شہبازشریف کی قید اور رہائی،ایک قد آورسیاستدان کی تشکیل

جمعہ 15 فروری 2019

Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی حکومت کرنے کی اسطاعت پر مطمن نہیں ہے۔ شہباز شریف کا پی اے سی کا چیئرمین بنوایا جانا۔ شہبازشریف کی حمایت میں تحریک انصاف کے سپیکر کا بولنا۔ راجہ ریاض اور ریا ض فتیانہ کی پی اے سی کے معاملے میں بلواسطہ شہباز شریف کی حمایت۔ نواز شریف اور مریم نواز کا ریا ستی اداروں کے خلاف بیانات نہ دینا۔ اِس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہبازشریف کی سیاست کا احیاء کیا جارہاہے۔

اِس لیے شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا اور اُنھیں پذیرائی دلوائی جارہی ہے۔ اِس حوالے سے ن لیگ کے رانامشہود کا شہبازشریف کی گرفتاری سے پہلے کا بیان ہی سمجھداروں کے لیے کافی تھا۔راقم نے اپنا ایک کالم شہباز شریف کی گرفتاری پر بعنوان ایک قد آور سیاست دان کی تشکیل کے حوالے سے لکھا تھا۔

(جاری ہے)

عمران خان کی حکومت کا آغاز بہت سی توقعات سے ہوا ہے۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ عمران نے گذشتہ پانچ سالوں سے اِسی طرح کی سیاست کی ہے کہ بہت زیادہ سنسنی پیدا کی گئی۔ شائد عمران کی کامیابی کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ اسٹیٹس کو کو ختم کیے بغیر عام پاکستانی کی حالت نہیں سُدھرئے گی۔ 
عوام کی طاقت، اسٹیبلشمنٹ کی نوازشات اور نواز شریف کی پاک فوج کے خلاف اور ختم نبوت کے قانون کے خلاف محاذآرائی عمران خان کے لیے اقتدار میں آنے کا سبب بنا۔

نواز شریف کا سیاسی زوال اُن کے ذاتی جابرانہ رویے کا نتیجہ ہے کہ اُن کے اندر کی خود پسندی نے اُن کو جس طرح اپنے حصار میں لے رکھا ہے اُس کی وجہ سے کسی بھی دوسرئے ریاستی ادارئے کو خاطر میں نہیں لاتے رہے اور شہباز شریف گرفتار ہو کر نیب کے پاس تھے اور لاہور ہائی کورٹ نے اُنھیں رہا کر دیا ہے۔ عمران خان کی نصف سال کی کارکردگی دیکھیں تو عمران خان کی حکومت میں یکسوئی نظر نہیں آتی۔

سوائے فواد چوہدری، فیض الحسن چوہان اور شیخ رشید کے جو ہر حال میں شریف فیملی کے خلاف بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔عمران خان کی حکومت کے دو انتہائی رہنماء جناب فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کا رویہ ایسا ہے کہ جیسے وہ اپوزیشن میں ہیں اور وہ ہر وقت لڑنے مرنے کے تیار رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو اِس بات کا ادراک ہے کہ اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لیے اِسی طرح کا جارحانہ رویہ ہی اُن کے لیے کار گر ثابت ہوگا۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت نے جو بیانیہ اپنایا ہے کہ اُن کے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ وہ ستر سال کے مسائل چالیس دنوں میں حل کریں۔ اِس بیانیے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا نابالغ پن دیکھائی دیتا ہے اور اِس طرح کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے لیے جس طرح کے بلند بانگ دعوے کیے تھے وہ سارے کے سارے جذبات پر مبنی تھے اور عقل سے عاری تھے۔

اِس لیے تحریک انصاف کی حکومت کو اِس انداز کو بدلنا ہوگا کہ ہم اتنی جلدی کچھ نہیں کر سکتے۔
 گویا عوام اُن کے اِس بیانیے سے مایوس ہورہے ہیں رہی سہی کسر سوئی گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کرکے نکل گئی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مہنگائی کی چکی میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں رہا۔

عمران خان نے عوام کو بے یقینی کے صورتحال سے دو چار کر رکھا ہے۔ عمران خان نے بجلی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کروایا۔ ڈالر کی اُڑان سے ملک کو کھربوں روپے کا نقصان کیا۔ عمران خان کی نیک نیتی پر کسی کو شک نہیں۔ لیکن ملک کو چلانے کی اہلیت اُن کی ٹیم میں مفقود نظرآتی۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عمران خان کی حکومت کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔

عوام کی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ 
نیب کی جانب سے جاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ غیرقانونی طور پر پی ایل ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اختیارات حاصل کیے۔رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور ملزم فواد حسن فواد کے ساتھ ملی بھگت سے غیر قانونی کام کیا، فواد حسن فواد وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری عمل درآمد تھے۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق میسرز چوہدری اے لطیف اینڈ سنز کا ٹھیکہ غیر قانونی طور پر منسوخ کیا گیا تھا، ٹھیکہ آشیانہ اقبال ہاوسنگ پراجیکٹ کے انفراسٹرکچر کے لیے دیا گیا تھا۔رپورٹ میں لکھا گیا تھاکہ ٹھیکہ پیپرا قوانین کے مطابق کمیٹی نے چوہدری لطیف سنز کو دیا تھا، ٹھیکے کو منسوخ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی لیکن ایسا من پسند ٹھیکدار کو نوازنے کے لیے کیا گیا اور ٹھیکیدار نے اس ٹھیکے کے حصول کے لیے رشوت دی۔

نیب رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے 21 اکتوبر 2014 کو پراجیکٹ پی ایل ڈی سی سے لیکر ایل ڈی ا ے کو دیا، شہباز شریف کا فیصلہ بد نیتی پر مبنی تھا۔پی ایل ڈی سی کا قیام اسی ہاوسنگ منصوبوں کی تیاری کے لیے کیا گیا تھا، شہباز شریف کے اقدام سے نہ صرف پی ایل ڈی سی بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچا۔رپورٹ کے مطابق ملزم نے غیر قانونی طور پر منصوبہ ایل ڈی اے کے حوالے کیا، ایل ڈی اے کی سربراہی وزیراعلیٰ کے قریبی افسر احد چیمہ کر رہے تھے۔

لاہور ہائیکورٹ نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر ملز کیس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف و مسلم لیگ (ن) کے صدرسابق وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا جبکہ سابق وزرائے اعظم کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے فواد حسن فواد کی بھی آشیانہ ہاوسنگ کیس میں ضمانت منظور جبکہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں درخواست ضمانت مسترد کر دی۔

ہائیکورٹ کے جسٹس ملک شہزاد اور جسٹس مرزا وقاص پرمشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔شہباز شریف نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر مل کیس میں درخواست ضمانتیں دائر کر رکھی تھیں جبکہ فواد حسن فواد نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں درخواست ضمانتیں دائر کی تھیں۔
سپیشل پراسکیوٹر نیب اکرم قریشی اور شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز پیش ہوئے۔

جسٹس ملک شہزاد احمد نے استفسار کیا کہ رمضان شوگر ملز کے علاوہ اس علاقے میں کوئی اور سکیم بنائی گئی۔ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ محلہ فتح آباد، مقصود آباد سمیت چنیوٹ کے دیگر علاقوں میں ایسی ہی سکیمیں بنائی گئیں،موضع جھمب چنیوٹ میں 58 ملین سے سیوریج سکیم بنائی گئی۔جسٹس مرزا وقاص روف نے استفسار کیا کہ فزیبیلٹی کی دستاویزات لائے ہیں۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سارا ریکارڈ نیب کے پاس ہے،کوشش ہے کہ کچھ نہ کچھ عدالت میں پیش کیا جائے۔جسٹس مرزا وقاص روف نے استفسار کیا کہ فزیبیلٹی رپورٹ کب بنائی گئی،سالانہ ترقیاتی پروگرام کی دستاویزات میں سے حوالے کے ساتھ بتائیں۔
وکیل شہباز شریف نے بتایا کہ مڈٹرم ڈویلپمنٹ فریم ورک کے تحت رمضان شوگر ملز کے پاس نالے کی تعمیر کی گئی۔

جسٹس ملک شہزاد احمد نے استفسار کیا کہ آپ نے اس سکیم کی اسمبلی سے منظوری کا کہا تھا وہ دکھائیں کہاں ہیں۔وکیل شہباز شریف نے بتایا کہ مڈٹرم ڈویلپمنٹ فریم ورک کو اسمبلی نے منظور کیا اور کابینہ نے بھی منظوری دی۔عدالت نے کہا کہ نالے کا رخ رمضان شوگر ملز کی طرف کیوں موڑا گیا۔جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے گوگل میپ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نقشے کے تحت جامعہ آباد کے بعد وہاں آبادی نہیں تھی۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے سلج کیرئیر کے 2 مجوزہ روٹ بھی عدالت میں پیش کر دیئے۔وکیل شہباز شریف نے بتایا کہ رمضان شوگر ملز اس نالے سے زیادہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتی تھی، شوگر ملز موسم کے حساب سے چلتی ہے۔شہباز شریف کے وکیل نے استدعا کی کہ نیب نے سیاسی بنیادوں پر کیسز بنا کر گرفتار کیا لہٰذا معزز عدالت سے استدعا ہے کہ ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

 سماعت کے دوران جسٹس ملک شہزاد نے ریمارکس دیے کہ اگر نیب کا موقف مان لیا جائے تو کوئی ایم این اے یا پھر ایم پی اے علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں کروائے گا۔ جبکہ رمضان شوگرمل کیس میں شہبازشریف کبھی بھی سی ای او نہیں رہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر شہباز شریف اور فواد حسن فواد کی درخواست ضمانتوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور کچھ دیر بعد سنا دیا۔

لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ نیب الزامات ثابت نہیں کرسکا۔ عدالت نے اپوزیشن لیڈر کو 10، 10 لاکھ کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ ادھر نیب نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ نیب ذرائع کے مطابق ہائیکورٹ کا فیصلہ ملتے ہی عدالت عظمیٰ میں اپیل کی جائے گی۔ سپریم کورٹ سے ضمانت مسترد کرنے کی درخواست کی جائے گی۔

شہباز شریف نے کہا ہے کہ انشا ء اللہ وہ دن دور نہیں جب الزام تراشیوں اور سیاسی انتقام کے بادل چھٹ جائیں گے،عدالت کا فیصلہ حق اورسچ کی فتح ہے،اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایک مرتبہ پھر ہر الزام میں سرخرو ہوں گے۔
جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایک مرتبہ پھر ہم پر کرم فرمایاہے،عدالت کا فیصلہ حق اورسچ کی فتح ہے،اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایک مرتبہ پھر ہر الزام میں سرخرو ہوں گے۔

اسٹبلشمنٹ عمران خان کی حکومت کرنے کی اسطاعت پر مطمن نہیں ہوئی۔ اِس لیے شہبازشریف کی سیاست کا احیاء کیا جارہا ہے اِس لیے شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا اُنھیں پذیرائی دلوائی جارہی ہے۔ اِس حوالے سے ن لیگ کے رانامشہود کا شہبازشریف کی گرفتاری سے پہلے کا بیان ہی سمجھداروں کے لیے کافی ہے ۔شہباز شریف کی چار ماہ کی قید کے بعدرہائی در حقیقت ایک قد آور سیاستدان کی تشکیل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :