پانی کا بحران پر صوبوں کی لڑائی۔۔۔۔

منگل 8 جون 2021

Saeed Mazari

سعید مزاری

پانی اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے بغیر دینا کا وجود قائم رہنا ناممکن ہے، ماضی میں پانی کے مسئلے پر جنگوں کے احوال سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے، اور عالمی حالات پر نظر رکھنے والوں نے مستقبل میں بھی پانی کے مسئلے کو انسانوں کی بقاء کیلئے سنگین ترین خطرہ قرار دیا، اس وقت کئی ممالک پانی کی قلت سے دوچار ہیں اور آنے والے وقتوں میں یہ قلت عالمی امن و امان کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔


پانی کے بحران والے ممالک میں بدقسمتی سے پاکستان بھی شامل ہے، پاکستان کا وسیع و عریض رقبہ زرخیز ہونے کے باوجود فقط پانی کی قلت کے باعث بنجر پڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں پانی دریاؤں، بارشوں اور پہاڑوں پر موجود گلیشیئر کے پگھلنے سے حاصل ہوتا ہے، جبکہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی یا تو سرے سے موجود ہی نہیں یا پھر وہ پانی اپنی ساخت، آلودگی اور وہاں کی مٹی کے حساب سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ناقابل استعمال ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لیے پاکستان میں پانی کی کھپت بھی زیادہ ہے، پاکستان میں زرعی مقاسد کیلئے درکار پانی کی ضروریات کو بہتر انداز میں پورا کرنے کیلئے ارسا اتھارٹی قائم کی گئی ہے جو ملک کے چاروں صوبوں کو پانی کی منصفانہ تقسیم کی ذمہ دار ہے۔
ارسا اتھارٹی میں وفاقی حکومت سمیت تمام صوبوں کے نمائندگان شامل ہیں جو پورا سال ملک میں دریاؤں اور ڈیموں سے پانی کے بہاؤ، ذخائر اور ضروریات کے معاملات کو مانیٹر کرتے ہیں، ارسا اتھارٹی پانی کے دستیاب وسائل کے مطابق سوبوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرتا ہے۔


1992 میں ارسا آڑڈیننس کے بعد صوبوں کے مابین ہونیوالے معاہدے اور بعد ازاں اس میں ہونیوالی ترامیم کے مطابق دریائے سندھ کے پانی کا 47 فیصد پنجاب کیلئے مختص ہے، اسی طرح سندھ کا حصہ 42 فیصد، خیبر پختونخواہ کیلئے 8 فیصد جبکہ بلوچستان کیلئے صرف 3 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ صوبوں کے یہ حصے ان کی آبادی، زیرکاشت زرعی رقبہ، وہاں پر کاشت ہونیوالی فصلوں اور ملک میں دستیاب آبی وسائل کو مدنظر رکھ کر باہمی رضا مندی سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔

لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ تمام صوبے پانی کے حوالے سے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔
یوں تو پانی پر صوبوں کی لڑائی کوئی نئی بات نہیں بلکہ عشروں سے سیاستدان پانی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آتے رہے۔ تاہم گزشتہ چند روز سے پانی کے مئسلے کو جس انداز میں پیش کیا جارہا ہے اس نتائج آنے والے وقتوں کیلئے وطن عزیز کیلئے تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔

چند روز قبل ارسا اجلاس کے دوران سندھ اور بلوچستان کی طرف سے پنجاب پر ایکبار پھر اپنے حصے سے زائد پانی استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس اجلاس میں  ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں سندھ کی طرف سے کم پانی ملنے کے الزام کو رد کیا گیا اور کہا کہ سندھ ناصرف پانی کا اپنا پورا حصہ وصول کرتا رہا بلکہ بلوچستان کے پانی کا بھی بیس فیصد سے زائد غلط اعدادوشمار کے ذریعے لے جاتا رہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ نے گڈو بیراج اور سکھر بیراج سے خارج ہونیوالے پانی کے اعدادوشمار میں ہیر پھیر اور غلط بیانی سے کام لیا۔ گڈو بیراج سے جب بائیس ہزار کیوسک پانی خارج ہو رہا تھا تب اعدادوشمار میں اس پانی کا اخراج فقط چھ ہزار کیوسک بتایا گیا اسی طرح سکھر بیراج سے بھی پانی اخراج کے اصل اعدادوشمار کو کم کرکے دکھایا گیا۔ ارسا نے آبی ذخائر کی میں کمی کے سبب پنجاب اور سندھ کو پانی کی ترسیل میں چند روز کمی ضرور کی لیکن جونہی تربیلا ڈیم اور دریائے سندھ میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوا تو دونوں صوبوں کو پانی کی فراہمی بھی بڑھا دی گئی۔

ارسا اتھارٹی نے واضح کیا کہ ارسا اتھارٹی میں چونکہ تمام صوبوں کی نمائندگی ہے تو اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ایک صوبے کے حصے کا پانی کم کردیا جائے اور دوسرے کا بڑھا دیا جائے۔ تاہم فراہم کردہ پانی کے مقدار میں کمی بیشی کا دارومدار آبی ذخائر کی دستیابی پر منحصر ہے۔
اس وقت پنجاب سے 26 میل دریائی پانی گزر کر سندھ میں داخل ہوتا ہے اور پنجاب حکومت  کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب صرف چھ فیصد پانی ضائع کرتا ہے۔

تاہم آزاد ذرائع کے مطابق پنجاب میں دریا اور پہاڑی نالوں سے نکلنے والے پانی کا تقریباً 13 فیصد ضائع ہو جاتا ہے لیکن سندھ میں یہی پانی تقریباً چھ سو میل سفر کرتا ہے اور اس کا ضیاع محتاط اندازے کے مطابق تیس فیصد سے زائد ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے الزام عائد کیا کہ سندھ پانی کے جس مقدار کو ضائع ظاہر کررہا ہے وہ وہاں کے وڈیرے چوری کرلیتے ہیں۔

جبکہ سندھ کا کہنا ہے کہ انہیں کبھی بھی حصےکا پانی ملا ہی نہیں۔ اسی طرح بلوچستان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ سے ان کا حصہ سات ہزار کیوسک منظور ہے لیکن انہیں ایک ہزار سے بارہ سو کیوسک سے زیادہ پانی نہیں دیا جاتا۔ صوبوں کے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تحفظات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ پانی کے حوالے سے نہروں اور بیراجوں پر واٹر ٹیلی میٹری سسٹم لگانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ملک کے بڑے صوبوں نے اس سسٹم کی مخالفت کردی۔

جہاں سے چھوٹے صوبوں میں یہ احساس بڑھا کہ واقعی چھوٹے صوبوں کے حصے کا پانی بڑے صوبے استعمال کررہے ہیں۔ اگر ٹیلی میٹری سسٹم لگ جائے تو اس سے ناصرف چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہو جائے گی بلکہ بڑوں صوبوں کے مابین موجود تحفظات اور الزام تراشی کا باب بھی بند ہو جائے گا۔ ملک میں بھی اس سے زرعی انقلاب کے نئے باب کھل جائینگے۔ لیکن افسوس کہ ایسے معاملے کو بھی سیاست کی نظر کردیا گیا۔

گو کہ وفاق نے صوبوں کے مابین پانی کی فراہمی کے معاملے کی مانیٹرنگ کیلئے فی الوقت واٹر انسپکٹر تعینات کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا جو کہ ملک کے اہم بیراجوں ، نہروں اور بڑے راجباہوں پر پانی کا بہاؤ مانیٹر کرینگے۔ تاہم اس میں احتمال ہے کہ یہ انسپکٹر صوبائی حکومتوں کے دباؤ کا شکار ہو کر ایکبار پھر غلط اعدادو شمار کے ذریعے صوبوں کے مابین تلخیوں کو بڑھانے کا سبب نہ بن جائیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں پانی کے اس مسئلے کے دیرپا حل کیلئے ناصرف آبی ذخائر میں اضافہ کیا جائے اور تمام صوبوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر سائنسی بنیاد پر قابل عمل اور شفاف نظام وضع کیا جائے۔ تاکہ ملک کے تمام حصے سیراب ہو کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ شامل کر سکیں۔ تمام صوبوں کو بھی چاہیے کہ وہ دل بڑا کرکے ایک دوسرے کا حق تسلیم کریں اور خوش دلی سے سب کو ان کا حصہ دیں۔ اس سے وفاق مضبوط ہوگا اور جب وفاق مضبوط ہوگا تو وہ بیرونی دشمنان وطن کا زیادہ مؤثر انداز میں مقابلے کے قابل ہوگا۔ بصورت دیگر افغانستان، بھارت سمیت دیگر ہمسائے ممالک تو ہمارے خلاف آبی جارحیت کے منصوبوں پر کئی دہائیوں سے عم پیرا ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :