لاہور میں ایک شاندار تقریب

منگل 11 اگست 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

داتا کی نگری لاہور ہمیشہ سے علم ادب اور سیاسی و مذہبی تحریکوں اور ان کی کامیابیوں کامرکز رہی ہے۔پچھلے دنوں لاہور میں عقیدہء اہل سنت، مقام سیدہ کائنات اور شان صدیق اکبر کے عنوان سے ایک عظیم الشان اور فقید المثال کانفرنس منعقد کی گئی جو کئی حوالوں سے اپنے اندر امتیازات کی شان لئے ہوئے تھی۔پہلی بار اتنی کثیر تعداد میں محافل کی زینت بننے والے قراء کرام ،نعت خوان حضرات اور نقباء ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔

نمائندہ علماء کی بھی ایک قابل ذکرتعداد موجود تھی،مشائخ کی نمائندگی اور دیگر اہل علم و دانش کی بھی ایک کہکشاں اس کانفرنس میں شریک ہوئی۔ اس یاد گارکانفرنس کونعت کونسل انٹرنیشنل اور ادارہ منہاج القرآن کے باہمی تعاون سے منعقد کیا گیا۔ تقریب کے منتظم اعلیٰ سید حسنین محبوب گیلانی صاحب مسند حلقے کی فعال اور متحرک شخصیت ہیں۔

(جاری ہے)

انہیں محافل کے حلقے میں بہت قدر اور محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ان کے والد گرامی کی خدمات فروغ نعت خوانی اور محافل کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہیں اور انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے ان کے مشن کو باوقار انداز سے جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔دیگرمنتظمین میں نامور نقیب قاری محمد یونس قادری، ممتاز ثناء خواں محمد افضل نوشاہی اور شہزاد حنیف مدنی نے اپنے اپنے حلقے کے لوگوں سے رابطے اور انتظامات کو بہتر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

محترم خلیل ملک کا نام دینی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے جوتقریب میں نامور اور گراں قدر شخصیات کو مدعو کرنے کے ساتھ ساتھ اسے انتظامی لحاظ سیباوقار بنانے میں پیش پیش تھے ۔کانفرنس کا حاصل وہ گفتگو تھی جس کومضبوط اور مدلل علمی پیرائے میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بیان کیا۔بلا شبہ اپنی بے مثال علمی وجاہت،لازوال زورخطابت اور دینی مسائل کی گہرائی میں اتر کر اسے سہل زبان میں سمجھانے میں انہیں ید طولیٰ حاصل ہے جس کی مثال ان کی اس دن کی جانے والی گفتگو میں جھلک جھلک جا رہی تھی۔

انتہائی نازک اور اہم معاملے کی گتھی کو انہوں نے جس خوبصورتی سے سلجھایا اور اس کی علمی توجیہات بیان کرتے ہوئے اس کی جزئیات کو جیسے کھول کر سامنے رکھا اس سے صاحبان علم و شعور اور سادہ فہم رکھنے والوں نے بیک وقت استفادہ کیا ۔کرونا کی پابندیوں کے سبب یہ عمومی اجتماع نہیں تھا لیکن تقریب میں موجود ہر فرد اپنی اپنی جگہ بصورت انجمن موجود تھا۔

بلا شبہ یہ ایک خوبصورت اور یادگار محفل تھی جس میں تلاوت و نعت و منقبت کے زمزمے بلند ہوتے رہے۔ کانفرنس کاعنوان دراصل محافل سے قدرے مختلف ہوتا ہے اور اس کیلئے کچھ اہداف اور مقاصد کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے جس کا کوئی نمایاں ذکر اس دن سنائی نہیں دیا۔اس سے چند روز قبل بھی ایک حلقے کی طرف سے کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں بعض حضرات کی طعن و تشنیع پر مبنی گفتگو نے بہت سے سوالات پیدا کئے جو پریشان کن تھے۔

اس تناظر میں اگر کہا جائے کہ اس تقریب نے خاصا مثبت پیغام دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔اس کانفرنس کے بعد بھی اطراف میں ایسی ہی نوعیت کیتقریبات کی گونج سنائی دینے لگی ہے جس سے ایک مقابلے کی فضا پیدا ہوتی بھی دکھائی دے رہی ہے۔ایسے اجتماعات میں اپنے اپنے شعبے سے منسلک نمائندہ شرکاء کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محافل کے حوالے سے کچھ اہم امور پر بھی توجہ دلائی جاتی تو یہ بہت سود مند ہوتا ۔

مذہبی سٹیج بہت ذمہ داری کا تقاضا کرتے ہیں ،یہاں پر بولے جانے والے ایک ایک لفظ کو بہت ناپ تول کر ادا کرنا چاہئے اور اپنی حدود و قیود اور دائرہ کار کاادراک رکھتے ہوئے بات کرنی چاہئے۔محفل کے آخر میں پڑھے گئے منقبت کے ایک شعرجس پرمحفل میں توداد و تحسین سے نوازا گیا لیکن سوشل میڈیا پہ بہت شور برپا ہو گیا۔معاملے کی نزاکت اور حساسیت کادھیان کئے بغیر اسے دونوں طرف سے غیر دانشمندانہ طریقے سے اچھالا گیا اور آخر کاراس کی وضاحت کا ویڈیو بیان جاری کرنا پڑا۔

نعت و منقبت جیسی شعری اصناف میں طبع آزمائی کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ کوئی بھی ایسا لفظ جس کو کوئی اختلافی معنی بھی نکلتے ہوں برتنے سے گریزلازم ہے جس کی دلیل ہمیں قرآنی حکممیں ”راعنا“ اور ”انظرنا“ کے فرق سے سمجھ لینی چاہئے۔ایسی کانفرنسز میں سنجیدہ نتائج کے حصول اورانہیں زیادہ سے زیادہ ثمر آوربنانے کے لئے کچھ اہداف قرار داد کی صورت ضرورپیش کرنے چاہئیں جس سے غیر سنجیدہ ماحول و معاملات میں تبدیلی لائی جا سکے۔

اہل سنت کا عقیدہ ایک حسن توازن اور اعتدال کا داعی ہے جس میں کسی طرف افراط و تفریط نہیں بلکہ ایک حدمیزان قائم ہے اور یہی اس کی جازبیت کا سبب ہے۔اللہ کرے کہ ہمارے ثناء خوان اورخصوصاً نقباء اس میں اپنا اپنا مثبت اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے اس توازن کو محافل میں قائم رکھنے کی عملی سعی کریں تا کہ اس کے اصل رنگ کو پھر سے اجاگر کیا جا سکے ۔

وہ ہستیاں جو بہر آن ہماری عقیدتوں،محبتوں اور احترام کا مرکز ہیں ان کے نام پر محافل میں سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا اب ترک کر دیناچاہئے۔ہمارے غیر معتدل اور غیر محتاط روئیے کے سبب ہم پہ اٹھنے والی انگلیاں سو فیصد درست نہیں توانہیں مکمل طور پہ غلط بھی نہیں کہا جا سکتا۔مجموعی روئیوں میں تبدیلی انفرادی سطح پہ آغاز کئے بغیر ممکن نہیں سو اب مزید دیر مت کیجئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :