سائبان کا آئینہ ہے گریبان

پیر 8 جولائی 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

فرد کسی بھی معاشرے کا وہ رکن ہے جسکے بغیر معاشرے کی رونقیں اور رنگینیاں کسی کام کی نہیں ہوتیں ۔بہت سے افراد مل کر معاشرہ تشکیل کرتے ہیں اور اسی معاشرے کے چلانے کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں مثال کے طور پر ایک معاشرہ جس میں 200لوگ ہیں اس معاشرے میں5لوگ ڈاکٹر ہونگے، 5لوگ انجینئر ہونگے ،5لوگ زراعت سے منسلک ہونگے ،5لوگ فوج سے تعلق رکھنے والے ہونگے، 5لوگ پولیس سے ہونگے ،5لوگ بلدیاتی اداروں میں ہونگے اور 5لوگ احتساب کے ادارے سے ہونگے۔

یعنی ایک معاشرہ میں میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں فرد ہوگا تو معاشرہ ہوگا فرد نہیں ہوگا تو معاشرہ بھی نہیں ہوگا۔
اب فرد کی تربیت اہم عنصر ہے یعنی اچھے معاشرے کی تشکیل میں فرد کی اچھی تربیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

اچھی تربیت کیسے ممکن ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے ؟یقینا فرد کے وارث اور تربیتی ادارے اسکے ذمہ دار ہونگے ۔فرد کے وارث میں فرد کے والدین آجاتے ہیں اور تربیتی اداروں میں تعلیمی ادارے آجاتے ہیں ۔

جہاں افراد کی تربیت کی جاتی ہے اب اگر فرد کی تربیت اچھے انداز میں کی گئی ہے تو فرد اچھے معاشرے کی تشکیل میں سنگ میل ثابت ہوگا ،اپنی ،اپنے معاشرے کی اور ملک کی ترقی میں ایسے فرد بہت اہمیت کے حامل اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔اگر تربیت اچھے انداز میں نہیں کی گئی بلکہ ایسے انداز سے کی گئی ہے جو فرد کے معاشرے میں رہنے اور اسکے رہن سہن پر سوالیہ نشان لگادیں تو ایسے فرد اپنی ،اپنے معاشرے کی اور اپنے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں تربیت کے بعد فرد کا کردار آتا ہے اچھی تربیت کے حامل فرد کا کردار بھی اچھا ہوگا اور وہ معاشرے میں مقام بھی اعلیٰ رکھتا ہوگا۔


بعض اوقات تربیت تو اچھی ہوتی ہے لیکن کردار بُرا ہوتا ہے اس کی وجہ بُری صحبت ہوتی ہے جس میں فرد اپنے کردار کو دوسرے کردار کے ساتھ موازنہ کر رہا ہوتا ہے اور موازنہ کرتے کرتے اپنے اندر کی اچھائیوں کو مٹادیتا ہے اور برائیوں کو اپنا لیتا ہے ایسا فرد معاشرے کیلئے خطرناک ثابت ہوتا ہے اس کے برعکس ایسا فرد جسکی تربیت اچھی نہ ہوئی ہو لیکن اُس نے اچھی صحبت میں رہتے ہوئے اپنے اندر کی برائیوں کو ختم کر کے اچھائیوں کو اپنا لیا ہو ایسا فرد معاشرے میں کارگر ثابت ہوتا ہے فرد میں آپ بھی فرد ہو فرد میں میں بھی فرد ہوں فرد میں بلوچستان میں رہنے والا بھی فرد ہے فرد میں سند ھ میں رہنے والا بھی فرد ہے فرد میں پاکستان کا ہر شہری فرد ہے ۔

فرد جُرم کرے گا تو فرد کو سزا ہوگی فرد بُرے کام کرے گا فرد کی ذلت ہوگی فرد اچھے کام کرے گا فرد کی عزت ہوگی ۔فرد حلال کی روزی کمائے گا دنیا اور آخرت میں کامیابی پائے گا فرد حرام کی کمائی کھائے گا کسی کا حق کھائے گا تو اس دنیا میں بھی بے سکون ہوگا اور آخرت میں بھی ناکام ہوگا۔
فرد کی تربیت اور کردار کے بعد فرد کی ذمہ داریاں آتی ہیں جن کو نبھانا فرد کیلئے ضروری ہوتا ہے فرد کو اللہ پاک نے لکھنے کی صلاحیت دی ہے فرد کو چاہیئے کہ کبھی ایسا نہ لکھے جس سے کسی کو تکلیف ہوکسی کی دل آزاری ہو فرد کے لکھنے سے دوسرے فرد غلط راستے پرنہ چل پڑیں،گناہ کرنا نہ شروع کر دیں،فرد کے لکھنے سے معاشرے میں بگاڑ نہ پیدا ہوجائے۔

فرد کو اللہ پاک نے بولنے کی صلاحیت دی ہے توفرد ایسا نہ بولے کہ کسی کی عزت ہی اتار کے رکھ دے فرد ایسا نہ بولے کہ اسکے بولنے سے معاشرے میں امن کی فضاء برقرار نہ رہے ۔فرد کو اللہ تعالیٰ نے مہارت دی ہے تو فرد مہارت کو مثبت اندازمیں استعمال کرے ۔
اب فرد کی تلقین اور تنقید کا مرحلہ آجاتا ہے یہ وہ مرحلہ ہے جس میں فرد تربیت حاصل کر چکا ہوتا ہے کردار سازی اور ذمہ داریاں نبھا رہا ہوتا ہے اب وہ دوسروں پر تنقید اور تلقین کا فن سیکھتا ہے ۔

آج کل فرد کے اندر تلقین تو بہت کم لیکن تنقید بہت زیادہ دیکھنے میں آتی ہے، کوئی بھی فرد ہو خواہ اسکا معاشرے کی ترقی میں کردار ہے یا نہیں تنقید کرتا نظر آتاہے ۔فرد معاشرے میں ایک سائبان کی حیثیت رکھتا ہے اور سائبان کا آئینہ ہے گریبان۔
یعنی فرد کو اپنے گریبان میں جھانکنا بہت ضروری ہے وہ تنقید یا تلقین جو ہم دوسرے کیلئے ضروری سمجھتے ہیں کیا وہ فرد کے لئے خود ضروری نہیں۔

فرد خود جرم کرتا ہے پھر خود ہی معافی کا طلبگار ہوتا ہے ۔فرد خود امن خراب کرتا ہے اور پھر خود ہی امن کا دعویدار بنا پھرتا ہے ۔فرد خود لوگوں کو زندگیوں کا سکون غار ت کرتاہے پھر خود ہی اللہ تعالیٰ سے سکون کی زندگی مانگ رہا ہوتا ہے ۔اگر ہر فرد اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اپنے اندر کی صفائی کرے،کسی بھی جرم کا سبب نہ بنے ،کسی کے ساتھ بُرا سلوک نہ کرے ،کسی کا بُرا نہ سوچے تویقینا معاشر ے کی ترقی ممکن ہوسکتی ہے ۔


فرد وہ بھی ہے جو حرام کے کروڑوں روپے کھا کر چین سے سوجاتا ہے اور فرد وہ بھی ہے جو حلال کے 200روپے کمانے کے بعد بھی نیند کو اپنے بچوں کیلئے قربان کر دیتا ہے ۔دونوں میں فرق اتنا ہے کہ حرام کے کروڑوں روپے رکھنے والے فرد کو لاکھوں کی دوایاں کھانے کے بعد بھی آرام نہیں آتا جبکہ حلال کے200روپے کمانے والے کو 5روپے کی گولی سے بھی آرام آجاتا ہے ۔اللہ پاک ہمیں ایسا فرد بنائے ایسا سائبان بنائے جس کے اندر گریبان میں جھانکنے کی صلاحیت ہو اور حرام کے کروڑوں روپے کمانے کے بعد دنیا میں ذلت و رسو اہونے کی بجائے حلال کے پیسے کماکر پر سکون زندگی گزارنے والا بنائے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :