تاجدار ہند۔ بزم سے الم تک ۔ آخری قسط

بدھ 19 فروری 2020

Sahibzadah Shams Munir Gondal

صاحبزادہ شمس منیر گوندل

لگتا نہیں ہے دل میرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
کتنا بد نصیب ہے ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ المیہ غزل بہادر شاہ ظفر نے رنگون میں گیراج کی قید و بند کی زلت کے دوران لکھی۔ آخری تاجدار ہند متواتر چار سال تک قید و بند کی اذیت میں مبتلا رہا۔ کہاں سلطان ہند اور کہاں ایک پردیسی بے یار و مددگار قیدی، ہر وقت اپنے حالات پر کُڑھتے ہوئے سپاٹ دیواروں کو تکتے ہوئے سوچتا رہتا کہ کیا سے کیا ہوگیا، ادھر دوسری طرف ہندوستان بدحالی کی انتہاء کو چھو رہا تھا ، فرنگی کئی معززین کی پگڑیاں اُچھال رہے تھے، فرنگی جو تاجر بن کر آیا تھا ، اب تاجور بن کر بیٹھ گیا تھا، ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھ کر نوچا کھسوٹا جا رہا تھا۔

(جاری ہے)

انگریز نے جنگ آزادی کے بعد سمجھ لیا تھا کہ اس کے اقتدار کو اصل خطرہ صرف مسلمان قوم سے ہے کیونکہ ہندو بنیا یہ سمجھتا تھا کہ وہ تو پہلے بھی غلام ہے دوبارہ غلام ہونے سے اسُے کیا فرق پڑتا ہے، جبکہ ہندو کے پاس چاپلوسی جیسا ہتھیار تھا، مسلمان انگریزی زبان یا انگریزی تعلیم کو اختیار کرنے کے قائل نہیں تھے جبکہ ہندو جو کہ نہ صرف ابن الوقت تھا بلکہ زہنی طور پر انگریز کو آقا مان چکُا تھا اس نے اپنے آپ کو نئی تہذیب کے سانچے میں ڈھال لیا تھا۔

اسی وجہ سے نہ صرف انگریز کے چہیتے بن بیٹھے تھے بلکہ ہر جگہ پر اقتدار کی مشینری کا کل پُرزہ بنتے جا رہے تھے۔ جبکہ مسلمان دن بدن زبوں حالی کا شکار ہوتے جا رہے تھے۔ نئی تعلیم سے دوری، حاکم وقت سے زہنی فاصلے، اپنے آپ کو حالات کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے ہر وقت کُڑھتے رہنے کو اپنا شعار بنا لیا تھا، جس سے پسماندگی درماندگی میں بدل رہی تھی۔

اب ہم آتے ہیں دوبارہ سلطان ہند کی المناک حالت کی طرف۔ یہ 7نومبر ء 1862 ء کی ایک خنک سویر تھی ، اچانک شاہ ہند کی حالت متغیر ہونے لگی ، خادمہ پریشانی کے عالم میں دوڑی کہ کیپٹن نیلسن ڈیوس کو اطلاع دی جائے، دروازے پر زور سے دستک دی، اندر سے برمی اردلی نے غصے سے استفسار کیا بدتمیزی کی وجہ کیا ہے ، خادمہ نے روتے ہوئے بتایا کہ ظل سُبحانی کی سانس اُکھڑ رہی ہے، اردلی نے جواب دیا صاحب اپنے چہیتے کتے کو کنگھی کر رہے ہیں ، اس وقت ان کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں، خادمہ نے جب اُونچی آواز میں رونا شروع کیا تو اردلی نے اس کو خاموش کروانا چاہا، مگر اس کی آہ و فغاں کی آوازیں کیپٹن نیلسن تک پہنچ گئیں، وہ طیش کے عالم میں باہر نکلا، خادمہ اس کے پاؤں پڑ گئی کہ شاہ ہند کی حالت نازک ہے، اس لئے گیراج میں جس کو شاہ ہند کے قید خانہ کا درجہ دیا ہواء تھا، اس کی کھڑکی کھول دی جائے تاکہ شا ہ موت سے پہلے تازہ ہوا میں چند سانسیں لے سکے، کیپٹن نیلسن نے اپنا پسٹل اُٹھایا ، گارڈز کو اپنے ساتھ لیا اور گیراج میں داخل ہو گیا، اچانک کیا دیکھتا ہے کہ ماحول میں بدبو ، موت کا سکوت اور اندھیرا طاری ہے، اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا، بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر اور آدھا فرش پر دھرا تھا، گردن ڈھلکی ہوئی تھی ، ننگا سر تکیے پر تھا، آنکھیں اپنے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر نکل رہی تھی، گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں، خشک اور پپڑی زدہ ہونٹوں پر مکھیاں بھنبنا رہی تھی ، یہ وہ جسم تھا جو کہ کمخواب میں لپٹا ہوتا تھا، جس کی ایک جنبش نگاہ کے لئے خدام اور کنیزیں منتظر رہتے تھے، نیلسن کہتا ہے میں نے آج تک کسی چہرے پر اتنی بے چارگی اور غریب الوطنی نہیں دیکھی جتنی بہادر شاہ کے چہرے پر مرتسم تھی، یہ چہرہ کسی شاہ کی بجائے بھکاری کا لگتا تھا جس پر کھلُی ہوا میں سانس لینے کی ایک درخواست رقم تھی ، مگر سانس ہی اسی آس میں پرائی ہوگئی تھی۔

کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کے بدن کو جنبش دینے کی کوشش کی مگر زندگی کا قافلہ رگوں کے جنگل سے مدت ہوئی گزر چکا تھا، اب کیا ہو سکتا تھا جب لاد چلا بنجارہ ، نیلسن نے حکم صادر کیا کہ لواحقین کو طلب کیا جائے مگر وہاں میت کو کاندھا دینے والے تھے ہی کتنے، ایک شہزاد ہ جوان بخت اور ایک اس کا استاد، انہوں نے بادشاہ کو غسل دیا ، کفن پہنایا، جیسے تیسے بادشاہ کی نماز جنازہ پڑھی گئی، اب ایک اور مشکل ہوئی کہ تاجدار ہند کی آخری آرام گاہ کے لئے پورے رنگون میں دو گز زمین نہ دستیاب تھی، نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں ہی قبر کھدوائی اور خیر ات میں ملی ہوئی مٹی میں والئی ہند کو دفن کر دیا گیا، سرکاری اعزاز و اکرام تو دور کی بات تھی صرف قبر پر چھڑکاؤ کر کے فرض ادا کر دیا گیا، وہ شاہ جس کی تعریف میں شعراء قصیدہ خوانی کرتے تھے ، آج اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لئے خوش الحان قاری تک دستیاب نہ تھا، شہزادے جوان بخت کے استاد حافظ ابراہیم دہلوی کی آنکھیں بھر آئیں، اس نے سلطان کی پائینتی کھڑے ہو کر سورت توبہ کی تلاوت شروع کر دی، یہ قرآن پاک کا اعجاز تھا یا بادشاہ ہند کی بے بسی کی موت کا منظر ، کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھ میں بھی آنسو آگئے، اس نے ہاتھ اُٹھایا اور سلطان ہند کو آخری سیلوٹ پیش کر دیا، یہ آخری سلام تھا جس کے ساتھ ہی سلطنت مغلیہ کا خاتمہ ہو گیا ، یہ تاریخ کا ایک بہیمانہ ستم تھا کہ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے 850سالہ اقتدار کا سورج بھی متحدہ ہند میں ڈوب گیا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :