نہ اچھی حکومت آئے گی نہ چین آئے گا۔۔۔!!!

منگل 24 ستمبر 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

کہا جاتا ہے کہ جس انسان کو رونے کی عادت ہو جائے اُ س کو کتنا ہی سمجھا یا جائے کتنا ہی بتایا جائے وہ ساری زندگی روتا ہی رہتا ہے اگر اُس کی ساری ضروریات پوری بھی ہوجائیں تو اس کا ردعمل یہ ہی ہوگا کہ مجھے تو وہ سب نہیں ملا جو میں چاہتا تھا۔انسا ن کی فطر ت میں ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ سب کچھ اچھا ہو لیکن میں حیران ہوں کہ انسان یہ چاہتا تو ہے لیکن اگر کسی کام میں اس کی ضرورت پڑ جائے تو وہ خود کو خدمت کیلئے پیش نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے امید رکھتا ہے کہ وہ یہ سب کریں ۔


اب میں آپ کو اس بات کی مثال دیتا ہوں ایک انسان کسی دوسرے انسان کی ترقی میں روڑے اٹکاتا ہے اُس کواُس کے اچھے کام پر شاباش نہیں دیتا اسکی حوصلہ افزائی نہیں کرتابلکہ حسد کینہ اور بغض رکھتا ہے اور اللہ سے اپنی ترقی کی دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

جب اُس کو ترقی نہیں مل رہی ہوتی تو بجھا ہو ا سا منہ لے کر کہتا پھرتا ہے کہ میں جو بھی کام کرتا ہوں اُس میں مجھے کامیابی ہی نہیں ملتی۔

ترقی ،شہرت اور عزت ہمیشہ انہی لوگوں کو ملتی ہے جو دوسروں کیلئے قربانیاں دیتے ہیں جیسے کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے قربانیاں دیں اور آزادوطن حاصل کیا۔آج وہ خود تو قبروں میں سورہے ہیں لیکن ہم آزاد ی سے زندگی گزار سکتے ہیں ایساوطن دیا جہاں ہمیں ہمارے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع مل سکیں ۔ایسی دھرتی جسے ہم اپنی ماں کہہ سکیں ،ایسی دھرتی جہاں ہمارے بچے سکون کا سانس لے سکیں ۔


انسان اگر اپنے مادر وطن میں سالوں سال گزاردے پھر اچانک سے اُسے کچھ دن باہر کے ملک میں جانا پڑ جائے تو باہر کے ملک میں جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد اُسے اپنے وطن کی یاد ستانے لگتی ہے یہ سب اس لئے ہے کیونکہ ہمیں وطن سے لگاؤ ہے انسان جس مٹی میں پلا بڑھا ہو اس مٹی سے محبت اس کی رگوں میں نشے کی طرح جمع ہوجاتی ہے اُس انسان کو آپ کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں بھیج دیں وہ وہاں ایک دن دو دن مہینہ رہے گا یا زیادہ سے زیادہ سال رہ لے گا لیکن ایک وقت ضرور ایسا آتا ہے کہ اُسے اپنے وطن کی ہی یاد ستانے لگتی ہے اور وہ اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے جو بے چینی اُس کے اندر ہے وہ اپنے وطن اور اپنوں کے پاس جا کر ہی ختم ہوگی ۔


پاکستان کو آزاد ہوئے 72سال ہوگئے ہیں مختلف حکمران آئے چلے گئے مل پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہو ا یا نہیں ہوا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ دوسرے ممالک ہم سے ترقی میں بہت آگے نکل گئے ہیں جس سے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کیا گیا کیونکہ ہم اورہمارے بچے آج دوسرے ملکوں کے بارے میں دیکھتے ہیں اور دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ ہم سے آگے ہیں ۔

کتنی ہی ضروریات زندگی کی چیزیں ایسی ہیں جس پر باہر کی کمپنی کا نام لکھا ہوتا ہے کیا ہم 72سالوں میں اس قابل بھی نہیں ہوسکے کہ اپنے ملک کی انڈسٹریز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکیں۔
کتنے شرم کی بات ہے جب ہمارا بچہ یہ کہتا ہے ابو میں نے کس بات کا قرضہ دینا ہے ،یعنی قرضہ کو ہم نے مسئلہ ہی نہیں سمجھا اور نہ یہ سوچنا گوارا کیاکہ قرض لینا اور قرض لیتے چلے جانا مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

ہم مزید قرض لے رہے ہیں پچھلا قرض اتارنے کیلئے ،قرض چڑھ رہا تھا تو اتارنے کی فکر کیوں نہیں کی گئی،وہ لوگ جنہوں نے ایسے حالات کے پیدا ہوتے ہی ان پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی وہ لوگ قصور وار ہیں کیونکہ انہوں نے یہ نہیں سوچھا کہ ہم اس ملک کو آنے والے وقتوں میں اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں ۔
قرض لیا جاتا رہا حکمران اپنے ذاتی کاروبار کر کے اپنے اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوارتے چلے گئے لیکن غریب عوام کے بچوں کا مستقبل بگاڑتے چلے گئے ۔

قرض لے کر کون سی ایسی ٹیکنالوجی پیدا کی گئی جس سے ہم قرض کو اتارنے کے قابل ہوجاتے ،قرض لے کر کونسے ایسے پلانٹ لگائے گئے جن کی مدد سے پاکستان کی عوام کو فائدہ ہوتا،قرض لے کر کونسی انڈسٹریاں لگائی گئیں جس سے پاکستان کی عوام کو فائدہ ہوتا ۔وہ حکمران جنہوں نے قرضہ لیافیکٹریاں انہیں کی ہیں ،شوگر ملیں انہیں کی ہیں،کاروبار انہیں کے ہیں ۔

غریب کا کیا ہے غریب کل بھی روٹی کپڑا اور مکان کو پیٹ رہا تھا غریب آج بھی روٹی کپڑا اور مکان کو پیٹ رہا ہے ۔
وہ حکمران جنہوں نے ملک پاکستان کو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑ دیا اور ذاتی مفادات حاصل کرتے رہے آج ان کے بچوں کوپاکستان پر چڑھنے والے قرض کی کوئی فکر نہیں ہے وہ ذاتی سیاست کی دکان چمکانے کیلئے عوام کو گمراہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ۔

ان کے بچوں کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ غربت کیا ہوتی ہے ،جمہوریت کے نام کی آ ڑ میں سیاست کرنے والے یہ نونہال جو سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہوئے اور سونے کے چمچ سے ہی تین ٹائم کا کھانا کھاتے ہیں ۔یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں غریب کا احسا س ہے ،ہم غریب کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اچھی حکومت کس کی تھی اور بُری حکومت کس کی تھی مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ عوام کو چین کب آئے گا۔

کیا ایسا کام ہوگا کہ عو ام سُکھی ہوجائے ،ملک کے تاجر اطمینان حاصل کرلیں ، ملک کا غریب کہے گا کوئی مہنگائی نہیں ہے، ہم خوشحال ہیں،انصاف کا بول بالا ہوگا ۔ہر جرم کرنے والے کو سزا ہوگی کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی جائے گی ۔تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبہ اتنے ترقی ہوجائے گی کہ دنیا کے لوگ ہم سے ٹیکنالوجی خریدیں گے اور پاکستان کے اندر سے کوئی بھی پڑھا لکھا شخص باہر جانے کی نہیں سوچے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :