
ماں
منگل 12 مئی 2020

سلیم ساقی
ماں ایسی ہستی ہے جو خود رات کی بچی کچی سوکھی روٹی کھا کر بچوں کا پیٹ دیسی گھی سے تیار کردہ پراٹھوں سے بھرتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو بیٹے کے تیکھے لفظوں کے زخم جگر پر سہہ کر بھی اسی بیٹے کے حق میں رب کے حضور دعا گو ہوتی ہے۔
آجکل جدید دور میں ان کمبخت لوگوں نے ماں کا باپ کا ہر ایک رشتے کا دن منانا شروع کر دیا ہے۔
(جاری ہے)
ہماری ایڈوانسمنٹ نے تو بوڑھے ماں باپ کیلئے اولڈ ہوم بنا ڈالے۔ کوئی پوچھے ان سے اولڈ ہوم میں کوئی بیگانہ انکا جتنا خیال رکھ رہا ہے۔ کیا وہ حق تمہارا نہیں بنتا؟ کیا تمہارا حق نہیں بنتا کہ تم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بوڑھے ماں باپ کو کھانا پروسو؟ کیا تمہارا دل نہیں کرتا تمہارا باپ تم سے خوش ہو کر تمہاری خوشی کیلئے رب کے حضور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے؟ کیا تم نہیں چاہتے تمہاری ماں کا چہرہ تمہارے حسن سلوک کی وجہ سے ہر دم کھلکھلاتا رہے؟ نہ کے ہر دم تمہاری بے سلوکی کی وجہ سے اسکے چہرے پر آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی ہوں۔
ہماری کمظرفی تو یہ ٹھہری کہ ادھر جوان ہو کر بیاہے گئے نہیں،کہ ماں باپ کو سر کا بوجھ سمجھ کر انھیں اولڈ ہوم شفٹ کر دیا۔ جی کیا ہے میری بیوی سے یہ بوڑھی عورت دن رات جھگڑتی ہے۔ ارے مورخو کیا تمہاری عقل پر اس قدر پردہ پڑ چکا ہے، کہ چار دن ہوئے نہیں ایک پرائی عورت کے کہا میں آ کر برسوں ساتھ رہنے والی ماں پر شک کرنے لگ گئے تم۔ اس ماں پر الزام تراشی کرنے لگ گئے جس نے تمہیں اپنا خون چھاتی کے رستے دودھ کی شکل میں پلا کر تمہاری پرورش کی۔ جس نے خود دھوپ میں رہ کر تمہارے سر پہ اپنی ممتا کا سایہ بنائے رکھا۔
خدا نے تو ماں کے قدموں تلے جنت بتلائی ہے۔ تو کیا کوئی جنت کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے؟ یوں تو ہم دن رات رب کے حضور جنت مانگنے کی ارداس لیئے بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن رب نے جنت صرف مرنے کے بعد ہی دینے کا وعدہ نہیں کر رکھا، بلکہ خدائے عظیم نے تو جیتے جی جنت کو تمہارے پاس بھیج دیا۔ بلکہ نہ صرف بھیجا بلکہ اسی جنت کی کوک سے تمہیں جنم دیا۔ کتنے خوش نصیب ہیں ہم کہ ماں کے روپ میں جنت کی کوک سے پیدا ہوئے ہیں ہم۔
لیکن افسوس کہ ہم ناسمجھوں کو جنت کی قدر کرنا نہیں آتی۔ ہم اپنی بھول بھلیوں اپنی نادانیوں میں آ کر اس ماں کا دل دکھاتے رہتے ہیں۔ جس ماں کی بدولت ہم اس دنیا میں آئے۔
بیٹا کھانا نہیں کھاتا تو رو دیتی ہے ماں
چاہے لاکھ غصہ کرے لاکھ لڑ لے مگر
بیٹا گھر نہیں آتا تو رو دیتی ہے ماں
ماں خداتعالی کی وہ نعمت ہے جسکا دین کوئی چاہ کر بھی دے نہیں سکتا۔ کبھی پوچھنا اس سے جس کی ماں خدا نے اس سے چھین لی ہو۔ کیا بیتتا ہے بن ماں کے۔ کیسی کٹتی ہے زندگی ماں کے بغیر۔ کیسے جیا جاتا ہے مر مر کے گھٹ گھٹ کے۔
ارے نادانوں ماں تو وہ ہستی ہے۔ جس کی شان میں ہمارے نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ جسکا مفہوم ہے
اگر میری ماں زندہ ہوتی اور محمد عربی عشاء کی نماز پڑھا رہے ہوتے۔ میری ماں حجرے سے آواز دیتی اے محمد خدا کی قسم میں نماز توڑ کر کہتا جی امی جان۔
یعنی ماں کا درجہ اس قدر خدا نے بلند و بالا رکھا کہ ہمارے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے ہیں۔ اگر میں نماز عشاء کی نماز پڑھا رہا ہوتا اور مجھے میری ماں آواز دیتی تو میں نماز توڑ کر انکی بات کا جواب دیتا۔ ایسی عظیم الشان ہستی کے ساتھ ہم اتنا دردناک سلوک کرتے ہیں۔
چاروں طرف نظر دوڑائی جائے تو صاف نظر آتا ہے۔ کوئی اپنی ماں کو گالی بک رہا ہے۔ کوئی ماں کو مار رہا ہے پیٹ رہا ہے۔ کوئی ماں کی عزت کو بیچ بازار نیلام کر رہا ہے۔ کوئی اسی پھول جیسی ماں کو اولڈ ہوم شفٹ کروا رہا ہے۔ وہ بھی ایسی عمر میں جب اسے اپنی اولاد کی بے تحاشہ ضرورت ہوتی ہے۔
خدارا اس ماں کا کبھی دل مت دکھانا کیونکہ جب ماں روٹھ کر چل دیتی ہے نا تو مخملی بستر پر بھی نیند نہیں آتی۔۔۔۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلیم ساقی کے کالمز
-
افزائش نسل کی بڑھوتری کے ثمرات و نقصانات
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
عشق مجازی سے عشق حقیقی
پیر 13 ستمبر 2021
-
''ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے''
منگل 24 اگست 2021
-
تھرڈ کلاسیے ایکٹرز
منگل 1 جون 2021
-
''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''
منگل 4 مئی 2021
-
لیبرز ڈے
ہفتہ 1 مئی 2021
-
رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟
منگل 27 اپریل 2021
-
کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا
ہفتہ 24 اپریل 2021
سلیم ساقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.