سال 2020 انسانی المیے کا سال

بدھ 30 دسمبر 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

سال 2020 نے بلا شبہ انسانیت کو جھنجھوڑ بلکہ نچوڑ کر رکھ دیا۔اسے اس صدی کے جدید علوم و فنون سےلیس اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی  پر نازاں دنیاکے لئے بحیثیت  مجموعی المیے کا سال کہا جائے تو بے جا نہ  ہو گا۔وبائیں،بلائیں،آفات،مصیبتیں،مشکلات ہمیشہ آتی رہتی ہیں لیکن ایسا شاید پہلی بار ہوا کہ اس کرۂ ارض پر بسنے والا ہر انسان اس کی زد اور لپیٹ میں ایک ساتھ ہی آیا۔

یہ کسی خاص خطے،ملک،قوم اور علاقے یا مذہب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ سانس لیتے ہوئے ہر ذی روح نے اس کے اثرات کو محسوس کیا۔ قوموں پر مختلف نوعیت کے حادثات گزرتے رہتے ہیں جس پر دوسرے لوگ اظہار افسوس بھی کرتے ہیں،ان کی امداد بھی کرتے ہیں لیکن اس بار تو کوئی ایسا نہیں تھا جس نے  مدد کے لئے ہاتھ بلند نہ کئے ہوں۔

(جاری ہے)

فراٹے بھرتی ہوئی انسانیت جامد و ساکت ہو کے رہ گئی،فضاؤں میں اڑان بھرتے ان گنت جہازوں کے قدم زمین نے جکڑ کے رکھ دئیے، سمندروں کو چیرتے ہوئےبلند قامت بحری بیڑوں کو ساحلوں کی مضبوط زنجیروں سے باندھ دیا گیا، زمینی راستوں پہ دوڑتی پھرتی  لاتعدادگاڑیوں  کو گیراجوں میں بند کر دیا گیا اور  انسانوں کے ہجوم حجرہ نشین ہو کے رہ گئے۔

اور بقول شاعر یہ صورت حال ہوگئی کہ  :۔
اب تو خطرے کی کوئی بات نہیں
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
اس نظر نہ آنے والے جرثومے کے ہاتھ دنیا کی طاقتور ترین قوموں کے حکمرانوں کے گریبان تک بھی پہنچے اوروہ اس کے سامنے  بے بس  و لاچار دکھائی دئیے۔میڈیکل سائنس،جدید ٹیکنالوجی،علوم و فنون کے تعمیر کئے گئےفلک شگاف مینار زمین بوس  ہو کے رہ گئے۔

بے پردگی کو انسانی آزادی کانام دینے والے بھی چہرے  اور جسم ڈھانپنے پر مجبور ہو گئے۔قدم قدم اختلاط و بغلگیر ہونے والے بھی سماجی فاصلے کا راگ الاپتے دکھائی دئیے۔ ہنستی کھیلتی بستیوں کو ا طاقت کے زور پر کرفیو سے بند کرنے والوں کو لاک ڈاؤن میں خود اس کی اذیت کو براہ راست محسوس کرنے کا موقع ملا۔ اس سال میں پیش آنے والی صورتحال کو ہم خاص طور پہ عالم اسلام اور پھر وطن عزیز کو درپیش صورتحال کے تناظر  میں  دیکھیں تو سب سے بڑا دکھ ہماری  عبادت گاہوں اور خصوصاحرم پاک کا بند ہونا تھا جوابھی تک  اپنی اصل حالت میں بحال نہیں ہو سکا۔

ہماری شفاوں اور دعاؤں کے مراکز  کی عملی طور پرمکمل بندش نے ہمارے ایمان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا  اور ان مراکز کی کسی وبائی مرض کی وجہ سے اتنے طویل عرصے تک بند رہنے کی غالبا ً یہ پہلی مثال تھی۔اس دوران رمضان المبارک کا وہ مہینہ بھی گزر  گیا جس میں کائنات کا سب سے بڑا دسترخوان  رحمت عالمؐ کے روضۂ اقدس پہ سجتا تھا جس پر بیٹھنے کے شرف سے سرفراز ہونے کیلئے دنیا بھر سے اہل ایمان کے قافلے   کھنچے چلے آتے ہیں۔

مسلمانوں کے عظیم الشان  اور پرشکوہ اجتماع حج کا زمانہ بھی  اسی کی نذر ہو گیا۔المیہ یہ ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے  اسلامی دنیا  کو مل بیٹھ کر کوئی مربوط اور مضبوط لائحۂ عمل  طے کرکے اس کی شان و شکوہ کو کسی صورت اور کسی حد تک قائم وہ دائم رکھنے کی ضرورت تھی لیکن اسے  ضروری نہیں سمجھا  گیا۔ افسوس کہ نہ تو حرمین شریفین کے منتظمین اور نہ ہی پوری اسلامی دنیا سے اس اہم ترین مسئلےپر کوئی آواز اٹھائی گئی جو اہل ایمان کے لئے اس صدی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

ا س وبائی مرض سے ۱۸ کروڑ انسان متاثر ہوئے اور ۱۸ لاکھ کے قریب  ہلاکتیں اب تک  ریکارڈ کی  جا چکی ہیں۔ہمارے دین ، ادب اور نعت سے وابستہ    نمائندہ شخصیات بھی اسی وبا کے دوران  ہم سے بچھڑ گئیں جن میں عشق رسول کی گرمی سے دلوں کو ولولے دینے والے علامہ خادم حسین رضوی،ممتاز نعت نگاراعجاز رحمانی،جدید لہجے کے خوبصورت شاعر اور عزیز دوست عمران نقوی ،ادب پرور جواں سال  شاعر ڈاکٹر ذوالفقار دانش، حمد و نعت کا معتبر حوالہ خورشید بیگ میلسوی، علم وادب کا روشن چراغ  ڈاکٹر انوار احمد زئی،نعت خوانوں میں  فرزند اعظم چشتی ارشاد اعظم چشتی، محبوب ثنا خواںمحبوب ہمدانی، نوجوان شرافت حسین قادری،میاں تنویر قندھاری، خدمت گزار نعت بابا محمد یوسف ورک اورہر دلعزیز  درویش صفت قاریٔ قرآن قاری کرامت علی نعیمی بھی  اس سال اپنے مالک کے حضور حاضر ہو گئے۔

اس سال نے جاتے جاتے بھی اردو ادب کے لازوال محقق نقاد اور دانشور ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی کو بھی ہمراہ لے کر ہمراہ لے لیا۔ اس سارے نوحے کے بعد ہماری نظر اس صورتحال کے ان پہلوؤں پر بھی ہونی چاہئے جس میں کہیں  نہ کہیں روشنی کی کرن پھوٹتی دکھائی دے رہی ہے ۔یعنی اس دوران خدا کی بنائی خوبصورت زمین کو کچھ دیر سانس لینے کا موقع ملا، آسمان کو جہازوں کی اڑان سے آلودہ کر دینے والی فضا بھی صاف و شفاف نظر آنے لگی،سمندری مخلوق کو بھی انسانی مشینوں کے شور اور دھوئیں سے نجات ملی،مصنوعی ترقی پر اترانے والے انسان کو اپنی اوقات اور بے بسی کا ادراک ہوا۔

رشتوں کو ایک دوسرے کے قریب بیٹھ کر ان کو جاننے کا وقت ملا اور سب سے بڑھ کر ہمارے اندر خود اپنے ہونے کا احساس اجاگر ہوا۔ہم لوگ مادیت پرستی کے اس طوفان میں اپنے خالق و مالک سے دور ہوئے،ایک دوسرے سے دور ہوئے اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ سے بھی دور ہوئے۔ اس وقت نے ہمیں ان سب کے قریب ہونے کا موقع فراہم کیا کہ ہم اب نئے سرے سے اپنی زندگی کے روز و شب کا جائزہ لیں اور اس زحمت کو رحمت میں بدلنے کا سامان کرنے کی کوشش کریں۔قدررت  نے اپنی طاقت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی ہے اس کو جان کر اس کی طرف لوٹ جانےکا اہتمام کریں۔اللہ کرے کے آنے والا سال پوری انسانیت کے لئے پیغام  امن و عافیت لے کر آئے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :