حسن بن صباح کی جنت۔ قسط نمبر3

ہفتہ 19 فروری 2022

Sahibzadah Shams Munir Gondal

صاحبزادہ شمس منیر گوندل

جب رحمت الہیٰ کسی پر اپنی کن فیکون والی نظر کرم ڈال دیتی ہے تو وہ بندگان خاص میں شمار ہونے لگتا ہے، اس کے دل میں بحر بیکراں کی موجیں جوار بھاٹا لے آتی ہیں اور اس کی ہر بات رضاء الہیٰ سے شروع ہو کر فناء فی اللہ پر ختم ہوتی ہے، یہ بہت بڑی عطا اور سعادت کی باتیں ہوتی ہیں اور رحمت حق کے طفیل ہی مراتب ملتے ہیں اور عشق حقیقی کی منازل طے ہوتی ہیں،
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
سلطان بلخ ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ ایک رات اپنے بالا خانے پر سوئے ہوئے تھے کہ نصیب نے یاوری کی، اچانک پاؤں کی آہٹ سے جاگ اٹھے یہ آواز محل شاہی کی چھت سے آرہی تھی، پریشان ہوگئے کہ رات کے اس پہر کس نے سلطان وقت کے آرام میں خلل ڈالنے کی جسارت کی۔

(جاری ہے)

آواز لگائی کون ہیں آپ اور چھت پر کیا کر رہے ہیں یہ اللہ تبارک و تعالی ٰ کے فرستادے یعنی فرشتے تھے جو نقیب حق بن کر قلب غافل پر چوٹ لگانے آئے تھے، انہوں نے ان کے سوال کے جواب میں فرمایا، ہم اپنا اونٹ ڈھونڈ رہے ہیں، سلطان بلخ نے بصد حیرت و استعجاب سوال کیا بھلا کبھی اونٹ بھی شاہی محل کی چھت پر ڈھونڈے جاتے ہیں، تو آگے سے جواب ملا تو بھلا کبھی قصر ناز و عیش کوشی میں بھی رب کی رضا و منشاء الہیٰ ڈھونڈی جاتی ہے، یہ بات کرنے کے بعد رجال الغیب تو چلے گئے مگر ان کے قلب صمیم کے اندر ایک محبت الہیٰ کا لاوہ بھڑکا گئے، دل ان ناز و نعم سے اکتا گیا، وہ ہی ابراہیم جو تخت شاہی پر متمکن ہونے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی و کامرانی مانتے تھے، ان کا دل اچاٹ ہوگیا، عشق حقیقی کا جب غلبہ ہوا ء تو باطنی کیفیت بدل گئی اور سلطنت سے بیکار کوئی چیز نہ لگی، غرض کیا ہواء کہ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو بادشاہ وقت اٹھا، خلعت فاخرہ اتار پھینکی، معمولی لباس زیب تن کیا، ایک کمبل اپنے اوپر لیا اور قصر شاہی کو چپکے سے الوداع کہ دیا، سوز عشق کی ایک آہ نے زندان سلطنت کو پھونک دیا، شاہی طوق گلے سے اتار کر نیشا پور کے صحرا میں گوشہ نشین ہو کر زکر حق شروع کر دیا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا زکر روح کی غذا ہے اور رب رحیم کی محبت میں زخمی دل کے لئے زکر اللہ ہی مرہم اور تریاق کا درجہ رکھتا ہے، آپ دس برس تک نیشا پور کے صحرا میں زکر اللہ میں دیوانہ وار مصروف رہے، اور پھر ایک وقت آگیا کہ آ پ کو یقین کامل ہوگیا کہ تزکیہ نفس سے دل کی آلائشیں دھل گئیں اور خواہشات نفسانی نے ہار مان لی، کہا ں تاج و تخت کے مالک اور کہاں دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے ایک خرقہ پوش فقیر جو اپنی پھٹی پرانی گدڑی سی رہے ہیں، اتفاق سے ملک بلخ کے وزیر کا ادھر سے گزر ہوا، اس کور باطن نے سوچا کہ یہ کیا بے وقوفی ہے کہ ہفت اکلیم کی بادشاہی ترک کر کے پھٹی ہوئی گدڑی سی رہے ہیں، آپ نے اس کی سو چ کا اندازہ لگا کر اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور پھر باآواز بلند دعا فرمائی کہ اے اللہ میری سوئی مجھ کو واپس عطا ہو، جو مقبول بارگاہ ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ بھی ان کا کہا نہیں موڑا کرتا، پھر ایک عجیب ماجرہ ہوا کہ آن کی آن میں دریا سے ہزاروں مچھلیوں نے اپنے لبوں میں سونے کی ایک سوئی لئے ہوئے پانی سے منہ باہر نکالا، یہ کرامت دیکھ کر وہ وزیر بڑا نادم ہوا اور دل میں سوچا میں انسان ہو کر اس مقام ولائت کو نہیں پہچان سکا اور مچھلیوں نے آپ کی معرفت پالی، آپ نے اس وزیر کو گومگو کی کیفیت میں دیکھ کر فرمایا، اب بتا اے امیر یہ دل کی سلطنت اور معرفت الہیٰ اور محبت الہیٰ کی سرشاری بہتر ہے یا بلخ کی حقیر اور فانی سلطنت۔

پھر فرمایا میں نے بہت کوشش کی عقل و دانش کے ترکش سے تیر چلا کر اپنا معاملہ حل کرلوں مگر میری کوئی فہم و فراست جب کام نہ آئی تو اپنے آپ کو فرزانے کی جگہ دیوانہ بنا لیا اور اسی سے کام بنا ۔ میری اپنی عاجزانہ رائے ہے کہ جب آپ اپنا خرمن دل محبت الہیٰ میں جلا کر سوختہ کرلیں تو اس میں رضائے الہیٰ کی موجیں بحر بن کر آتی ہیں اور تمام کثافتوں سے پاک کر کے آپ کے دل کو لطافتوں کا پیکر بنا دیتی ہیں کیونکہ جب آپ اپنے آپ کو رضائے الہیٰ کے تابع فرمان کر دیتے ہیں تو وہ خالق کل جہاں جو ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے، سمیع اور بصیر ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی محبت کی گہرائی اور گیرائی سے واقف نہ ہو، پھر جو رب کا ہو جاتا ہے تو رب کریم بھی اس کا ہو جاتا ہے۔

اب ہم اپنے موضوع کا احاطہ کرتے ہیں، حسن بن صباح نے جو جنت بنائی اس کا مقصد لوگوں کو اپنے دام فریب کا شکار کرنا اور اپنی طاقتوں کا اسیر کرنا تھا۔ اس نے اس جنت کی وادیوں اور راہداریوں پر نقش و نگار کا انتہائی نفیس اور نازک کام کروایا۔ نلوں کے زریعے محلات میں پانی، دودھ، شہد اور شراب جاتا تھا۔ ان سے ہٹ کر کم عمر اور چنی گئی خوبصورت دوشیزاوں کو اکھٹا کیا گیا، ان رعنائی کے پیکروں کی سادگی، دلکشی اور اچھوتا پن اچانک دیکھنے والے کے خرمن دل پر بجلی گرا دیتا تھا اور وہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ یہ شاید کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں، یہ زمینی حسن نہیں آپ کی محبت کو بلکہ ملکوتی اور آفاقی حسن کا شاہکار ہیں۔

یہ بھی کوشش کی گئی کہ مجموعی طور پر آنے والے پر ایسا خاص تاثر مرتب ہو کہ وہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے کہ یہ واقعی بہشت ہے، دنیاوی جگہ نہیں اور یہ شیخ الجبل کی خاص طاقتوں کے مرہون منت ہے کہ جیتے جی جنت نصیب ہو گئی۔ اصل میں حسن بن صباح نے اپنے پیروکاروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا ء تھا، ایک حصہ داعی اور مناد تھے، جو دور دراز کے علاقوں میں خفیہ طریقوں سے چنے ہوئے لوگوں کو اپنے مذہب کی دعوت دیتے تھے، دوسرے رفیق تھے جن کو حسن بن صباح کا معتمد علیہ ہونے کی عزت دی گئی تھی، تیسرا گروہ فدائیوں کا تھا جن کے لئے یہ جنت بنائی گئی تھی، حسن بن صباح نے یہ کیا کہ علاقہ رود بار اور طالقسان کے مظبوط، تنومند اور سادہ لوح جوان فدائین کی فوج میں بھرتی کئے اور ان کی دماغ سازی اس طرح کی کہ وہ اس کی ہر بات پر بلا شک و شبہ ایمان رکھتے تھے، اس زمانے میں لوگوں کو بھنگ یعنی حشیش کے فوائد اور طریقہ استعمال کا معلوم نہ تھا، غالبا حسن بن صباح وہ پہلا شخص تھا جس کو بھنگ کی خواص کا کماحقہ معلوم تھا اور اس نے اپنی مطلب براری کے لئے فدائین کی جماعت پر بھنگ کو آزمایا۔

جب فدائی سپاہی امیدواری یعنی ابتدائی تربیت سے فراغت حاصل کرلیتا تو حسن بن صباح اس کو بھنگ کے اثر سے بے ہوش کر کے جنت میں بھجوا دیتا، جہاں منظر کشی ایسی ہوتی کہ خوبصورت لڑکیاں جن کو حوریں کہ کر مخاطب کیا جاتا وہ ان کی آغوش میں آنکھ کھولتا ، ایک تو ویسے بھنگ کے نشے سے وہ آسمانوں کی سیر کر رہا ہوتا، اوپر سے غارت گر ایمان حسیناؤں کی آغوش میں جب آنکھ کھلتی تو نظارہ ہی الگ ہوتا، زہن پر ایسا سحر طاری ہوتا کہ اپنے آپ کو شاہان عالم سے زیادہ خوش قسمت سمجھتا اور حسن بن صباح کی غلامی پر ناز کرتا، رہتی کسر حورین نکال دیتیں جو اس کی برین واشنگ ایسے کرتی جیسے اس سے بڑھ کر کون خوش نصیب ہو گا جس پر شیخ الجبل کا دست شفقت ہو۔

یہاں وہ انواع و اقسام کی لذتوں سے آشناء ہوتا، خوبصورت نزہت گاہوں کی سیر کرتا، ارغوانی شراب کے جام اڑاتا، دلربا حسیناؤں کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوتا، ان پری وش بانکی سجیلی کم عمر دوشیزاؤں کی صحبت میں انواع و اقسام کی خوراکیں اس کی لذت کام و دہن کی زینت بنتیں، جام و سبو کی محفلیں سجتی اور قسما قسم کے میوہ جات سے طبیعت میں جولانی آتی، چونکہ فدائین پر اتنی فراوانی سے مہربانیاں کی جاتی کہ ان کا ایمان راسخ ہو جاتا کہ یہ ساری رونق اور انعامات شیخ الجبل کی مرہون منت ہیں تو شیخ کے اشارہ ابرو پر اپنی جان دینا یا کسی کی جان لینا سعادت سمجھا جاتا، الغرض فدائی جب دس یا بارہ دن گزر جاتے اور مکمل طور پر ان پری جمال حسیناؤں کے دام الفت کا شکار ہو جاتے تو وہ ہی حسینائیں ان کو بھنگ کے اثر سے حسن بن صباح کے پاس واپس بھیجوا دیتیں۔

وہ جب بیدار ہوتا تو اپنے آپ کو حسن بن صباح کے قدموں میں پڑا پاتا، جنت کی یاد ایک تڑپ بن کر اس کے زہن و دل پر چھائی ہوتی، وہ جب استفسار کرتا تو یہی وقت گرم لوہے کو چوٹ لگانے کا ہوتا، حسن بن صباح اس بے چینی اور اضطراب کو اپنی مقصد براری کے لئے مناسب استعمال کرنا جانتا تھا، وہ اس کو کوئی فریضہ سونپ دیتا اور کہتا جا تو فلاں بن فلاں کو مار کر امر ہو جا، تیرے مرنے کے بعد فرشتے تجھ کو اُٹھا کر اسی جنت میں لے جائیں گے جہاں دائمی عیش و عشرت تیرا مقدر بن جائے گی اور تو نوزائیدہ معصوم بچے کی طر ح گناہ سے پاک ہو جائے گا، ان فدائین کی خون آشامی کو بڑھانے کے لئے ان کو بلی کا گوشت کھلایا جاتا تھا کیوں کہ بلی غیض و غضب کے وقت اپنے آپے سے باہر ہو جاتی ہے، لہذاٰ یہ فدائی اتنی بے جگری سے حکم کی تعمیل کرتے کہ مخالفین کے پتے پانی ہو جاتے ان لوگوں نے حسن بن صباح کے کہنے پر کئی قسم کے روپ اور سوانگ بھر کر اتنی قتل و غارت گری کی کہ لوگ ان کے نام سے لرزاں رہنے لگے، جب حسن بن صباح نے صوبہ قزوین میں بہت زیادہ قوت و طاقت حاصل کر لی تو سلجوقی سلطان ملک شاہ نے اپنے وزیر نظام الملک طوسی کی زمہ داری لگائی کہ اس فتنے کا سد باب کیا جائے اب حسن بن صباح بھی اس حقیقت سے واقف تھا کہ سلطانی طاقت کا مقابلہ کرنا میرے بس سے باہر ہے تو اس نے اپنے ایک خون آشام فدائی کی زمہ داری لگائی کہ تو وزیر نظام الملک طوسی کا خاتمہ کر تو جنت میں اعلی ٰ مقا م تیرا منتظر ہے جب قلعہ الموت کی طرف وزیر شاہی کی سواری رواں دواں تھی تو ایک عرضداشت پیش کرنے کے بہانے فدائی اس کے قریب آیا اور اس کو قتل کر دیا، اب جب لشکر شاہی نے اپنے وزیر کا یہ انجام دیکھا تو تمام لشکر اور سپاہ بغیر لڑے واپس چلی گئی تو اس طرح حسن بن صباح نے پورے لشکر کو صرف ایک فدائی استعمال کر کے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا، حسن بن صباح کے کہنے پر نامی گرامی مسلم حکومتی اشخاص اور اکابرین امت کو قتل کیا گیا یہ بہت بڑا مسلم آزار فرقہ تھا جس کو فدائین، حشاشین اور قرامطہ بھی کہتے ہیں، حسن بن صباح نے 29 سال تک قلعہ الموت پر حکومت کی اور نوے سال کی عمر میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے جہنم واصل ہوا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :