہا جا سکتا ہے ان دو سالوں کے دوران 148 صحافیوں کا قتل ہوااسی طرح 2015 میں بھی 73 صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنے جان کی قربانی دینی پڑی۔

  1992 سے اپریل 2020 تک 872 صحافیوں کے قتل کے ایسے کیسز ہیں جو کئی سال گزر جانے کے باوجود التوا کا شکار ہو کرابھی تک کسی منتقی انجام کو نہیں پہنچے۔ امریکہ اور چین میں صحافیون کیلئے آزادانہ طور پر کام کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی حکومت ان دنوں صحافیوں اور صحافتی اداروں کے ساتھ مکمل طور پر برسرپیکار دکھائی دیتےہیں۔

نشریاتی اداروں اور صحافتی تنظیموں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان دنوں پریس فریڈم اور اظہار رائے کی آزادی کو جس طرح سلب کررکھا ہے اس کی امریکی تاریخ میں گزشتہ 20 سالوں میں مثال نہیں ملتی۔ صحافیوں کو مختلف اوقات میں صدر ٹرمپ کی طرف سے دھمکیاں دینے اور عوامی مقامات پر صحافیوں کی تذلیل کرنے کے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں۔  اسی طرح چین میں بھی صحافتی اداروں اور سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بے شمار پابندیوں کا سامنا ہے اور یہ چیز عام دیکھنے میں آئی ہے کہ چینی حکومت براہ راست صحافتی اداروں اور اظہار رائے کے پلیٹ فارمز کے معاملات میں دخل اندازی کرتی ہے اور وہاں پر سیلف سینسرشپ کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

  اظہار رائے اور پریس فریڈم کے حوالے سے کام کرنیوالے ایک بین الاقوامی ادارے فریڈم ہاؤس کی ایک سینئر ریسرچ ڈائریکٹر سارہ ریپیوسی نے کچھ عرصہ قبل جاری کردہ ایک رپورٹ میں باقاعدہ انکشاف کیا کہ پریس فریڈم اور آزادی اظہار رائے کے حوالےسے بڑے بڑے دعوے کرنیوالے ملک بھارت میں وہاں کی برسراقتدار پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) باقاعدہ طور پر ان مہمات اور اقدامات کی سپورٹ کرتی ہے جو حکومتی غلط اقدامات سے متعلق حقائق کو سامنے لانے والے اور سچائی پر مبنی تنقید کرنے والے صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور تشدد کرنے کیلئے منظم انداز میں شروع کیے جاتے ہیں معروف ریسرچر اور تجزیہ نگار سارہ ریپیوسی اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بذات خود اکثر صحافیوں کو حکومتی مرضی کی خبریں چلانے کیلئے ہدایات دیتے ہیں۔

فریڈم ہاؤس نے لکھا کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت جب کوئی غیر جمہوری قدم اٹھانے لگتی ہے یا اٹھاتی ہے تو وہ سب سے پہلے میڈیا کو کنٹرول کرکے ان کی آزادانہ کام کرنے کا حق سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2017 میں ایک ملیشئین صحافی کو فقط اس لیے قتل کردیا گیا کہ اس نے سیاستدانوں کی کرپشن کو نقاب کیا تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ امریکہ، وسطی ایشیا، اور افریکی ممالک میں 2014 سے لیکر 2019 تک اظہاررائے کی آزادی یا آزادی صحافت کے حوالے سے حالات میں فقط 3 فیصد کا فرق ہی دیکھنے میں آیا۔

  مشرقی ایشیا کے حوالے سے اسی ادارے کی ایک اور سینئر ریسرچر سارہ کاک نے اپنی رپورٹ میں چین میں صحافتی اداروں میں سرکاری مداخلت میں مسلسل اضافے پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا۔
آزادی اظہار رائے کی سلبی میں یوں تو بھارت ہمیشہ سے ہی آگے رہا تاہم نریندر مودی کے دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد آزادی رائے کو دبانے کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

انتہا پسندانہ سوچ اور پرتشدد مزاج کے حامل مودی سرکار بھارت میں کئی سالوں سے مکین سکھ ، مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم اور بربریت روا رکھے ہوئے ہے وہاں کے کسی فرد، ادارے یا صحافی کو اس ظلم و بربریت کی آزادانہ رپورٹنگ کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ بھارتی حکومت نے صحافتی اداروں سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر بے شمار پابندیاں عائد کررکھی ہیں اور خلاف ورزی کرنے پر انسانی حقوق کے برعکس سخت ترین سزائیں دینے کے واقعات عام ہیں ۔

  مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشتگردی کو منظر عام پرآنے سے روکنے کیلئے بھارتی فوج اور حکومت وہاں کے صحافیوں کو آئے روز تشدد کا نشانہ بناتی اور ان کی نقل وحمل پر پابندیوں سمیت فون اور انٹر نیٹ کے استعمال پر بھی پابندیاں لگاتی رہتی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور پریس فریڈم کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان میں 1994 سے اب تک 70 کے قریب صحافیوں کو قتل کردیا گیا، فریڈم نیٹ ورک نامی تنظیم نے انکشاف کیا کہ مئی 2019 سے اپریل 2020 تک 90 سے زائد صحافیوں پر تشدد اور حملوں کے واقعات ہو چکے ہیں فریڈم نیٹ ورک کے مطابق اس دوران سب سے زیادہ تشدد کے واقعات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آئے جن کی تعداد 34 ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سندھ میں صحافیوں پر تشدد کے 24، پنجاب میں 20، خیبر پختونخوا میں 13 اور بلوچستان میں 3 واقعات رونما ہوئے۔


 فروری 2020 میں پاکستانی حکومت نے بڑی خاموشی کے ساتھ سوشل میڈیا سے متعلق قانون نافذ کردیا جس کے بعد صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کیلئے حکومتی اقدامات پر تنقید کرنا بہت مشکل ہو گیا۔ گزشتہ سال دسمبر میں نصراللہ چوہدری نامی صحافی کو دہہشتگردی کی عدالت نے ممنوعہ مواد کی تشہیر کے الزام میں پانچ سال قید کی سزا سنا دی۔ اسی طرح حکومت اور اس کے حامی اسٹیبشمنٹ پر تنقید کرنے کی وجہ سے معروف صحافیوں حامد میر، سلیم سافی، منیزہ جہانگیر، شاہ زیب خانزادہ سمیت متعدد اینکروں کے پروگرام بند اور سینسر کردیئے گئے۔

فروری 2020 میں سندھ کا ایک صحافی عزیز میمن کا مبینہ قتل ہوا جس کا تاحال یہ طےنہیں کیا جا سکا کہ عزیز میمن کو قتل کیا گیا یا پھر اس کی موت کسی اور وجہ سے ہوئی۔سی پی این ای کی گزشتہ سال جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال پاکستان میں 60 صحافیوں پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ۔ سرکاری محکموں کے تقریباً تمام دفاتر میں حقائق کو چھپانے کیلئے صحافتی اداروں کے نمائندوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔

کسی صحافی کو کسی ادارے میں ماسوائے اپنے مطلب کی رپورٹنگ کے موبائل کیمرہ تک لیجانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حکومت کے نامناسب اقدامات اور متنازعہ پالیسیوں پر تنقید کرنے کے جرم میں پیمرا آئے روز ٹی وی چینلز کو نوٹسز اور جرمانے کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اظہار رائے کی آزادی کو کم کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے نئے اخبارات اور میگزینوں کے دیکلریشن کے اجراء پر بلاجواز پابندی عائد کررکھی ہے۔

اور چھوٹے اخباروں اور ادارون کو اشتہارات کی بندش اور ان کے واجبات کی عدم ادائیگی ان اداروں میں کام کرنے والے ورکروں کے بنیادی حقوق کو متاثرکرنے اور انہیں آزادنہ طور پر اپنی رائے کے اظہار سے روکنے کی کوشش ہے۔
بین الاقوامی اخبار گارڈین نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کی موجودہ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ عمران خان کی حکومت پر تنقید کرنے کا مطلب اخبار یا چینل کو بند کرنا ہے۔

  گارڈین نے عمران خان کے دور حکومت میں میڈیا  اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندیوں کو ایوب خان اور ضیاء الحق کے دور آمریت سے بھی زیادہ بدتر اور خطرناک قرار دیا۔ آزادی رائے یا آزادی صحافت کے اس عالمی دن کے موقع پر ایکبار پھر دنیا بھرسے بڑے بڑے دعوے اور اعلانات سامنے آئینگے اور تقریباً تمام ممالک کے سربراہان اور ذمہ داران آزادی رائے کی مکمل فراہمی کا اعادہ کرتے ہوئے نظر آئینگے لیکن حقیقت میں دنیا کے آمرانہ سوچ کے حامل حکمران کبھی بھی پریس فریڈم یا رائے کے اظہار کی آزادی کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائینگے۔

اب تک کے جو حالات اور اعداوشمار ہمارے سامنے ہیں اگلے سال ان میں بے بے انتہا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ کیونکہ وقت بدل رہا ہے لیکن حکمران طبقے کی سوچ وہی ہے اور خود صحافتی حلقے بھی اپنی آزادی کا دفاع کرنے میں اس حد تک مؤثر انداز میں کام کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے جو موجودہ حالات کے مطابق وقت کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :