کتاب خرید کر پڑھیں

بدھ 9 جون 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

پچھلے دنوں ایک واٹس ایپ گروپ میں ادبی اور خصوصا نعتیہ کتب کی خریداری کے حوالے سے بات ہو رہی تھی جس میں مختلف آراء سامنے آ رہی تھیں۔زیادہ تر حضرات شکوہ کناں تھے  کہ تخلیق کار کو اپنی کتاب خود ہی چھپوانی اور تقسیم کرنا پڑتی ہے ۔لوگوں میں کتاب کی اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور ہم فضولیات پر ہزاروں روپے خرچ کر کے آخر کتاب  ہی کیوں مفت  وصول کرنا چاہتے ہیں۔

کتاب بینی  کے معاملے میں ایک طبقہ تو وہ ہے جو بہر صورت مصنف کی طرف سے کتاب تحفتاً  وصول کرنے کو اپنا استحقاق سمجھتا ہے حالانکہ یہ حق صاحب کتاب کا ہے کہ اسے کس کو کتاب دینی ہے۔اس میں دوسرا طبقہ وہ ہے جو کتاب پڑھنے کا شوق بھی رکھتا ہے اور خریدنا بھی چاہتا ہےلیکن اس بات پر بضد ہے کہ بہر صورت کتاب اصل خرچ بمعہ ڈاک پر ہی خریدیں گےاور اس کے اوپر ایک پیسہ بھی نہیں دیں گے۔

(جاری ہے)

سوچ کا یہ اندازعجیب توہے  لیکن کم از کم اول الذکر سے تو بہتر ہے۔لیکن کیا یہ رویہ ہم بازار سے خریدنے والی ہر چیز کے حوالے سے اختیار کرتے ہیں کہ چیز کو اصل خرچ پر ہی خریدیں گے وگرنہ نہیں۔تخلیق کار کو چند روپوں کا ہونے والا فائدہ ان کی نظر میں کسی طور درست نہیں اور یہ کتاب کے قاری کے ساتھ لوٹ مار کار طریقہ ہے حالانکہ بکنے والی چند کتابوں کی صورت میں کسی بھی طرح اخراجات کا پورا ہونا بھی ممکن نہیں کیونکہ مصنف کو بہر حال کتابوں کا ایک حصہ تو تحفتاً دینا  ہی ہوتا ہے۔

جو لوگ اس بات پر بضد ہیں کہ بس اصل خرچ بتائیں اور کتاب حوالے کریں توایسی سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔اگر پچیس فیصد لوگ کتاب خرید بھی لیں  تو تب بھی ۷۵ فیصد کا خرچ تو پورا نہیں ہوتا ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا یہ رویہ محض ادبی کتب کی خریداری کے حوالے سے ہی کیوں ہے جبکہ روزمرہ کے معمولات میں ہم بے دریغ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں۔

کتاب اگر آپ کی ضرورت ہے آپ مطالعے کے شوقین ہیں تو آپ کو ضرور اسے خرید کر پڑھنا چاہئے اور دوسری طرف ہر کتاب ہر قاری کے لئے نہیں ہوتی اور وہ اسے تب ہی خریدنے کا سوچے جب اس میں کچھ ایسا ہو گا جو اس کے لئے کشش رکھتا ہو۔ مصنف یا مرتب کتاب کی   اشاعت تک بہت طویل اور صبر آزما مراحل سے گزرتا ہے جس میں سب سے پہلے تخلیق کا دشوار گزار سفر جس میں راتوں کی نیند اور خون جگر صرف ہوتا ہے ۔

اس  کے بعد اسے  کتابی شکل دینے کے لئے رقم کا انتظام  اورکسی مناسب پبلشرکی تلاش  بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ان  حضرات کی طرف سے کی  جانے والے زیادتیوں کے واقعات سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔مکمل رقم کی فوری فراہمی اور اس کے بعد ایک طویل انتظار اور پبلشر کے پیچھے  پیچھے  منت سماجت کا ایک طویل سلسلہ ۔مارکیٹ میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں لیکن بیشتر پبلشر حضرات  مصنف سے نقد رقم لے کر مارکیٹ سے ادھار کام کرواتے ہیں جس کے آگے  بس خاموشی ہی بہتر ہے ۔

کتاب کی تعداد جتنی بتائی جاتی ہے عموماً اتنی نہیں چھپتی اور یہاں بھی تخلیق کار ہی مارا جاتا ہے کہ اس سے پانچ سو کتابوں کے پیسے وصول کر کے تیس سو  یا بعض اوقات اس سے بھی  کم چھاپی جاتی ہے اور مصنف کو بتایا جاتا ہے کہ پورے پاکستان میں باقی کتاب بھجوا دی گئی ہے۔ یہ سلسلہ بہت دور تلک جاتا ہے مگر ہم اس سلسلے میں کچھ  قابل عمل تجاویز پر غور کرتے ہیں تا کہ ادبی اور خصوصا ً نعتیہ کتب اور  کی ترسیل کا نظام کچھ بہتر ہو سکے۔

ایک کام کا آغاز تو جناب حفیظ تائب نے  کیا  کہ نیشنل پائپ کے تحت ہونے والی بہت بڑی  محفل میں کسی نہ کسی کتاب کا انتخاب کر کے منتظمین کو اس بات پر قائل کیا کہ اس کی کاپیاں خرید کر مہمانوں  اور ثناخوانوں کو پیش کی جائیں جو سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ہماری محافل میں لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور اس بجٹ میں اگر فروغ نعت کا حصہ بھی رکھ لیاجائے تو نعتیہ کتب کے خریدار اور مصنف پر اٹھنے والا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔

دوسری صورت ایسے سوشل میڈیا گروپ تشکیل دینے کی ہے جس میں صرف کتاب کے قارئین شامل ہوں جو اچھی کتاب کا ذوق رکھتے ہوں ۔ان گروپس میں کتب کے شائع ہونے کی اطلاع اور ملنے کا رابطہ موجود ہو جہاں ہر کوئی اپنی پسند کی کتاب خرید سکے۔دوسری طرف کتب کی قیمت اتنی زیادہ  نہ رکھی جائے جو عام قاری کے لئے ادا کرنی مشکل ہو ۔ حکومتی سطح پر حمد ونعت کی کتب کی ترسیل کا ایک نظام ضرور بننا چاہئے جس کے لئے وزارت مذہبی امور  کتب کو ایک خاص مرحلے سے گزارنے کے بعد اگر وہ اس معیار پر پورا اترتی ہوں تو انہیں تمام حکومتی اداروں اور لائبریریز میں پہچانے کا بندوبست کرے  اوریہ سلسلہ مرکز کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر بڑھایا جائے۔

اس سے ان کتب کی ایک اچھی خاصی تعداد ردی ہونے سے بھی بچ کر کتب خانوں میں محفوظ بھی ہو جائے گی اور تخلیق کار بھی کسی حال تک آسودہ ہو سکے گا۔حیرت ہے کہ آج تک یہ بات عملی طور پر سامنے نہیں آ سکی کہ کم از کم صوبائی و قومی سطح پر انعام کی حقدار ٹھہرنےو الی کتب کو ہی قومی دھارے میں شامل کر لیا جائے تا کہ وہ تمام اہم کتب خانوں کی زینت بن سکیں اس کے ساتھ ساتھ ان پر ملنے والی انعامی رقم کا حجم بھی بڑھانے کی ضرورت ہے جس سے مصنف کے کتاب پر آنے والے اخراجات ہی پورے  ہوجائیں۔

معاشرے علم کے فروغ سے مہذب ہوتے ہیں اور کتاب ذہن سازی ، تہذیب شناسی اور ادب پروری کا بنیادی ماخذ ہے۔اس کو اہمیت دیجئے تا کہ آپ کو زندگی میں اہم  سمجھا جائے ، ان سے پیار کیجئے کہ آپ محبت کے قابل ہو سکیں اور ان پر خرچ کیجئے کہ آپ کی عزت و وقار کے دام بڑھ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :