اعزازیل ۔ معلم المکوت ۔ قسط نمبر1

جمعہ 28 فروری 2020

Sahibzadah Shams Munir Gondal

صاحبزادہ شمس منیر گوندل

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
 ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیاء دیکھا ہے
 ہم نے دیکھے ہیں احرام میں لپٹے کئی ابلیس
 ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے
قارئین محترم آج میرا موضوع سُخن عزازیل ہے اس کے بارے میں کماحقہ واقفیت گنے چنے اشخاص کو ہو گی۔ آپ سوچ کے در وا کر رہے ہونگے یہ کون صاحب ہیں جن کو آج کے کالم میں بیان کیا جا رہا ہے، جی یہ معلم المکوت کا زکر ہے جن کو آج آپ ابلیس یعنی شیطان مردود کے لقب سے ملقب کرتے ہیں۔

آپ کو بتاتا چلوں یہ کون تھا، کیا تھا اور کیا سے کیا بن گیا۔خدائے لم یزل نے اس کو انسان کا کھلا دشمن قرار دیا ہے، یعنی وہ ہر وقت آپ سے جنگ پر آمادہ اور برسر پیکار تو آپ کو بھی اس کی چالوں سے باخبر رہنا از حد ضروری ہے ، دشمن کے حربوں سے بے خبری تو تباہی پر منطبق ہوتی ہے یہ ایک طولانی داستان ہے مگر مبنی بر حقیقت ، میں آپ کو جو بتاؤں گا، پوری کوشش ہوگی کہ قرآن و حدیث کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ کو اس مکا ر اعظم کی اصلیت کے بارے میں تھوڑا سا آگاہ کر سکوں۔

(جاری ہے)

کچھ پس منظر سے آگاہی ضروری ہے، چونکہ جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی اس لئے سرکشی اور بغاوت ان کی نس نس میں شامل ہے، جس طرح حضرت آدم  ابو البشر ہیں ، اسی طرح تارا نوح ابو الجن ہے، تارا نوح کی پیدائش ابلیس کی پیدائش سے کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار سال پہلے ہوئی، ایک روایت کے مطابق عرصہ 300 سا ل گزرنے کے بعد زمین پر تارا نوح کی اپنی نسل کی جنس مخالف سے ملاقات ہوئی ، جس سے اس نے شادی کی اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی کشیر تعداد اولاد ہو گئی، شروع میں ان کی اولاد موت کے زائقے سے نا آشناء تھی ، جس سے ان کے اندر اپنی زات اور طاقت کا غرور بڑھتا گیا ، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ قوم جنات سرکشی اور نافرمانی کی راہ کے راہی بن گئے، یہ جب بد اعمالیوں میں حدیں پار کر گئے تو خالق کون و مکان نے کم و بیش ایک روایت کے مطابق (واللہ اعلم ُ بالصواب) عرصہ 36 ہزار سال کے بعد کثیر تعداد کو موت کے زائقہ کی لذت سے ہمکنار کیا ، چند نیک بستیاں ابھی بھی باقی تھیں جہاں کچھ خیر کی بات نکل جاتی تھی ، گزرتے وقت نے جب ان کی تعداد میں بے پنا ہ اضافہ کردیا، تو ان کی فطرت کی شر انگیری اپنی آب و تاب سے سامنے آئی، انہی جنات میں سے ایک بہت نیک سیرت جن تھے جن کا نام بلیقہ تھا، یہ خوف خدا کے حامل اور طبعاٰ بہت اچھی فطرت کے مالک تھے اللہ نے ان کو حلیمی کے ساتھ بادشاہی سے بھی نواز دیا، ان کا دور تاریخ جنات میں زریں دور تھا جو کہ ہزاروں سال پر محیط تھا، جب قوم مالک حقیقی کی حکم عدولی اور بغاوت میں رزالت کی تما م حدود و قوانین کو تہ و بالا کر چکی تو ان کا یوم حساب قریب آگیا، اور خالق کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے، بلیقہ کے دور میں ہی ابلیس کے والد اور والدہ کی پیدائش ہوئی ، اس کا باپ جس کا نام چلیپہ تھا، بہت زور آور اور قوی ہیکل تھا، اس کا چہرہ ببر شیر کی مانند تھا، قوم نے اس کا لقب شاشین رکھا ہواء تھا، جس کا مطلب دل دہلا دینے والا یا جس کو دیکھ کر پتے پانی ہو جائیں، ابلیس کی والدہ کا نام نبلیس تھا، یہ بہت خونخوار قسم کی جن تھی، اس کا چہرہ مادہ بھیڑیا کی مصداق تھا، یہ اتنی زور آور تھی کہ بیک وقت کئی سو جنات کا اکیلے مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی تھی، ان دونوں کے بارے میں مشہور تھا کہ جس قوم میں چلیپہ اور نبلیس ہوں ان سے مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ، قوم کی تباہی سے پہلے تقریبا کم و بیش 250 سے 300 سال پہلے ان کے گھر ابلیس نے آنکھ کھولی، میں عرض کر رہا تھا قوم کے فسق و فجور کی تو قوم جنات اپنے شر میں روئے زمین پر سب سے بڑھی ہوئی تھی، ہوتے ہوتے یہ ہواء کہ کبھی یہ پہلے آسمان پر جاتے کبھی دوسرے آسمان پر اور فرشتوں کے لئے باعث ازیت و آزار بنتے ، حکم ربی ہواء ان کو واصل فی النار واسقر کیا جائے تو فرشتوں کی آمد قطار اندر قطار شروع ہوئی، شروع میں شری جنات نے فرشتوں کا مقابلہ کرنے کی خوب ٹھانی، مگر حکم ربی پر پیکر تسلیم و رضاء کروبیاں بھلا ان کو اپنے سامنے کہاں دم مارنے دیتے، ان کی بہت بڑی تعداد کو قتل کر دیا گیا، کچھ نے روپوشی اور فرار کی راہ اپنائی، جب کہ کم سن جنات کو قید کر لیا گیا ان میں ہی ابلیس بھی شامل تھا جس کی عمر اس وقت صرف 282 سال تھی ، آپ کے خیال میں یہ بہت بڑی عمر ہوگی مگر جنا ت کے قریب تو بچپن کا عرصہ تھا، روایت کے مطابق عزازیل یعنی ابلیس کے والد اور والدہ بھی فرشتوں کی صورت وارد ہونے والے اس خدائی عذاب کے ہاتھوں تاراج ہونے والوں میں شامل تھے، فرشتوں نے ابلیس کی تربیت شروع کردی، ابلیس کے اندر سیکھنے کی لگن بہت زیادہ تھی یہ بہت جلد آسمانی آداب اور علوم سے بہرہ ور ہوگیا، اس کو صرف ایک کام ہوتا تھا کہ یا کچھ سیکھنا اور سیکھانا یا عبادت و ریاضت میں مگن رہنا، اب ایک بات بہت غور طلب ہے فرشتے اپنی رضا سے کچھ نہیں کرتے، یہ مطلقا حکم ربی بجا لاتے ہیں ، یہ نفس کی الائشوں اور کثافتوں سے پاک اطاعت کی پیکر مخلوق ہوتے ہیں ، عام طور پر جب تک حکم الہیٰ نہ ملے یہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی مسافتوں کی بادہ پیمائی نہیں کرتے ، مگر ابلیس یا عزازیل کا معاملہ بالکل جداگانہ تھا، یہ درجہ بدرجہ بام عروج کی مسافتوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھتا گیا، پہلے تین آسمانوں میں فرشتوں میں علم کے خزانے لٹاتا ہوا جب عزازیل چوتھے آسمان پر حکم ربی سے پہنچا تو اس کی ملاقات ارواح مقدسہ سے ہوئی، اس کا قیام سب سے کم چھٹے آسمان پر رہا، مگر ہر آسمان پر یہ اپنے علم کے دریا بہاتا رہا، جب یہ ساتویں آسمان پر پہنچا تو اس کی فضیلت میں بہت اضافہ ہو چکا تھا، فرشتے اس کی صحبت میں رہنے کو اعزاز گردانتے تھے، یہاں اس کو معلم الملکوت یعنی عزازیل کے لقب سے نوازا گیا، یعنی ساتوں آسمانوں کے فرشتوں کا اُستاد۔

ابلیس کم و بیش 30 ہزار سال تک مقربین کا اُستا د رہا ، پھر حکم ربی ہواء تو چونکہ بہت زیادہ عابد و زاہد اور مطیع ہے تو تو جنت میں چلا جا اور داروغہ جنت رضوان کی معاونت کر، داروغہ جنت رضوان بھی اس کی اطاعت و رضا کا قائل اور اس کی عبادت و ریاضت کا دم بھرنے لگا ، عزازیل کو حکم الہی ہواء کہ اہل جنت کو بھی اپنے علم نافعہ میں شریک کر ،ابلیس نے جنت میں بھی اپنے علم و فضل کے دریاء سے لوگوں کو اتنا سیراب کیا کہ جنتی مخلوق اس کے وجود کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھنے لگی، ابلیس جنات میں سے پیدا کیا گیا تھا، مگر فرشتوں کی رفاقت میں رہتے ہوئے یہ اتنا مقرب بارگائہ ہوگیا تھا کہ معلم المکوت بنا دیا گیا تھا۔

اس نے زمین و آسمان کے چپے چپے پر اللہ تبارک و تعالی کی عبادت کی، اتنا مجاہدہ اور ریاضت کی جس کی نظیر ملنی مشکل۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ ُ کا بیان ہے، کہ ابلیس چالیس ہزار برس تک جنت کا خزانچی رہا، اسی ہزار برس تک ملائکہ کا ساتھی رہا ، بیس ہزار برس تک فرشتوں کو وعظ سناتا رہا، تیس ہزار برس تک مقربین کا ساتھی رہا، ایک ہزار برس تک روحانبین کی سرداری کی ، چودہ ہزار برس تک عرش الہی کا طواف کیا ، پہلے آسمان میں اس کا نام عابد ، دوسرے میں اس کا نام زاہد، تیسرے آسمان میں عارف، چوتھے آسمان میں والی ، پانچویں آسمان میں تقی ، چھٹے آسمان میں خازن، ساتویں آسمان میں عزازیل، جبکہ کتاب لوح و محفوظ میں اس کا نام ابلیس ازل سے درج تھا، چونکہ رب زولجلال علیم و خبیر ہے، اللہ تعالی کو بخوبی آگاہی تھی، کہ یہ اصل میں لعین ہے اور معین مدت کے بعد اپنی رزالت ضرور کرے گا، اور یہ اپنے انجام بد سے غافل اور خاتمہ بالکفر سے قطعی بے خبر تھا۔

(جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :