انقلابات ہیں زمانے کے ۔ قسط نمبر 1

جمعرات 13 فروری 2020

Sahibzadah Shams Munir Gondal

صاحبزادہ شمس منیر گوندل

سوئٹزرلینڈ کی کمپنی دنیا کے صرف ایک ہزار خاندانوں کے لئے جوتے بناتی تھی،جوتوں کے تلوے نیوزی لینڈ کی گائے کے چمڑے سے بنائے جاتے تھے،یہ گائے کی ایک منفرد قسم ہے جو صرف نیوزی لینڈ میں پائی جاتی ہے،اس کا چمڑا سنہری اور اس کے سینگ نیلے رنگ کے ہوتے ہیں اور یہ نسل دنیا کے کسی اور خطے میں  دستیاب نہیں۔جوتے کی ٹو برازیل کے مگرمچھوں کی جلد سے تیار کی جاتی ہے اور بہت مضبوط ہوتی ہے۔

جوتے کے اندر ہرن کے نرم چمڑے کی تہہ چپکائی جاتی تھی،جوتے کی بناوٹ میں افریقی سیاہ ہاتھیوں کے کانوں کا چمڑا بھی استعمال کیا جاتا تھا۔اب جوتے کی سلائی کی خاطر بلٹ پروف جیکٹ میں استعمال ہونے والے دھاگے استعمال کئے جاتے تھے۔ کمپنی کا دعوی تھا 50 سال تک جوتے کی پالش خراب نہیں ہوتی جبکہ دھول مٹی بھی اس کی چمک کو خراب  نہیں کرتی ہے،اب بجائے بات کو اسرار کے پردے میں زیادہ دیر تک رکھا جائے سیدھے سبھاؤ قارئین کو موضوع کی طرف لاتا ہوں۔

(جاری ہے)

افغانستان کا سردار محمد داؤد1953ءسے لےکر1963ء تک افغانستان کا وزیراعظم رہا اور بعد میں افغانستان کا پہلا صدر بن گیا۔ سردار محمد داؤد بہت جدت پسند لیڈر تھا،اس نے عورتوں کے حقوق کی بحالی کا کام کیا اور اس کی پروگریسو اپروچ اور پلان کی وجہ سے لیبر فورس میں 50%اضافہ ہوا۔سردار محمد داؤد ہمیشہ مذکورہ بالاکمپنی کا جوتا استعمال کرتا تھا،اور یہ اس کمپنی کا لائف ٹائم ممبر تھا،1978ء میں انقلاب ثور جو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان نے برپا کیا، سردار محمد داؤد اور اس کے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا، اور بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ قتل کے بعد بھی لاش کو جیپ کے ساتھ باندھ کر پورے کابل میں گھسیٹا گیا، اسے مرنے کے بعد نہ غسل ملا، اور نہ کفن نصیب ہوا اور جنازہ پڑھانے کا تو تکلف تک نہ کیا گیا،لوگوں نے دو بڑی قبریں کھودیں اور اس کے قریبی رشتہ داروں سمیت اجتماعی قبروں میں گھسیٹ کر ڈال دیا گیا۔

اس کے خاندان کے کسی بھی فرد کو جنازہ نہ نصیب ہوا۔وہ تیس برس تک بے کفن پڑا رہا، مگر تیس برس کے بعد یعنی 26 جون 2008ء کو ایک اتفاقیہ کھدائی میں قبریں دریافت ہوئیں، کسی کو خبر نہ تھی کہ مرنے والے کس بدقسمت خاندان کے چشم و چراغ تھے، مگر تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ یہ سردار محمد داؤد اور اس کا خانوادہ تھا،وہ سردار داؤد جو افغانستان کے شاہی خاندان محمد زئی کا فرد، سردار ظاہر شاہ کا کزن اور افغانستان کا پہلا صدر تھا۔

اور یہ شناخت صرف جوتوں کی وجہ سے ممکن ہوئی،یہ باضابطہ طور پر جوتوں کے زریعے سے شناخت ہونے والی کسی بڑے آدمی کی پہلی لاش تھی۔ سردار محمد داؤد 18 جولائی 1909ء میں پیدا ہوا۔ اس نے کابل کے بعد اعلی تعلیم فرانس سے حاصل کی۔ وہ سینٹ کرائی ملٹری اکیڈمی کا گریجوایٹ تھا۔ افغانستان واپسی پر اس نے افغان آرمی جوائن کی اور صرف 24 برس کی عمر میں میجر جنرل بنا دیا گیا۔

وہ 1932ء میں صوبہ ننگر ہار کا جی او سی بنایا گیا۔جبکہ اس کی عمر صرف 25 برس تھی۔ 1935 میں اس کو قندھار کا جی او سی بنایا گیا جبکہ اسی سال اس کو لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔یہ دنیا کا کم عمر ترین جنرل تھا۔اس کو 1946 میں یونیفارم کے ساتھ وزیر دفاع کا عہدہ بھی سونپ دیا گیا۔اس کو پیرس، برن اور برسلز کا سفیر بھی تعینات کیا گیا،اور اسی دوران افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ نے اس کو اپنی ہمشیرہ شہزادی زینب کا رشتہ بھی دے دیا،جس کے بعد اس کی اہمیت اور بھی فزوں ہوگئی، اس کو بعد ازاں شاہ کے خصوصی ایلچی کی حثیت سے سوویت یونین کے صدر مارشل سٹالن کی تدفین میں شرکت کے لئے ماسکو بھیجا گیا،اب یہ ٹرننگ پوائنٹ شروع ہوا۔

وہ کے جی بی اور روسی حکمرانوں کا منظور نظر بن گیا،یہاں سے ماسکو نے اس کی پشت پناہی شروع  کردی۔ ستمبر 1953ء کو شاہ نے اس کو افغانستان کا وزیراعظم بنا دیا اور یہ دنیا کا پہلا یونیفارم میں وزیراعظم بنا۔وہ بیک وقت وزیر اعظم تھا،وزیر دفاع تھا اور آرمی چیف بھی۔ اس نے حلف اُٹھاتے ہی اپنے بھائی سردار محمد عظیم کو ملک کا وزیر خارجہ بنا دیا اور خود آہستہ آہستہ پورے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔

وہ سوویت یونین کا نظریاتی حلیف تھا،اس نے پاکستان میں پشتون تحریک شروع کروائی،ظاہر شاہ اس کی حرکتوں سے برگشتہ ہوا،اور اس سے 3 مارچ 1963ء کوبحثیت وزیراعظم استعفی لے لیا،پھر اس کے بعد سردار داؤد نے شاہ کے خلاف خفیہ سازشیں شروع کر دیں۔ شاہ کو خبر ہوگئی کہ یہ باز آنے والا  نہیں،تو اس نے یکم اکتوبر1964ء کو افغانستان کا آئین بدل دیا جس کی رو سے افغانستان کے شاہی خاندان کا کوئی فرد سیاست میں نہیں حصہ لے سکتا تھا،شاہ نے اپنی طرف سے اس کا راستہ بند کرنے کی کوشش کی۔

جب ظاہر شاہ اپنا علاج  کروانے کے لئے 17 جولائی 1973ء کو اٹلی گیا تو پیچھے سے سردار داؤد نے شاہ کا تختہ اُلٹ کر مارشل لاء لگا دیا اور خود کو صدر مملکت کا لقب عطا کیا، اس طرح سے افغانستان سے شاہی نظام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ افغانستان اب جمہوریہ بنا اور سردار داؤد اب نہ صرف صدر مملکت تھا، بلکہ  بیک وقت وزیراعظم اور سنٹرل ایگیزیکٹو کمیٹی کا چئیرمین بھی۔

اس نے28 جولائی کو پارلیمنٹ توڑ دی، اور ملک کا مطلق العنان حکمران بن گیا، وہ اس حد تک روشن خیال ثابت ہوا کہ ملک میں پردے اور داڑھی پر پابندی لگا دی۔ اس نے زنانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرٹ کو لازمی حصہ قرار دے دیا، مسجدوں پر سرکاری تالے لگوا دیے اور ملک کے آٹھ بڑے شہروں میں شراب خانوں اور ڈسکو کلب کھلوا دئیے،کابل کو سیاحوں کی جنت قرار دیا گیا،اس دور میں یورپ کے باشندے انجوائے کرنے کے لئے لاس ویگاس کی بجائے کابل کا رُخ کرتے تھے،اس کا انٹیلی جینس کا نیٹ ورک اتنا مضبوط تھا اور اتنے عقوبت خانے اور ٹارچر گھر تھے کہ الامان الاحفیظ۔

پورے ملک سے اتنے زیادہ مسنگ پرسن ہوئے کہ ان  کی تعداد تقریباٗ تیس ہزار سے تجاوز کر گئی تھی،خفیہ ایجنسیز کے  اہلکار مخالفین کو ببانگ دہل اُٹھا کر لے جاتے اور بعد میں ان کے  لواحقین کو ان کی قبروں کے نشان کا بھی پتا نہیں چلتا تھا۔ جنوری  1974ء کو ایک چھوٹی سی بغاوت برپا ہوئی مگر بر وقت خبرداری کی وجہ سے دبا دی گئی یہاں تک مخالفین کے سر قلم  کروا کر نشان عبرت بنا دیا گیا۔(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :