حسن بن صباح کی جنت۔ قسط نمبر1

جمعرات 10 فروری 2022

Sahibzadah Shams Munir Gondal

صاحبزادہ شمس منیر گوندل

مولانا روم فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے اندھیری رات میں گھر سے نکلا، اندھیرے کی وجہ سے ٹھوکر لگی اور کیچڑ میں منہ کے بل گر پڑا، کیچڑ سے اٹھ کر وہ گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے پھر مسجد کی طرف روانہ ہوا ابھی راستے میں ہی تھا کہ پھر ٹھوکر لگنے اور پھسلن کی وجہ سے وہ دوبارہ گر پڑا۔ ہمت نہیں ہاری اللہ کا نام لے کر اٹھا اور دوبارہ گھر کی طرف چل پڑا تیسری بار جب کپڑے تبدیل کر کے مسجد کی طرف جانے کا قصد کیا تو اپنے گھر کے دروازے کے باہر کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں روشن چراغ تھا مے ہوئے تھے چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے آگے مسجد کی طرف چل پڑا، اس بار چراغ کی روشنی کی وجہ سے نمازی کو مسجد تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہ پیش آئی، اور وہ خیریت سے مسجد پہنچ گیا، مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا۔

(جاری ہے)

نمازی اسے وہیں چھوڑ کر مسجد میں داخل ہوگیا، اور نماز ادا کرنے لگ گیا، نماز سے فراغت کے بعد جب مسجد سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ چراغ والا شخص ادھر ہی موجود ہے اور اس کا منتظر ہے تاکہ اس کو چراغ کی روشنی میں گھر چھوڑ کر آئے۔ جب نمازی گھر پہنچ گیا تو اس نے اس اجنبی سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اپنا تعارف تو کروائیں۔ اجنبی بولا سچ بتاوں تو میں ابلیس یعنی شیطان ہوں ، تو نمازی کی حیرت کی انتہاء نہ رہی کہنے لگا کہ تجھ کو تو میری نماز رہ جانے پر خوش ہونا چاہئے تھا نہ کہ اس کی بجائے تو مجھ کو راہبر بن کر روشنی دکھا کر مسجد تک لے گیا اور واپس لے آیا، بات سمجھ نہیں آئی یہ مہربانی کیوں جو کہ تیرے مزاج کے برعکس ہے۔

اس پر ابلیس یوں گویا ہواء کہ جب تجھے پہلی ٹھوکر لگی تو اللہ تبارک و تعالی نے تیرے عمر بھر کے گناہ معاف فرما دئیے۔ جب تجھ کو دوسری ٹھوکر لگی تو تیرے سارے خاندان کی بخشش فرما دی۔ تب مجھ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر اب تجھ کو ٹھوکر لگی تو کہیں یہ نہ ہو اللہ تبارک و تعالی تیرے سارے گاوں کی بخشش نہ فرما دے۔ میں اس لئے چراغ لے کر آیا ہوں تاکہ تجھ کو بغیر گرے اور ٹھوکر کھائے مسجد تک لے جاوں اور واپس لے آوں۔

اس تمہید کا مقصد اپنے قارئین کے ازہان کو غارت گر ایمان لوگوں کی چالوں سے باخبر کرنا بھی ہے اور دوسرا یہ بھی باور کروانا مقصد ہے کہ ایمان کے ڈاکو دھوکہ دہی کی خاطر کیا کیا بھلائی کا سوانگ بھرتے ہیں اور کیسی کیسی سازش رچاتے ہیں میرے آج کے موضوع میں بھی ایسے ہی تاریخی کرداروں کا احاطہ کیا گیا ہے جو نہ صرف نفس مومن کے لئے زہر ہلاہل ہیں بھلے اپنے آپ کو کتنا قند ثابت کرنے کی کوشش کریں مگر ان کا مقصد و مدعا لوگوں کے ازہان و قلوب سے جذبہ ایمانی کی حرارت کو کھرچ کر باہر نکال پھینکنا ہے۔


میرا آج کا موضوع حسن بن صباح کے بارے میں ہے جو ایران کے شہر قم میں پیدا ہواء اس کا باپ کوفہ سے قم وارد ہوا تھا۔ حسن بن صباح قرامطیوں کے اس باطنی فرقے کا پیروکار تھا جو بظاہر تو مسلمان لگتے تھے مگر درپردہ اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے اور ہر باطن کا ایک ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جو نیکی بظاہر نیکی دکھائی دیتی ہے ضروری نہیں کہ وہ اچھائی ہی ہو اور اسی طرح جو گناہ بظاہر گنا ہ نظر آتا ہو، ہو سکتا ہے اس میں بھی کئی باطنی خوبیاں پوشیدہ ہوں اور اس میں بھلائی کا عنصر ہو۔

یہ عقیدہ باطنی فرقہ کے اکابرین نے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے خو د ہی وضع کیا تھا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں وہ گناہوں کی اپنی مرضی کی توضیع کرنے میں آزاد تھے یعنی مروجہ اسلامی گناہ و ثواب کا تصور ان کے ہاں رائج نہیں تھا۔ ان کی نماز مسلمانوں کی نماز کی طرح نہیں تھی، شراب کا پینا اور پلانا ان کے ہاں جائز مانا جاتا تھا۔ رمضان کے روزوں کے یہ قائل نہ تھے سال میں کچھ مخصوص دنوں میں یہ کھانے اور پینے سے پرہیز کر کے اس کو روزہ کہتے تھے۔

غسل جنابت کا کوئی تصور نہ تھا اگر کوئی ان کے مخصوص طریقے سے وضو کر لیتا تو وہ پاک ہوجاتا تھا، زناء کاری اور حرام کاری کے نئے نئے طریقے دریافت کر چکے تھے، اپنی مقصد برآری کے لئے قتال کرنا اور خونریزی کرنا ان کی لغت میں حلال تھا، ان میں جھوٹے مہدی اور جھوٹے مدعیان نبوت بھی پیدا ہوئے الغرض کہ ہر وہ بھلائی جو اسلام کی روح کے مطابق تھی یہ اس کے خلاف تھے اور ہر وہ برائی جس سے اسلام میں زوال آتا تھا یعنی اسلام نحیف ہوتا تھا اس کو یہ لوگ اختیار کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔

آپ کو یہ پس منظر بتانا اس لئے ضروری تھا تاکہ آپ کی تشفی ہو سکے کہ یہ فرقہ باطل کا اور شیطانی اعمال کا پیروکار تھا۔ حسن بن صباح بھی اس فرقہ باطنی کا رہنما تھا جو کہ وزیراعظم ایران نظام الملک طوسی اور عمر خیام جبکہ حضرت امام غزالی کا ہم سبق رہ چکا تھا۔ ایک ضروری بات یہ لوگ اسلامی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے مگر صرف اسلام کو ضعف پہنچانے کے لئے اور کمزور کرنے کے لئے تاکہ مسلم لوگوں کو بھٹکانے کے لئے اور ان کے سامنے اپنے آپ کو بڑا متقی ثابت کرنے کے لئے یہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ میں بھی فلاں جید عالم کا شاگرد رہا ہوں اور اتنے بڑے مدرسے سے فارغ التحصیل ہوں ۔

ورنہ یہ اپنے عقائد باطلہ کی تعلیم الگ سے حاصل کرتے تھے۔ یہ اپنے عقائد میں اتنے راسخ تھے کہ ا ن کے سامنے دین مبین کی جتنی براہین اور دلیل رکھ دیں ان کے دلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ الغرض ایک دن کا زکر ہے کہ باطنی پیشوا حسن بن صباح کسی گہری سوچ میں مستغرق لیٹا ہوا ہے اس کے قریب ایک قوی ہیکل جوان مودب بیٹھا ہوا ہے، جبکہ ایک نو عمر حبشی خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے، اچانک ہی حسن بن صباح نے اپنا رخ اس حبشی کی طرف موڑا اور پوچھا، عبداللہ یہ تم کیا پڑھ رہے ہو عبداللہ نے جواب دیا جناب میں سورہ رحمان کی تلاوت کر رہا ہوں ، حسن بن صباح دوبارہ گویا ہواء اس میں کون سا حصہ پڑھ رہے ہو، عبداللہ نے جواب دیا جہاں جنت کا زکر ہے، آگے سے حسن بن صباح بولا خدا کی قسم میں تم کو جیتے جی جنت کی سیر کروا سکتا ہوں، اگر تمہارا ایمان راسخ ہو تو تم جو قرآن میں پڑھ رہے ہو وہ میں تم کو آنکھوں سے دکھلا سکتا ہوں۔

حبشی جوان بولا میرے آقا کیا مرنے سے پہلے بھی جنت دیکھی جا سکتی ہے تو حسن بن صباح آگے سے غصے سے مخاطب ہو ا ممکن ہے اور سب کچھ ممکن ہے بے وقوف ، جن کے ایمان پختہ ہیں ان کو پتا نہیں کیا کیا مظاہر میں دکھلا چکا ہوں، تمہارا ایمان ناقص ہے ورنہ تم شبہات کا شکار نہ ہوتے مذید بولا (معاز اللہ) میں شان نبوت کا مظہر ہوں میرا چہرا وہ آئینہ ہے جس میں الہویت کے جلوے نظر آتے ہیں، میرے ایک ہاتھ میں جنت کی کنجی ہے اور دوسرے ہاتھ میں دوزخ کی چابی، جنت میرے لطف و کرم کا نام ہے اور دوزخ میرے عتاب کا مظہر۔

یہ کلمات سنتے ہی عبداللہ یعنی کہ حبشی کی حالت غیر ہوگئی وہ حسن بن صباح کے قدموں میں گر گیا اور روتے ہوئے بولا میرے آقا میرے شیخ مجھ کو معاف کر دیں میں آپ کی طاقتوں سے انکار کرنے کی جسارت کدھر کر سکتا ہوں، اس پر حسن بن صباح نے اس کی کمر کو سہلاتے ہوئے کہا میں جانتا ہوں یہ تیرا قصور نہیں بلکہ تیری نوجوانی کا فتور ہے اس عمر میں لوگ شیطانی وسوسے کا شکار ہو جاتے ہیں، بس ایک بات زہن نشین کر لو، شیخ کا حکم خدا کا حکم ہوتا ہے اس لئے بے چون و چراں اس کی اطاعت کرو، جو کہا جائے سوچو نہیں بلکہ عمل پیرا ہو جاو، دوسری بات عبداللہ کو یہ بتائی کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے، جیسا کہ تو جو قرآن پڑھ رہا ہے، تو اس کا ظاہری مطلب دیکھ رہا ہے مگر تیرا شیخ اس کے باطنی معانی و مفاہیم سے بھی آگاہی رکھتا ہے، پھر اس سے بولا جس دن تو اپنے شیخ کی کا مل اطاعت کی منزل سے گزر جائے گا تو جنت تیرے قدموں پر سے قربان ہو جائے گی، پھر بولا اب میں تجھ اطاعت شیخ کا پہلا سبق دیتا ہوں کہ قرآن مجید کو جس کو تو ایک مقدس کتاب سمجھتا ہے اٹھا اور قلعہ کے نیچے غار میں پھینک دے (کفر نباشد کفر)۔

عبداللہ اس کی بات سن کر ایسے اٹھا جیسے تنویمی عمل کا شکار ہو یا ایسا آدمی جس پر ہپناٹزم کا عمل کیا گیا ہو اس نے بلا خوف و خطر قرآن کریم کی بے حرمتی کر دی، اس پر حسن بن صباح نے اس کو شاباش دیتے ہوئے کہا جا اب آرام کر تجھ میں مجھ کو وہ جذبہ صادق نظر آیا ہے کہ تو بہت جلد اپنی مراد کو پالے گا، مگر سن اب تو یہ پنجگانہ نمازیں وغیرہ نہیں پڑھے گا، بلکہ صرف میرے نام کا وظیفہ پڑھے گا تو اس سے تو بہت جلد اپنے من کی مراد پالے گا۔

اب جا اور ایک ہفتے بعد میرے پاس آ اور پھر میں تجھ کو دیکھ کر اور پرکھ کر فیصلہ کروں گا کہ تو سیر جنت کے قابل ہوا یا کہ نہیں، یہ سننا تھا کہ عبداللہ جھکا اور حسن بن صباح کے قدموں کو بوسہ دے کر چلا گیا، اس کے جانے کے بعد حسن بن صباح اس تنومند جوان سے مخاطب ہوا جو مراقبے کی حالت میں تھا آنکھیں کھول وہ بے وقوف حبشی تو چلا گیا تو اب ہوش و خرد کی دنیا میں واپس آ جا، یہ بات سن کر وہ جوان ہنسا اور بولا شیخ آپ نے اس گدھے کو ایک ہی نظر میں دیوانہ بنا دیا، اس بات پر حسن بن صباح مسکرایا اور اپنے سر سے بڑی سی دستار اتاری اور اپنے گنجے سر پر چپت لگا تے ہوئے اس جوان سے جس کا نام مسرور تھا بولا یہ تو نے اچھا شکار پھانسا ہے پھر یوں بولا اگر اس طر ح کے چند اور پرجوش اور بے وقوف جوان مل جائیں تو میں سلجوقی ریا ست کا تختہ الٹ کر رکھ دوں گا۔

(جاری ہے) ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :