نظر کا چشمہ ۔۔۔!!!

بدھ 8 مئی 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

یہ زندگی جو ہمیں اللہ نے عطا کی ہے یہ بہت بڑی نعمت ہے زندگی کے ساتھ ساتھ صحت بھی ہو تو زندگی کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے ۔اب اس زندگی کی نعمتوں کے بارے میں بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے ہاتھ نعمت ہیں ،انسان کے پاؤں نعمت ہیں ،انسان کا دماغ نعمت ہے ،سننے کی سماعت نعمت ہے اسی طرح دانت بھی نعمت ہیں اور اگر بصارت کو دیکھیں تو آنکھیں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں کیونکہ اگر انسان کی بصارت اپنے لیول کے مطابق نہ ہوتو ہمیں زندگی کی رنگینیاں اور قدرت کے کرشمے مدھم لگتے ہیں اور اگر بصارت بالکل ہی نہ ہو تو ہم زندگی کی رنگینیاں اور قدرت کے کرشمے تو دور کی بات اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ سکتے اسی لئے آنکھوں کو بہت بڑی نعمت کہا جاتا ہے ۔


اگر یہ سب نعمتیں ایک انسان کو حاصل ہوں تووہ اپنے آپ کو نارمل انسان کہلانے کے لائق ہوتا ہے اور اگر ان نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت بھی کم ہو تو انسان نارمل کی بجائے اب نارمل یا پھر معذور کہلایاجاتا ہے جو یقینا انسان کے اندر کمی کو ظاہر کرتا ہے اور بعض انسان جو کسی بھی لحاظ سے اب نارمل یا معذور ہوتے ہیں وہ انسان کے اندر احساس کمتری بھی پیدا کرنے کا سب سے بڑا موجب ہیں ۔

(جاری ہے)

لیکن جدید ٹیکنالوجی میں اتنی جدت آگئی ہے اورسائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اگر کسی انسان کی ٹانگ نہیں ہے تو اُسے مصنوعی ٹانگ لگا دی جاتی ہے تاکہ اُسے چلنے پھرنے میں پریشانی کا سامنانہ کرنا پڑے۔
اسی طرح اگر کسی انسان کا بازونہیں ہے تو اُسے مصنوعی بازولگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ بازوبھی استعمال میں لایا جاسکے یعنی یہ لفظ جو مصنوعی کا استعمال ہورہا ہے یہ ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے کہ ٹیکنالوجی نے سہولیات کر دی ہیں اسی ٹیکنالوجی کو بصارت کے شعبے میں بھی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر کسی انسان کی کسی نہ کسی وجہ سے نظر کمزور ہوچکی ہے تو فوراًجدید مشینری کے ذریعے نظر کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور اگر نظر کم ہوگئی ہو تو ڈاکٹر نظر کا چشمہ لکھ دیتا ہے اور انسان نظر کا چشمہ بنوا کر اپنی آنکھوں پر سجا لیتا ہے اور نظر کی جو کمی ہوتی ہے وہ دور ہوجاتی ہے ۔


اب نظر کا چشمہ لگانے یا لگ جانے کی صرف یہ ہی وجہ نہیں کہ آپ کو دھندلا نظر آتا ہے اس کی اور بھی وجوہات ہیں جن میں سر میں درد ہونا،پٹھوں میں کھچاؤ ہونا،آنکھیں دُکھی دُکھی رہنا ،آنکھوں سے پانی آنا ،بصارت کے لئے ضروری وٹامن کی کمی ہوجانا اور ایسی خوراک جس میں بصارت کے صحیح طرح سے کام کرنے کیلئے ضروری اجزاء نہ ہوں اس کا استعمال زیادہ کرنا شامل ہیں، ان مسائل میں سے ایک بھی مسئلہ زور پکڑر جائے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت پیش آجاتی ہے ۔

چشمہ لگانے کے بعد ہم سب جانتے ہیں کہ ہمیں ہر چیز صاف دکھائی دینے لگتی ہیں ۔
یہ ہی مثال حکومتی سطح پر لاگو کریں تو ہمارے ملکی مسائل کے حل کیلئے نمائندے اپنی اپنی کرسی ،منصب اورفرائض کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اب اگرکرسی، منصب اور فرائض رکھنے والوں کے اندر ایمانداری ،انسانیت اورحلال رزق کے وٹامن اور پروٹین موجود ہیں تو یقینا شکایات بھی کم ہونگی اور مسائل کی شرح بھی کم سے کم ہوگی کیونکہ اگر آپ صحیح دیکھنے اور صحیح سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کوئی آپ کو یہ کہے کہ آپ5نمبر کا نظر کا چشمہ لگالواورآلہ سماعت لگا لو تو یقینا یہ ایک فضول بات تصور ہوگی ۔


لیکن اگر شکایات بڑھتی جارہی ہوں ، مسائل کی شرح میں اضافہ ہورہاہو، مہنگائی ،بے روزگاری اورلاقانونیت نے عوام کا جینا اجیرن کر دیا ہو روٹی کپڑا او ر مکان جیسی بنیادی ضروریات عوام کی پہنچ سے بہت دور ہوجائیں ،جرائم کی شرح بڑھ رہی ہو ،انصاف کے تقاضے پورے نہ ہورہے ہوں تو کرسی پر بیٹھنے والوں ، جمہوریت اور انصاف پسندی کاراگ الاپنے والوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے اور یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ افسران و حکمران کی نظر کمزور ہے اور انہیں نظر کا چشمہ لگانے کی ضرورت ہے۔


نظر کمزورہونے کی وجہ سے افسران و حکمران کو عوام کے مسائل نظر نہیں آتے ،کان خراب ہونے کی وجہ سے انکو غریب پر ہونے والے ظلم وستم کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں ،اگر عوام کے مسائل نظر آرہے ہیں او ر اُن پر ظلم و ستم کی آوازیں بھی سنائی دی جارہی ہیں لیکن کوئی کاروائی نہیں کی جاتی تو یہ عمل بے حسی و بددیانتی میں شمار ہوتا ہے ۔کوئی بھی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا کہ ”ناانصافی کی وجہ سے ہمارے ملک میں خود سوزی بڑھتی جارہی ہے“ قانون انصاف دینے کی بجائے غریب آدمی کو اتنا بے کس و مجبور کر دیاجاتاہے کہ وہ بیچارہ اپنی زندگی سے تنگ آکر اپنے بچوں سمیت خو دکشی کر لیتا ہے پھر کیا ہوتا ہے کہ معصوم بچوں اور بے گناہ افراد کی ہنستی کھیلتی زندگی اجڑ جاتی ہے اس اجڑی ہوئی زندگی کی چیخ و پکارکی آوازیں جب انصاف کے ایوانوں کو ٹکراتی ہیں توقانون حرکت میں آتاہے اور اجڑجانے کے بعد انصاف کے تقاضے پورے کیے جارہے ہوتے ہیں۔

۔۔
ایسے معاشرے میں لوگ خودسوزیاں اور خودکشیاں نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے؟تبدیلی نام لینے سے نہیں آتی کام کرنے سے آتی ہے عوام تبدیلی کی راہ تکتے تکتے اپنی بچی کچی آس و اُمیدیں دفن کرتی جارہی ہے مگرتبدیلی کو شاید بہت دیرہے ۔جب تک عوام کو انصاف نہیں ملے گا،روٹی کپڑا اور مکان نہیں ملے گاکوئی کتنے ہی بڑے دعوے کرلے تبدیلی نہیں آنے والی۔

۔۔ تبدیلی لانے کے لئے قانون پر اس طرح عملدرآمد کرایا جائے کہ جُرم کرنے والا جُرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے کہ اگر میں نے یہ جُرم کیا تو مجھے سزا ضرور ملے گی۔اللہ ہمارے ملک کے افسران و حکام کو ایسی نظر عطا فرما کہ انہیں کبھی نظر کا چشمہ لگانے کی ضرورت پیش نہ آئے اور ہمارا ملک میں ایسا نظام آجائے کہ ہر انسان کو اس کی دہلیز پر خالص انصاف ملے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :