کس کے مرنے کا انتظار ہے ۔۔۔؟؟؟

جمعرات 15 اگست 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

غیرت کسی بھی انسان کے اندر ایک ایسا مادہ ہے جب یہ سویا ہوا ہو تو بڑے سے بڑا ظلم بھی انسان کو ظلم نہیں لگتا خواہ وہ خود کسی کے ساتھ کر رہا ہو یا کوئی اورکسی کے ساتھ کررہا ہولیکن جب یہ مادہ جاگ جائے تو انسان چھوٹے سے چھوٹے ظلم کے خلاف بھی آواز اٹھاتاہے اور اُس ظلم کے خاتمے کے لئے ہر حدتک چلا جاتا ہے۔یعنی اگر آپ کسی معاشرے میں رہ رہے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ امن پسند ہو اور ہمارے معاشرے میں کسی قسم کا کوئی جرم نہ ہو ،ہر انسان اطمینان کی زندگی گزارے تو یقینا آپ کے اندر غیر ت کے مادے کا زندہ ہونا بہت ضروری ہے ۔

ہمارے ہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غیرت انسان کے گھر کی چادر اور چاردیواری تک محدود ہے اور انسان اسی کا پہرے دار ہے حالانکہ غیر ت معاشرے پر بھی بہت اچھے طریقے سے لاگو ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)


اگر آپ معاشرے سے امن مانگ رہے ہیں توآپ کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کہ آپ بھی معاشرے میں امن کے قیام اور مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈالیں۔ کبھی ہم کسی کو بُر ا بھلا کہیں کبھی کسی کو گند ا سمجھیں تو پھر کیسے کسی مسئلہ کا حل نکلے گا۔

؟کون آئے گاجو ہمارے مسائل حل کرے گا ۔؟ کون آئے گا جو ہماری امیدوں پر پورا اترے گا ۔؟یہ سب خوابی باتیں لگتی ہیں ان سب باتوں کے ہونے کے باجودایماندار افسرکا ہونا اور ایمانداری سے سارے کام پایہ تکمیل تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔اگر آپ معاشرے میں ایک حیثیت رکھتے ہیں تو آپ کو ایسی شخصیت بن جانا چاہیئے کہ لوگ آپ کی مثالیں دیں ۔
موجودہ ملکی صورتحال کے مطابق ملک کے بیشتر علاقوں میں بہت زیادہ بارشیں ہورہی ہیں اور بارشوں کے سبب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے بڑے بڑے شہر جن میں لاہور اور کراچی شامل ہیں زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔

ان شہروں کی گلیوں میں پانی اس طرح بہہ رہا ہے جیسے کسی اونچے پہاڑ سے پانی ڈھلوان کی طرف بہتا ہے اسی دوران کراچی کے اکثر علاقوں میں بارش کے سیلابی پانی میں کرنٹ موجودہونے کی وجہ سے خوبصورت نوجوانوں کی موت بھی واقع ہوئی ہے جو کسی سانحہ سے کم نہیں ۔اس ماں کا کیا حال ہوا ہوگا جب اُس کے سامنے اسکے جوان بیٹے کی نعش لائی گئی ہوگی ۔
کافی عرصہ سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہمار ے ملک میں عجیب نظام چل پڑا ہے ہمارے ادارے اور ہمارے ملک کے وہ لوگ جو شعور کی ایک سیڑھی بھی نہیں چڑھے وہ اُس وقت تک ہوش میں نہیں آتے جب تک کسی مسئلہ پر کسی کی موت واقع نہ ہوجائے۔

نہ جانے کیوں ذمہ داران کے اندر اللہ کا خوف ختم ہوگیا ہے ،کیوں وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ہم نے بھی اللہ کو جان دینی ہے ۔بجلی کے محکمہ کے خلاف کئی بار اخبار میں خبریں لگی ہوتی ہیں کہ فلاں شہر میں بجلی کی لٹکتی ہوئی اور جھولتی ہوئی تاریں گلی محلوں میں اس قدر نیچے آگئی ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے لیکن انتظامیہ کی طرف سے کچھ نہیں کیا جاتا ۔

جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے کسی بچے کی کرنٹ لگنے سے موت ہوجاتی ہے تو سارے کا سارا عملہ حرکت میں آجاتا ہے تاریں تو کیا کھمبے ہی دوسری جگہ منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔
اسی طرح وہ ماحول جو ایک نارمل انسان کے لئے ضروری ہے وہ فراہم کرنا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے ٹی وی پر یہ خبریں تو بہت چلائی جاتی ہیں کہ ملک میں یہ والی بیماری بڑھتی جارہی ہے ملک میں وہ والی بیماری زور پکڑ رہی ہے لیکن افسوس یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ والی اور وہ والی بیماری کس وجہ سے جنم لیکر بے قابو ہوتی جارہی ہے ۔

ہمارے ملک میں آدھے سے زیادہ لوگ حکومتی اداروں نے مریض بنائے ہوئے ہیں سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کے مریض لوگوں کا ناانصافی ہے۔امیر تو پیسوں سے انصاف بھی خرید لیتا ہے لیکن غریب اپنی جان تک دے دیتا ہے مگر انصاف کی پھوٹی کوڑی اسے نہیں ملتی۔دوسرا مسئلہ صاف ستھرا ماحول ہے جس پر حکومتی ذمہ داران مہینے میں ایک دفعہ سڑک سے مٹی صاف کروا کر بڑی سی تصویر بنواکر چلے جاتے ہیں لیکن عوام توروزانہ وہی مٹی کھارہی ہوتی ہے ۔

کتنے ہی لوگ سانس ،دمہ ،الرجی ،ٹی بی ،ہیپاٹائٹس کی وجہ سے اپنی جان گنوادیتے ہیں لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔
سیاست دانوں کے کسی بیٹے کو اغوا ء کر لیا جائے تو فوج بلوا لی جاتی ہے لیکن غریب کی بیٹی کی عزت تار تار ہوجائے تواس کے ماں باپ کوانصاف کے حصول کیلئے تھانے کچہریوں کے چکر لگوا لگوا کرذلیل و خوارکر دیا جاتا ہے ۔ کسی بھی مسئلہ پر جب تک کسی انسان کی جان نہ جائے کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آتا ،کیا انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہی ؟کسے کے مرنے کی خبر ٹی وی پر چلے گی تو وہاں کے علاقے کے سارے افسران کی خبر لی جاتی ہے ورنہ کوئی کچھ ہی کرتا رہے جیسا چل رہا ہے چلتا رہے۔

صفائی کے محکمے کے ذمہ دارافسران نے ایمانداری سے کام کیاہوتا تو ایسی کونسی گندگی پاکستان میں آگئی ہے جو آج تک صاف ہی نہیں ہوسکی ؟یا ذمہ دارافسران کو صرف تنخواہ لینے سے غرض ہے ۔
صاف پانی کی فراہمی حکومتی ذمہ داران کا کام ہے کیا آج تک کوئی مشین ایجا د نہیں ہوئی جو پاکستان کا پانی صاف کر سکے یا جان بوجھ کر پانی کو ٹیسٹ ہی نہیں کیا جاتا ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عملدر آمد کیا جاتاہے ۔

وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کا کسی شہر میں وزٹ ہوتو سب اچھا کی رپورٹ اور سب کام ٹھیک ہورہا ہے کے دکھاوے کے سبب شہر کو سرف سے دھو دیا جاتا ہے کوکاف کے جنگلات سے جنات کو بلا کر شہر کا وہ وہ کونا صاف کرادیا جاتا ہے جہاں کبھی صفائی نہیں کی گئی ہوتی۔
 پورے ملک میں سیاستدانوں کے درمیان ایک دوسرے کی ذات پر تنقید کی سیاست شروع ہے ذمہ دارسیاستدان اس وقت سکرین پر نظر ہی نہیں آتا ۔

میرا تو یہ سوال ہے کہ کس کے مرنے کا انتظا ر ہے ؟ہسپتال کب ٹھیک ہونگے ؟سکول کب ٹھیک ہونگے؟ماحول کب ٹھیک ہوگا؟صفائی کا نظام کب ٹھیک ہوگا؟میرٹ کی بالا دستی کب ہوگی؟شاید حکمرانوں کو غریب عوام کے مرنے کا انتظار ہے۔۔۔
کیا ہمارے مسلمان حکمران ومسلمان سیاستدان اسلامی تعلیمات کونہیں جانتے یا پھر بھول گئے ہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ” ایک دن حضرت عمر  خود بیٹھ کر رو رہے تھے تو کسی نے پوچھا حضرت  آپ کیو ں رو رہے ہیں ؟آپ  نے فرمایا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ فلاں پل سے بکریاں گزری ہیں تو پل کے اندر شکستگی تھی پل درمیان میں سے ٹوٹا ہوا تھا اُ س میں سے ایک بکری کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے تو میں ڈرتا ہوں کہ میرا رب یہ نہ پوچھے کہ عمر  تو نے پل صحیح تعمیر نہیں کروائے تھے کہ ایک بکری کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے؟“
یہ وہ عظیم حکمران تھے جو دین کو دین سمجھتے تھے اللہ کا خوف ان کے دلوں میں تھا ۔

لیکن آج کل ہمارے حکمران و ذمہ دار افسران جن کے ہاتھ میں قلم کی طاقت اللہ نے دی ہے انکے اندر اللہ کا خوف ہی نہیں ہے لوگ بجلی کی تاروں سے مر رہے ہیں ،لوگ گلی محلوں میں گندگی اور گندے پانی سے جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں ۔حاملہ مائیں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے گزرتے ہوئے شدید تکلیف محسوس کر تی ہیں ،لوگ آلودہ ماحول اور آلودہ پانی کی وجہ سے گھُٹ گھُٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔


خدارا اس ملک پر رحم کریں اس ملک کے باسیوں پر رحم کریں غریب کو تو عادت ہوگئی ہے گھُٹ گھُٹ کر جینے کی گھُٹ گھُٹ کر مرنے کی۔ حکمران اُس وقت سے کیوں نہیں ڈرتے جب اے سی کمرے میں بیٹھ کر سکھ کا سانس لینے کی بجائے انکا سانس گھُٹنے لگے گا اُس وقت کے آنے سے پہلے اس ملک کے بارے میں سوچو اس ملک کی بلکتی سسکتی دھاڑے مارتی ہوئی عوام کے بارے میں سوچو ۔اللہ پاک ہمارے حکمرانوں اور ذمہ داران افسروں کو سیدھا رستہ دکھائے اور انہیں اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :