کیا کہوں زندگی کے بارے میں
اک تماشا تھا جو عمر بھر دیکھا
روایت ہے کہ مرتے وقت فرشتوں کو دیکھ کر آدمی کی زبان بند ہو جاتی ہے، تو چار فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور سلام کرتے ہیں، پہلا فرشتہ سلام کرنے کے بعد کہتا ہے اے اللہ جل شانہ کے بندے میں تیرے رزق پر موکل تھا، میں تما م زمین پر تلاش کر آیا ہوں مگر مجھے تیرے رزق کا لقمہ کہیں نہیں ملا، اس کے بعد دوسرا فرشتہ سلام کے بعد کہتا ہے اے بندہ خدا میں تیرے پانی پر موکل تھا، میں تمام زمین پر تلاش کر کے آیا ہوں مگر تیرے نصیب کا ایک قطرہ پانی مجھے نہیں ملا، تیسرا فرشتہ کہتا ہے میں تیری سانس پر موکل تھا مگر تیرے مقدر کی سانسیں ختم ہوگئیں، پھر چوتھا فرشتہ یو ں اس سے بولتا ہے کہ میں تیری عمر پر موکل تھا مگر اب زمین پر تیری عمر کا کوئی حصہ موجود نہیں۔
(جاری ہے)
اس کے بعد نامہ اعمال اس کو دکھائے جاتے ہیں، اس وقت میت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، وہ مدد کے لئے دائیں بائیں دیکھتا ہے اور اپنا نامہ اعمال پڑھنے سے ڈرتا ہے، اس وقت اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے حضرت عزرائیل یعنی ملک الموت اس کی روح قبض کر لیتے ہیں، دعا ہے کہ رب کریم ہم سے کرم والا معاملہ فرمائے، ہم کو نزع کی سختی، مرتے وقت کلمہ طیبہ کا ورد ، عذاب قبر سے اپنی پناہ میں رکھے، قیامت والے دن ہمارا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے اور اللہ پاک کے کرم سے نبی رحمت ﷺ کی شفاعت ہمیں نصیب ہو، میں کوشش کرتا ہوں کوئی اصلاح کی بات آپ کی بصارتوں کی نذر کروں، تاکہ اگر کسی کو ہدایت نصیب ہو جائے تو ہم سب کی بخشش کا وسیلہ بن جائے کیوں کہ اچھی یا اصلاحی بات بھی مثل صدقہ ہوتی ہے جتنی پھیلے گی خوشبو ہی بکھرے گی۔
تو اب اپنے موضوع کی طرف چلتا ہوں حسن بن صباح نے مشہور سلجوقی سلطان ملک شاہ کے وزیر نظام الملک طوسی کے ساتھ تعلیم حاصل کی، اور اس طرح سے وہ اس کا ہم جماعت تھا، فارغ التحصیل ہونے کے بعد نظام الملک نے ہی اس کی سفارش کی اور اس کو سلطان وقت کے حضور پیش کر کے سلطان ملک شاہ نے اس کو معتمد خاص مقرر کر دیا۔ لیکن بعض لوگ بچھو کی طرح بدخصلت ہوتے ہیں اپنے محسن کو ہی ڈنک مار دیتے ہیں۔
بعین ہی حسن بن صباح تھا اس نے مختلف چالیں چلنا شروع کر دیں تاکہ نظام الملک کو بادشاہ کی نظروں سے گر ا کر خود اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہو سکے، لیکن شومئی قسمت اس کی ان رقیق حرکتوں کی خبر حکمرانوں کو ہوگئی لہذا جب اس نے دیکھا میرا پردہ فاش ہو چکا تو اس نے دربار سلطانی سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ یہاں سے نکل کر پہلے اصفہان اور پھر ریشہ شہر پہنچا یہاں پر اس کو داعی الکبیر جیسا سرپرست مل گیا جو باطنی تھا اور اسلام کے خاتمے کے لئے فتنہ پرور مبلغین کو اپنا ہمنوا بنانے کا قائل تھا، داعی الکبیر نے اس کو مصر بھیجا تاکہ اس کی ریشہ دوانیوں سے دین مبین کو کمزور کیا جائے۔
مصر میں اس وقت عبیدیوں کی حکومت تھی جو بظاہر اس کی طرح مسلمان مگر درپردہ باطنی اور اسلام کے دشمن تھے۔ مصر میں اس کی خوب آؤ بھگت کی گئی مگر کچھ عرصے بعد یہ مصر میں بھی ایک بڑی سازش میں ملوث پایا گیا تو اس کو گرفتار کر کے قلعہ دمیات میں قید و بند کی صعوبت میں ڈال دیا گیا۔ اتفاق دیکھئے جس دن حسن بن صباح کو قید کیا گیا اسی روز قلعہ کا ایک مظبوط برج گر گیا، قلعے والوں نے سمجھا یہ شاید حسن بن صباح کا باطنی تصرف ہے اور کہیں یہ مذید نقصان کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔
تو حاکم قلعہ نے اس کو قلعہ سے نکال کر کچھ عیسائیوں کے ہمراہ افریقہ بھیج دیا، جب یہ افریقہ پہنچا تو وہاں سے نکلا اور حلب، بغداد اور خوزستان سے ہوتا ہواء پھر اصفہان پہنچ گیا اور راستے میں لوگوں کے درمیان گمراہی اور بے دینی کے بیج بوتا گیا، برائی آگے برائی کو فروغ دیتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ببول جو ایک کانٹوں والا پودا ہوتا ہے اس پر گلاب اگنے لگ جائیں۔
اب اس کے مقلدین اور پیروکاروں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی تھی کیونکہ یہ اپنے خاص ہرکاروں کے زریعے اپنی نیکی اور روحانی فیوض و برکات کی جھوٹی خبریں پھیلاتا رہتا تھا، اس نے اپنے چند لوگ اس غرض سے قلعہ الموت کی طرف بھیجے تاکہ مذید لوگوں کو اس کے دام فریب میں مبتلا کیا جائے۔ اور اپنے فاسد خیالات کا پرچار اور تبلیغ کی جائے۔ پھر کیا کیا کہ خود قلعہ الموت کے قریب قیام کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنی ریاکاری کا جھوٹا سکہ جمانا شروع کر دیا، پھر کیا ہوا ء کہ ہزاروں لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس نے ان کے دماغ اپنی مٹھی میں کرنے کے لئے نئی چالیں سوچنا شروع کر دی۔
پھر اس نے اپنے کثیر پیروکاروں کی حمایت اور مکر و فریب سے کام لیتے ہوئے قلعہ الموت اور اس کے گردا گرد قزوین کے وسیع علاقے پر قبضہ جما لیا۔ چونکہ اب وہ علاقے کا بلا شرکت غیرے حاکم تھا تو اس نے آزادانہ اپنے خیالات کی تبلیغ شروع کر دی، اس صوبے کے کافی لوگ کچھ اس کی جھوٹی پاکیزگی اور تقوی سے متاثر ہو کر اور کچھ جبر و کراہ سے اس کے خود ساختہ شیطانی مذہب میں داخل ہوگئے۔
اور اسی مذہب کی آڑ لے کر اس نے تمام کوہستانی علاقے پر اپنا تسلط کر کے حکومت بنا لی۔ اب وہ ہر وقت اسی فکر میں غلطاں رہتا تھا کہ کس طرح سلطان کے وزیر اور اپنے سابقہ دوست کو ختم کر سکے جو کہ بظاہر مشکل لگتا تھا مگر اس کے شیطانی دماغ نے اس کا بھی ایک توڑ سوچا۔ اس نے بہت غور و فکر کے بعد جانبازوں کا دستہ تیا ر کیا جو اس کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جان نچھاور کرنے پر تیار ہوں۔
چونکہ وہ اب کوہستانی علاقے کا حاکم بن چکا تھا تو اس نے اپنے آپ کو شیخ الجبل کے نام سے مشہور کردیا اس نے اپنے جانبازوں کی جماعت کا نام فدائین رکھا اور ان کے زہن و دل میں یہ بات بٹھا دی کہ حسن بن صباج جو کہ اب شیخ الجبل تھا تمام دنیا کا سب سے بڑا آقا ہے اور اس کے اختیارات وسیع و بے پنا ہ ہیں، اس نے اپنے مقصد برآری کے لئے ان کو مکر و فریب کی تعلیم دینی شروع کر دی، اس نے ان پیروکاروں اور خاص طور پر فدائین کے ازہان و قلوب کو اس حد تک مسموم کر دیا کہ وہ یقن مطلق رکھتے تھے کہ شیخ کا حکم معاز اللہ خدائے دانا ء کا حکم ہے اور اس کی تعمیل ہمارے لئے نجات اخروی کا باعث ہے۔
ان کے دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنے کے لئے اس نے ایک اور چال چلی جس کی وجہ سے ان پیروکاروں کو اس کی تعمیل اور احکامات بلا چون و چرا ماننا سعادت لگنے لگ گیا، اس نے قلع الموت کے آس پاس خوبصورت مرغزاروں اور جاں بخش نزہت گاہوں میں نہایت خوبصورت محلات برج اور کوشکیں تعمیر کروائیں، عالی شان محلات کی پاکیزگی اور خوشنمائی، باغوں اور مرغزاروں کی دلفریبی دلوں کو مسحو ر کر دیتی تھی۔
ان محلات کے بیچوں بیچ جنت کے نام سے ایک خوش نما باغ بنوایا، جس میں عیش و عشرت اور راحت و آرام کے تمام وسائل مہیاء کئے گئے، ایسی دلکشی کہ دیوانہ بنا دے اور ہوش و خرد بھلا دے، قسما قسم کے سایہ دار درخت، اور بہت زیادہ ثمر دار یعنی کہ میوہ جات کے درخت جن کی شاخیں رسیلے پھلوں سے لبریز کہ جھکے جھکے پڑتے تھے ، اس وقت ایسے ایسے پھولوں کے پودے منگوا کر لگوائے گئے کہ جب ہوا چلتی تو ان کی خوشبو مشام جاں کو معطر کر دیتی تھی اور دلوں پر ایک عجیب سی بے خودی کا تاثر چھا جاتا تھا، خوش الحان اور خوبصورت پرندے منگوا کر چھوڑے گئے جن کی مست و الست آوازیں ایک عجیب سی کیفیت کا سماں باندھ دیتی تھیں، اس کے علاوہ بلوریں ظروف اور نقرئی یعنی چاندی کے برتن مہیاء کیا گئے مذید یہ کہ جام و سبو کے برتن بھی اس باغ میں میسر تھے ، جبکہ نفیس شیشے کے مرتبان اور گلدان جن کے دل آویز رنگوں سے دیکھنے والا مبہوت و شیدا ہو جاتا تھا، اس نے اس باغ میں جس کو جنت کا نام دیا گیا تھا مستی و دل آ ویز مدھر تانیں بکھیرنے والی دھنوں کا بھی انتطام کیا تھا اس نے اس جنت میں زندہ حسن کے نادر و نایاب نمونے بھی مہیا کر دئیے تھے مطلب اتنی خوبصورت پری وش حسیناؤں کا ہجوم تھا کہ ایک سے بڑھ کر ایک اور ہر ایک کا حسن آنکھوں کو خیرہ کرنے والا اور دلوں کو مٹھی میں جکڑ کر بے بس کر دینے والا، اور ان نابغہء روزگار حسن کے پیکروں کو اداؤں سے لیس کر دیا تھا ، وہ اتنے لاڈ سے بولتی تھیں کہ سامنے والے کا دل چاہتا تھا کہ اپنے آپ کو ان کے قدموں میں ہلاک کر دے اور اپنی جان نچھاور کرتے ہوئے لمحہ بھر بھی ضائع نہ کرے کہ مبادا ان کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور ان پری رخ حسیناؤں کو حورین کا لقب دیا گیا تھا۔
(جاری ہے)۔