امیروں کا ڈالر، غریبوں کا آلو!!!

منگل 22 جولائی 2014

Sajid Khan

ساجد خان

اتنا سخت موسم اتنا حبس۔ تپش۔اوپر سے ہماری بجلی دھماکے سے کم نہیں۔بجلی اگر ملے تودکھ نہیں۔ نہ بجلی آئے مگر بل ضرور آئے گا۔عوام کا یہ نوحہ حکمرانوں کو نظر نہیں آتا۔بجلی کے چھوٹے وزیر بڑے عابد اور شیر کی طرح دھاڑتے نظر آتے ہیں۔ان کی پھرتیاں،آنی جانیاں، کسی کے کام کی نہیں۔جب کے معاملے پر عوام کے مزاج میں تلخی نظر آئی تو بڑے وزیر صاحب کو کہنا پڑا کہ وہ بے بس اور لاچار ہیں۔

اس حبس زدہ سیاسی ماحول میں بارش کی دعا ہی کر سکتے تھے۔مولا نے ان کی سن لی۔ مینہ بھی خوب برسا۔ مگرزمین اتنی خشک اور تپی ہوئی ہے کہ لگتا ہے کہ حسب اور تپش اور بڑھ سکتی ہے۔ہمارے وزیراعظم جناب میاں صاحب نے اس معاملے پر خصوصی اجلاس بلا بھی لیا۔چھوٹے وزیر صاحب کی گوشمائی بھی کی۔

(جاری ہے)

مگر اس دھان کے تین پات۔نتیجہ کچھ بھی نہیں۔آجکل تمام وزیر ایک ہی راگنی گا رہے ہیں۔

جن کے سر پر قادری صاحب کومزید سنگت پر مجبور کر دیتے ہیں اور آتا ہوا انقلاب لفظوں کے جنگل میں کھو جاتا ہے۔ انقلابی دونو ں طرف ہے۔مگر انقلاب مگر انقلاب کی منظر کشی ہی عوام کو متاثر نہیں کرسکتی۔
ادھر دور درشن ولایت میں ایک اور صاحب ولایت اور ماہ گرو ہمارے ہمارے سابق صدر جناب آصف زرداری گرم موسموں سے دور اپنے شہزادے بلاول زرداری بھٹو کے ساتھ مقیم ہیں۔

سرے محل کے معاملات میں حق داروں کی نمائندگی ہو گی توسرے محل کی فروخت ممکن ہو سکے گی۔یاد رہے اس سرے محل کے بارے میں ابھی تک ثابت ہیں ہو سکا کہ کس کی ملکیت ہے۔مگر فروخت کے بعد اس کی رقم حق داروں کو ضرور مل جائے گی۔ کہتا اچھا قانون ہے ولایت کا۔ جو سرمایہ کاری کو تحفظ دیتا ہے اور سرمایہ دار کو اختیار کہ وہ اپنے مقامی ٹیکس ادا کر کے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

ہماری سیاسی اشرافیہ کے جتنے اثاثے ملک سے باہر ہیں۔ان کے بارے میں ہماری سرکار کو سن گن تو ہے۔مگر ثبوت کوئی نہیں اور جو ادارے اس سلسلے میں کاروائی کرنے کے مجاز ہیں۔ان پر ان حالات میں اعتبار کرنا مشکل ہے۔نیب ایک اکیلا ادارہ ہے۔جو ایسے معاملات پر نظر رکھتا ہے۔تفتیش کرتا ہے ۔ مگر ابھی بھی نیب کے کردار پر بھروسہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔


سابق صدر پاکستان کی با اختیار جماعت جو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد اب حزب اختلاف کی نماعندگی کرتی ہے۔مسلم لیگ نواز کی اس ہی طرح مدد کر رہی ہے۔جس طرح سے اس کے زمانے اقتدار میں فرینڈلی اپوزیشن کارول آج کی قابض جماعت کر رہی تھی۔یہ ہی ہماری اس دلفریب جمہوریت کا حسن ہے۔آجکل خورشید شاہ حزب اختلاف کے پردھان ہیں۔علیحدہ دفتر۔

اعلی درجہ کا پروٹوکول۔مفاہمت کی سیاست۔مگر یہ سب کچھ غیر فطری لگتا ہے ادھر ولایت میں ہمارے سابق صدر ملکی سیاست کی مکمل نگرانی کر رہے ہیں۔جب بھی خورشید شاہ کچھ ایسا کرتے دکھائی دیتے ہے جو مفاہمت کی طرف زیادہ ہی نظر آتے ہیں۔تو جناب زرداری فورا ایسا بیان فرما دیتے ہیں۔جس سے جمہوریت کا وقار بلند ہوتا نظر آتا ہے۔ادھر نواز سرکار چار حلقوں کے بارے میں اپنے مشیروں اور وزیروں سے بیان دلوا رہی ہے کہ حکومت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

ادھر سمندر پارجناب زرداری صاحب دھاڑے۔اور میاں برادران کو باور کرایا۔چار حلقوں کی گنتی کرا دو۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔مگر آجکل کے سیاسی دنگل میں یہ وار ہماری سرکا رکو قبول نہیں۔کپتان بھی ولایت سے تازہ دم ہو کر آیا ہے۔وہاں کے فرشتوں نے اس کو حصلہ اور ہمت دی ہے۔وہ سونامی مارچ کو امن مارچ میں بدل دیتا ہے۔مگر ملک میں بدامنی ایک امن مارچ سے تو ختم نئی ہو سکتی۔

امن مارچ سے امن تو کچھ دیر کا ہو جائے گا مگر بعد میں جو مارچ پاسٹ ہو گا وہ کس کو سلامی دے گا اس پر سرکار کی سوئی پھنس سی گئی ہے۔اس پر مدد لینے کے لیے وزیراعظم صاحب ،بہادر اگلے دن جی ایچ کیو جاپہنچے۔پاکستان کی جری افواج کے کماندار اعلی نے ان کا سواگت کیا۔وزیراعظم کو حوصلہ اور ہمت دلائی مگر گلا ضرور کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف قانونی اور ضابطے کی کاروائی میں سرکار کا کردار کمزور ہے۔

اور ہے بھی۔اب جب کہ تحفظ پاکستان کا قانون لاگو ہو چکا ہے۔مگر سرکار اگست میں دو ہفتے کی تقریبات کا اعلان کر چکی ہے مگر ان کا کیا طور اور طریقہ ہوگا۔وہ ابھی تک مخفی ہے ان پر کتنا خرچ ہوگا۔کیا ان کے لیے میر منشی نے بجٹ میں کوئی رقم رکھی تھی یا حسب سابق خرچ کر کہ پھر دکھایا جائے گا کہ کیا کریں اور ان تقریبات میں سیاسی اشرافیہ کا کردار کیا ہوگااور ان تقریبات سے عوام کو کیا ملے گا۔

وہ معلوم کرنا ضروری ہے۔
رمضان میں عوام عبادت کر رہی ہے اور سیاست میں سیاست کا الاپ ڈاکٹر قادری کر رہے ہیں۔ان کے انقلابی منصوبے میں مسلم لیگ ق کے چوہدری برادران ہراول دستہ ہیں۔ان کے ساتھ اکلوتی سیٹ کے مالک شیخ صاحب فریقین کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں مگر ان کا نعرہ ابھی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکا ہے۔پنجاب کے خادم اعلی اس رمضا ن میں دن رات ایک کر چکے ہے۔

مگر امن و امان کے معاملے پر ان کی پولیس ان کی توقع کے مطابق کام نہیں کر رہی۔انہوں نے پولیس کو اتنی مراعات دیں اس کے باوجود پولیس کا کردار عوام کے لیے پسندیدہ نہیں۔وہ نوکری کے معاملے میں شدید بد انتظامی کا شکار نظر آتے ہیں۔دوسری طرف وزیر داخلہ۔جو اب دوبارہ پورانی تنخواہ پر کام کرتے نظر آتے ہیں، ان کا دائرہ اختیار صرف اسلام آباد اور پنڈی تک محدود ہے۔

شمالی وزیرستان کو عوام کی مدد کے لیے ملک کے تمام اداروں نے مدد کی مگر کسی صوبے کی پولیس فورس نے نمائشی طور پر بھی کوئی اعلان نہیں کیا۔اتنی بڑی تعداد کو فقت فوج کے لیے لوگ کتنا عرصہ مدد دیں گے۔مرکزی سرکار کو ان کے لیے موثر ان گنت معاملان کو دیکھ رہی ہے۔ایک طرف اندرون ملک دہشت گردی کی جنگ میں فوج حالت جنگ میں ہے ۔دوسری طرف سرکار عوامی انقلاب کے بت بنے خوف زدہ ہے اور وزیرہ کہ بے مقصد کی نعرہ بازی ہر لگا رکھا ہے۔ میر منشی بڑی خاموشی سیڈار کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ مگر الو کی قیمت ان کے کنٹرول میں نہیں۔برا ہو ان سیاست کا جو ڈار کنٹرول کر لیتا ہے غریبوں کا الو ان کے اختیار میں نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :