70سالہ پاکستانی سیاست کی مختصر کہانی

جمعرات 1 اپریل 2021

Saeed Mazari

سعید مزاری

بچپن میں فلموں میں دیکھتے تھے کہ اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے اور اس میں مزید اضافے کیلئے سیاست دان کیسے عوام اور اپنے مدمقابل کو زیر کرتے ہیں اس وقت فمی سیاست میں دھوکہ، بے ایمانی،جھوٹ اور فریب عجیب اس لیے نہیں لگتا تھا کہ اس وقت یقین ہوتا تھا کہ ان سب کو ہرانے کیلئے ایک ہیرو آئے گا اور آن ہی آن میں ان سب کی چال بازیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی سب تدبیریں الٹی کر دے گا اور پھر ایک ایک کرکے ان سب کی کی مکاریاں اپنے انجام کو پہنچ جائیں گی اور بلاۤخر مشکلوں، مصبیتوں اور آزمائشوں کے بعد کامیابی ہیرو ہی کی ہو گی۔

اس وقت یہ سب ایک تماشہ لگتا تھا اور خیال یہ تھا کہ یہ سب کچھ صرف فلمی سیاست اور فلمی دنیا میں ہوتا ہے حقیقی سیاست اور حقیقی زندگی سے اس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔

(جاری ہے)


لیکن وقت گزرا تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بچپن کے خیالات اور اندازے ناصرف غلط ثابت ہوتے گئے بلکہ بلکہ حالات اور معاشرے کی تلخیوں نے حقیقتوں کا پردہ بھی چاک کردیا۔ چند سالوں سے پاکستان کے حالات اور خاص طور پر سیاسی حالات کو دیکھ کر تو یقین کامل ہو جاتا ہے کہ " سیاست کا کھیل گندا ہے، پر دھندہ ہے" کے علاوہ کچھ نہیں۔

اس دھندے میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو لاچارگی کی حالت میں ہم نے رخت سفر دیکھا، لیاقت علی خان کو سرعام گولیاں لگتے دیکھا، ناظم الدین کی حکومت، محمد علی بوگرا،چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر، فیروز نون اور ان میں سے بیشتر کو نامزدکرنے والے پاکستان کے پہلے بیوروکریٹ صدر جنرل سکندر مرزا سے ہوتے ہوئے اقتدار اور مفادات کا کھیل جسے ہم عوام کیلئے سیاست کا نام دیا گیا۔

سیاست کا یہ کھیل پھر سکندر مرزا کے خلاف شروع ہوا تو انہیں ان ہی کے تعینات کردہ جنرل ایوب خان کے ہاتھوں کرسی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ایوب خان کے دور میں مادرملت فاطمہ جناح کو اسی کھیل کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور انہیں اس نہیج تک لایا گیا کہ وہ دنیا سے ہی چلی گئیں، لیکن سیاست اور اقتدار کا یہ گندا کھیل نہیں رکا، ایوب خان کی بھی باری آئی اور وہ بھی اس کانشانہ بنے اور رسوا ہو کر اقتدار چھوڑ کر چلتے بنے۔


سکندر مرزا کے دور میں مشیری کے عہدے سے ترقی کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان اور پھر ان کے بعد جنرل یحیٰ خان کی نام نہاد وفاداری کے بل بوتے پرپاکستان کے خیر خواہ بن کر سامنے آئے اور انہوں نے وہ خیر خواہی دکھائی کہ پاکستان آج تک ان کے اس خیر خواہی کی قیمت چکا رہا ہے۔ سیاست کے اس دھندے میں مجیب الرحمان نے پاکستان کی کوکھ سے بنگلہ دیش نکال لیا۔

پھر سیاست کے کھلاڑیوں نے یحیٰ خان کی آرام پسندی کی عادت کے سبب پاکستان سے بنگلہ دیش کے قیام کا اس کا الزام بھی ان پر ہی تھونپ دیا۔ اور ذولفقارعلی بھٹواپنی ذہانت،چالاکی اور سیاست کے باعث ٹوٹے پھوٹے پاکستان کے خود ساختہ لیڈر بن گئے، انہوں نے بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرہر اس شخص کو سبق سکھایا جس کو ان کے لیڈر ہونے سے اختلاف تھا۔ اپنی باتوں سے اورخطابانہ صلاحیتوں سے خود کو عوام میں مقبول کرنے والے اورسوائے اپنے خاندان کے پورے پاکستان کے زمینداروں کی زمینیں ان سے چھین لیں اور ان زمینوں کا کچھ حصہ بحق سرکار اور کچھ کاشتکاروں کو دے دیں۔

روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر غریب اور متوسط طبقے کی ہمدردیاں سمیٹیں۔ خیال تھاکہ کرسی ہمیشہ ان کے پاس رہے گی لیکن اقتدار کی کرسی میں تو وفا نام کی کوئی شئے کسی کیلئے بھی نہیں پھر دنیا نے دیکھا کہ بنگالیوں کو غدار، بھوکے ننگے اور نا جانے کیسے کیسے القابات دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کو انہی کے لائے گئے ایک جنرل نے ناصرف کرسی سے ہٹایا بلکہ قتل، غداری اور دیگر الزامات لگا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا، جنرل ضیاءالحق کا جب اس سے بھی دل نہیں بھرا اور اقتدار کا مزہ تا دیر لینے کی خواہش ہوئی تو ذوالفقار بھٹو کو جان سے جانا پڑا۔

اس وقت جنرل ضیاء الحق نے خود کو پاکستان اور اسلام کا وفادار ثابت کرنے کی بے انتہاء کوشش کی بے شمار اسلامی قوانین کا اپنے انداز میں نفاذ کیا۔ اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں انہوں نے پاکستان میں سیاست کو اپنے انداز میں چلایا، انہی گیارہ سالوں کے دور میں پاکستان کو بھارت سے ہجرت کرکے آئے کاروباری خاندان شریف میں ایک عظیم لیڈر نطر آ گئے اس عظیم لیڈر نے جنیجو حکومت پر شب خون مارا اور پنجاب کے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہو گئے۔

اسی دوران ہی سیاست حرکت میں آئی اور پھر اچانک جنرل ضیاءالحق کا جہاز پنجاب کی سرزمین پر خاک ہو گیا، اس کے بعد پاکستان کی سیاست میں نیا موڑ آیا بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین سیاست سیاست کا کھیل چلتا رہا، کبھی بینظیر بھٹو کرسی سنبھال لیتیں تو کبھی میاں نواز شریف اقتدار میں نظر آتے۔ باری باری حکومت کی سیاست کا یہ دور جسے دونوں فریقوں کے حمائتی ایک دوسرے پر الزامات سے قطع نظر بہترین جمہوری دور قرار دیتے ہیں کیونکہ اس دور میں ملک کے صدرمملکت کو ایک کرسی ڈال کر بٹھا دیا گیا اور ان کی ڈیوٹی فقط اتنی مقرر کی گئی کہ وہ آرڈیننس پر دستخط کریں باقی تمام اختیارات ان سے لے کر وزیراعظم کو تقریباً ملک کا متلق العنان حکمران بنا دیا گیا۔

سیاست کا کھیل دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کو بنے 50 سال گزر گئے ان پچاس سالوں کے دوران پاکستان کی سیاسی دھندے میں کئی لوگ آئے اور کئی چلے گئے۔ اس قوم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ خاندان ایسے بھی تھے جو ککھ پتی تھے لیکن سیاست کی بدولت ارب پتی بن گئے جبکہ عوام میں سے بے شمارلکھ پتی سے ککھ پتی بن گئے۔ کچھ خاندانوں کی ترقی اور ہزارون خاندانوں کی تنزلی کی ہرگز یہ وجہ نہیں کہ ان میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت نہیں تھی اور کچھ میں زیادہ تھی بلکہ یہ کرشمہ اس لیے ہوا کہ ان پچاس سالوں کے دوران جتنی حکومتیں آئیں، جنتے سیاست دان آئے یا جتنے بھی جنرلز آئے سب نے عوام کی فلاح اور بہتری کا نعرہ تو لگایا لیکن عملی طور پر عوام کیلئے نہیں اپنے مفادات کیلئے حکومت کی اور انہی مفادات کو تحفط دینے کیلئے قانون سازی کی۔

پھر اکتوبر 1999 میں پاکستان کی سیاست میں ایک اور موڑ آیا اور جنرل ضیاءالحق کی طرف سے متعارف کروائے گئے لیڈر میاں نواز شریف کی کرسی ایکبار پھر ان کے اپنے لائے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں چھِن گئی۔ میاں نواز شریف پر وہی الزامات لگے جو میاں نواز شریف اپنے دور حکومت اور انتخابی مہم کے دوران اپنے مخالفین پر لگاتے تھے۔ طیارہ اغوا کا کیس بنا، غداری کے مقدمات چلے،کرپشن کرپشن کا رونا دھونا ہوا، پکڑ لو پکڑ لو کا شور مچا گرفتاریاں، حسب سابق قید خانے، کسی قسم کا این آر او نہ دینے کے دعوے لیکن پھر چشم عالم نے این ار او بھی دیکھے، جلاوطنیاں بھی دیکھیں کیسز کو بند ہوتے دیکھا۔

ایک وردی جو اس وقت کھال کہلائی تھی حامل نے وہ وردی بھی اتاری اور پھر سب سے پہلے پاکستان کہتے کہتے "پاکستان کا اللہ حافط ہے" کہہ کر رخصت ہوتے بھی دیکھا۔ سیاست کا دھندہ ایک لمحے کیلئے بھی بلندیوں سے نیچے آنے کیلئے تیار نہیں ہوئی بلکہ ہر آنے والے دن ایک نئے روپ کے ساتھ ایک نئی منزل کی طرف چل پڑتی۔ سیاست کے گروؤں نے اپنے راستے کی ہر اس دیوار کو مسخر کیا جو کبھی بھی ان کیلئے کسی مشکل کا سبب بن سکتی تھی۔

خواہ وہ دیوار بیوروکریسی کی شکل میں ہو، کسی جنرل کی شکل میں ہو کسی تاجر کی شکل میں ہو کسی یا کسی بھی اور شکل میں سیاست کے کھلاڑیوں نے سب کو بڑی مہارت کے ساتھ اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ میثاق جمہوریت کے نام پر سیاست کے نئے اہداف مقرر ہوئے، عوام کو نئے خواب دکھانے کے پروگرام بنے۔ نئے کھلاڑی میدان میں اترے چور چور کا شور مچا، ایک دوسرے کے پیٹ سے قومی دولت نکالنے، سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں ہوئیں، ایک زرداری سب پر بھاری کی گونج بھی سنائی دی۔

میثاق جمہوریت والوں نے جمہور کو کھڈے لائن لگا کر پانچ، پانچ سال کی باریاں لیں۔ سب اچھا جا رہا تھا کہ سیاست کے کھیل میں ایک کرکٹ کا کھلاڑی آن کودا۔ اس نے روائت سے ہٹ کر طریقہ اپنایا اس نے عوام کو بتانا شروع کیا کہ پہلے والے سب کے سب ملے ہوئے تھے۔ انہون نے باریاں لگائی ہوئی ہیں۔ سب نا صرف اقتدار کے شراکت دار ہیں بلکہ کاروبار وغیرہ میں بھی ایک دوسرے کے حصہ دار اور مفادات کے محافظ ہیں۔

اس نئے کھلاڑی کی انٹری سے تو سیاست کا پورا کھیل ہی تبدیل ہو کر رہ گیا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ غیر ملکی صھافیوں کے ایک گروہ نے پاناما کا ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اس ہنگامے نے سیاست کے کھیل کے چہرے سے پردہ ہٹایا تو عام لوگوں کو پتا چلا کہ سیاست کسی کی خدمت گزاری کا نام نہیں بلکہ یہ ایک منظم دھندہ ہے اور انتہائی گندا ہے۔ عوام بے چاری کرتی کیا نہ کرتی مجبوراً اس نئے کھلاڑی کی باتوں پر بھی یقین کر بیٹھی اور 2018 کے الیکشن میں میثاق جمہوریت والوں کو چھوڑ کر اس نئے کھلاڑی کو اپنا مسیحا جان کر منتخب کرلیا۔

نیا کھلاڑی جو سیاست کے آزمودہ داو پیچوں سے زیادہ واقف نہیں تھا اسے نئے چہرون کے ساتھ پرانے کھلاڑیوں کے شراکت داروں نے مہارت سے گھیر لیا۔ عمران خان نامی اس نئے کھلاڑی کو لگا کر وہ کرسی پر بیٹھ کر دیکھتے ہی دیکھتے سب ٹھیک کر دے گا۔ اور شاید ستر سال کی حالت زار کو چند دنوں یا مہینوں میں ٹھیک کردے گا۔ لیکن ادھر سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑی بھی اپنے تمام تر ساز وسامان کے ساتھ میدان میں اتر گئے اور ایک دوسرے پر لگائے گئے غداری، کرپشن کے الزامات، ایک دوسرے کی نجی محافل اور نجی زندگی کی کہانیاں جو مختلف طریقوں سے عوام تک پہنچائی گئی تھیں، نازیبا تصاویری مہمات، ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں، لوٹا ہوا پیسہ پیٹ پھاڑ کر نکالنے کے دعوے سب کچھ بھلا کر متحد ہو کر نئے کھلاڑی کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس میں انہون نے اپنے جن وفاداروں کو سرکاری اور نجی اداروں میں پال رکھا تھا، جن تاجروں کوحصہ داری پرعوام کو لوٹنے کی آزادی دے رکھی تھی جن ملازمین کو جن جن محکموں میں اور جن جن عہدوں پر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بٹھا رکھا تھا سب کو متحرک کردیا۔ تاکہ ملک میں ایسی صورتحال بنا دی جائے کہ کوئی عوام کا جینا محال ہو اور ایسی صورتحال پیدا ہو کہ نہ تو ان کا بنایا ہوا کرپٹ نظام جو فقط ان کے مفادات کا محافظ ہے مخلل ہو بلکہ عوام کی چیخ و پکار سے ملک کی بنیادیں ہل جائیں۔

اور پھر ایسا ہی ہوا کہ بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑ دیا، حکمران کے ہر حکم پر ایسے عمل کیا کہ بجائے عوام کو اور ملک کو فائدہ ہونے کے الٹا نقصان ہونے لگا، پولیس نے شہریوں کو تحفظ دینے کی بجائے لوگوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا۔ رشوت کے ریٹ بڑھ گئے، پٹواری اور دیگر بااثرلوگ غریب اور لاچار لوگوں کی زمینیں ہتھیانے لگے، عدالتوں مین انصاف تو دور لوگ اپنے جائز مقدمات کیلئے جانے سے بھی درنے لگے، امن و امان کی صورتحال خوفناک ہو گئی، معصوم بچے درندوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہونے لگے، ہر طرف افراتفری کی کیفیت پیدا کردی گئی۔

رہی سہی کسر ان مافیاز نے پوری کردی جو مختلف ھیلوں بہانوں سے نئے سیاسی کھلاڑی کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ ایک دوسرے کے جائز ناجائز مفادات کو تحفط دینے کیلئیے بنایا گیا اتحاد ایک سال تک عوام کو گلیوں،محلوں اور سڑکوں پر ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا کے نام پر خوار کرتا رہا۔ جب ان کے آپس کے مفادات ٹکرانے لگے تو عوام اور عوامی مفاد کو جوتی کی نوک پر رکھ کر ایکبار پھر ایک دوسرے سے رآستے جدا کرکے الزام تراشی اور نئے فساد کی طرف گامزن ہو گیا۔

نیا کھلاڑی بھی عوام کیلئے فقط باتوں کے علاوہ کچھ نہین لایا۔ تین سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے لیکن اس عرصے میں ہر دن عوام کیلئے قیامت سے کم نہیں گزرا۔ اب تک جن برے لٹیروں کا ہر روز ذکر کیا جاتا رہا نہ ان سے کچھ واپس لیا گیا اور نہ ہی عوام کو کوئی ریلیف فراہم کی گئی۔ سیاست کا دھندہ اب بھی اسی طرح جاری ہے۔ گزشتہ چند سالوں کی سیاست نے پاکستان میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا،  کسی کو جوتے پڑ رہے ہیں تو کسی پر انڈے پھینکے جا رہے ہیں ،اور کوئی کسی کا منہ سیاسی ڈال کر کالا کرنے میں لگا ہوا ہے، لیکن پھر بھی یہ کھیل جاری ہے اورملک کا حال یہ ہے کہ جو جتنا طاقتور ہے یہاں کا نطام اتنا ہی اس کا غلام ہے۔

اس کھیل میں چہرے بدلے ہیں اور مزید بھی بدلیں گے اور ہر بار عوام کو سبز باغ دکھائے جائیں گے۔ لیکن عوام اس دھندے میں مہرے کے طور پر استعمال ہوتے رہینگے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک کوئی بڑا انقلاب نہ جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :