‎بولتی آنکھیں

ہفتہ 5 دسمبر 2020

Sana Sheikh

ثناء شیخ

یہ واقعہ میرے ساتھ کچھ دن پہلے پیش آیا۔ رات کے نو بجے تھے ۔ چاند اپنی چاندنی ہر سو بکھیرے ہوئے تھا۔ تارے آسمان میں ایسے جگمگا رہے تھے جیسے ہمیں منہ چڑا رہے ہوں۔ میں اپنے کچھ عزیز دوستوں کے ساتھ ایک ریستورنٹ میں موجود تھی۔ کھانے پینے اور خوش گپیوں کے بعد جب میں گاڑی کی طرف بڑھی تو میری نظر ایک ایسے منظر پر پڑی کہ جس کو دیکھ کر مجھے اپنے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔

وہ منظر ہمارے معاشرے کے ایک ایسے پہلو کی عکاسی کررہا تھا کہ جس کو ہم جانتے ہوئے بھی اس سے انجان بن جاتے ہیں۔ میری گاڑی کے قریب ایک چھوٹا سا بچہ بیٹھا ہوا تھا جس کی نظریں میرے ہاتھ میں موجود  پیک کھانے پر مرکوز تھیں۔ ان آنکھوں سے ٹپکتی بھوک کو سمجھنے کے بعد میرے قدم وہیں منجمد ہوگئے۔

(جاری ہے)

اور اس وقت میرے ذہن میں جس خیال نے سب سے پہلے گردش کی وہ یہ کے جو کھانا میرے ہاتھ میں ہے اس پر اس بچے کا حق ہے۔

اس کی بولتی انکھیں مانو چیخ چیخ کر میرے اندر کے مرے ہوئے ضمیر کو جگا رہی تھی۔ بلآخر میں وہ کھانا اس کو دے کر اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ گھر جاتے ہوئے میں مسلسل گاڑی کی کھڑکی سے نظر آتی روڈ لائٹس پر نظر جمائے یہ سوچنے میں گم تھی کہ کیا ہم اپنے اردگرد سے اتنے ناواقف ہیں کہ جہاں ہم ہر روز کتنا کھانا ضائع کرتے ہیں وہیں ہمارے اردگرد ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔

یہ سوچتے ہوئے کب گھر آیا پتہ ہی نہیں چلا۔ رات  گہری تھی اور اپنے اندر سمائے ہوئے سینکڑوں رازوں پر پردہ ڈالے اس بات کی واضح دلیل پیش کر رہی  تھی کے امیدوں سے بھری ایک نئی صبح کا آغاز ضرور ہوگا۔ اس دن کے بعد میری زندگی بدل گئی ہے۔ غربت ہمارے ملک کا ایک ایسا مسئلہ ہے کے جس پر بات تو کی جاتی ہے لیکن اس کا حل کچھ نہیں ہے۔ میرے شہر  میں آج بھی غربت کی ایسی ایسی داستانیں موجود ہیں کہ جن کو سننے کے بعد کسی بھی انسان کا دل خون کے آنسو روئے اور کچھ جو بہت کمزور دل کے مالک ہوں وہ تو شاید ڈوب مرنے کو ترجیح دیں۔

جب سڑک کے کنارے میں کسی بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے دیکھتی ہوں تب مجھے اس ملک کی غربت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب کسی اشارے پر کوئی بچی میری گاڑی کا شیشہ صاف کرنے آتی ہے تو مجھے اس ملک کا مستقبل تاریک دیکھائی دیتا ہے اور ان لوگوں کا تو کوئی پرسانِ حال نہیں جو ان کی طرح سڑک پر آکر خود کو سب کے سامنے کھول کر نہیں رکھتے بلکہ اپنی عزت کا خیال کرتے ہوئے اپنے گھر میں رہنا بہتر سمجھتے ہیں۔

اس ملک کی غربت تو چیخ چیخ کر اپنے ہونے کی وعید سناتی ہے پر اگر ہم دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان رکھتے تو آج ہم اس موڑ پر نا کھڑے ہوتے۔ ہر سال تھر میں کئی بچے کھانے
‎کی کمی کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ غربت کا بڑھنا ایک طرح سے بہت سے جرائم کو فروغ دیتا ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ “ غربت اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے”۔

پاکستان کی غریب عوام بہت سالوں سے اس کہاوت کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ برسراقتدار حکومتوں نے مہنگائی کی شرح کو کم اور غربت کو ختم کرنے کیلیے بہت سے اقدامات اٹھائے لیکن مظبوط لائحہ عمل نا ہونے کی وجہ سے عربوں روپے ضائع ہوگئے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج غریب ، غریب سے غریب تر ہوگیا ہے اور درمیانے طبقے کے لوگ بھی غریب میں شمار ہونے لگے ہیں۔ پیٹ میں روٹی نا ہونے کی وجہ سے آج ہر جگہ سٹریٹ کرائم عام ہے ۔

کہ جب ایک انسان پر بھوک غالب آجائے تو وہ صرف روٹی ہی کماتا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ چوری کر کے کمائی ہے یا مزدوری کر کے۔ حلال اور حرام میں فرق کیے بغیر وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے میں لگا ہوا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کے چاہے ہم ایک روٹی دیں لیکن کسی ایسے کا پیٹ ضرور بھریں جو ہم سے مانگ نہیں سکتے ۔ اس عمل سے نا صرف اچھے انسان بن سکیں گے بلکہ ایک اچھے معاشرے کو بھی تشکیل دے پائنگے۔
‎ایک آس ہے ایسی بستی ہو
جہاں روٹی زہر سے سستی ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :