حفیظ تائب ایک ہمہ جہت شخصیت

منگل 15 جون 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

 13 جون جناب حفیظ تائب کا یوم وصال ہے جو  نعت کے حوالے سے پاکستانی ادب میں نمایاں ترین حوالے کے طور پرہمیشہ جانے جاتے رہیں گے ۔نعت کا فن جس سنجیدگی، متانت ، حلم، بردباری، عجز و انکسار اور دیگر شخصی اوصاف کا تقاضا کرتا ہے وہ انہیں توفیق ایزدی سے نعمت کی صورت ودیعت کئے گئے تھے جن میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ایک قابل قدرنقاد کا کہنا ہے کہ "اگر آپ جاننا چاہیں کہ نعت کیسی ہونی چاہئے تو حفیظ تائب کی نعتیں پڑھ لیں اور اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ نعت نگار کو کیسا ہونا چاہئے تو حفیظ تائب سے ملاقات کر لیں"۔انہیں اپنے شعبے میں جتنی شہرت ملتی گئی اتنی ہی ان کی نیازمندی بھی بڑھتی چلی گئی، جتنی وقار میں بلندی آتی گئی اتنا ہی انکسار میں بھی اضافہ ہوتا گیا، لوگوں کی محبت جوں جوں فزوں تر ہوتی گئی اتنا ہی تحمل و بردباری بھی کئی گنا بڑھتی گئی۔

(جاری ہے)

علم و فن میں جتنا کمال آتا گیا لہجے میں مٹھاس اور طبیعت کے گداز  میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوتا گیا۔ نعت کے فن سے محبت نے ان میں دھیما پن کی ایسی شان پیدا کر دی تھی جو دراصل ان کی اٹھان کا سبب بنتی چلی گئی جسے انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنی شخصیت اور کردار کا آئینہ بنایا۔ عموما ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کا فن میں مقام بن جائے تو فنکار کی فنی ریاضت کم ہو جاتی ہے لیکن حفیظ تائب اس معاملے میں آخر دم تک حساس رہے ۔

  ایک ایک لفظ کو ناپ تول کر لکھنا اور اس کے مزاج سے آشنا ہو کر جب تک اپنی طبیعت مطمئن نہ جاتی تب تک اس حوالے سے سوچتے رہتے ۔اسی لئے ان کی شاعری کے حوالے سے  یہ مضبوط تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کے کہے ہوئے مصرعے سے کسی لفظ کو ہٹا کر اس کی جگہ  کوئی اور لفظ لگانے سے شعر کا حسن قائم نہیں رہتا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ  الفاظ کے ممکنہ مترادفات اور متبادل پر کس حد تک  غور وفکر کر کے موزوں ترین لفظ کا انتخاب کرتے تھے۔

اسی لئے ان کی شاعری  کو اہل علم کے ہاں معیار کے اعتبار سے نعتیہ ادب میں حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے کام کو نئی نسل مشعل راہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ حفیظ تائب  کابطور شخصیت   ایک اہم کارنامہ اپنے عہد کے نمائندہ شعراء اور نوجوان لکھنے والوں میں نعت کی تحریک پیدا کرنا بھی تھا۔ انہوں نے معاصرغزل گو جن میں احمد ندیم قاسمی جیسے نابغہء عصر بھی شامل تھے نعت کی طرف مائل کیا۔

غزل گو شعراء میں نعت کہنے کا رجحان پیدا کرنا ان کا شاندار کارنامہ ہے۔ نعت گوئی کا معاملہ چونکہ بہت حساس ہے اس لئے بیشتر شعراء سوئے ادب ہو جانے کے خوف سے نعت لکھتےہوئے گھبراتے تھے تو اس صورتحال میں وہ اس بات سے تسلی دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ نعت تو بارگاہ رسالت میں حاضری کی ایک صورت ہے تو آپ خود کو کیوں اس عظیم نعمت سے محروم رکھتے ہیں اور یوں پورا عہد نعت کے نور سے فیض یاب ہوتاچلا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نئے لکھنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی  بھی کی۔ ان کے کلام کو نکھارنے اور سنوارنے میں اپنا بہت سا وقت صرف کیا۔پاکستان بھر سے ان کے پاس چھپنے والے نعتیہ مجموعوں کے مسودوں کا ہر وقت ڈھیر لگا رہتا تھا جسے وہ بڑے شوق سے عبادت سمجھ کر دیکھتے تھے۔ ان کے دور میں چھپنے والا شاید ہی کوئی نعتیہ مجموعہ ہو جس میں ان کے تحسینی کلمات شامل نہ ہوں۔

پیشوائیوں کے عنوان سے انہوں نے درجنوں کتابوں پر مضامین اور آراء لکھیں جو اب الگ سے جمع ہو کر چھپنے کے مراحل میں ہیں۔ان کی شخصیت کا ایک نہایت اہم پہلو ایک ایسی بیماری کے ساتھ طویل سفر ہے جس کے نام سے ہی  لوگ مایوسی اور کم ہمتی  کا بری طرح شکار ہو جاتے ہیں۔انہوں نے کینسر کے مرض کے ساتھ کم و بیش ایک دہائی بھرپور زندگی گزاری۔اس میں ان کے معمولات روزو شب بھی  رواں دواں رہے، علاج کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا  اور احباب کی غمی خوشی میں بھی پوری فعالیت سے شریک ہوتے رہے۔

ان کے معالجین بھی ان کی  اس بیماری کے ساتھ پرعزم اور متحرک زندگی پر بہت حیران و ششدر تھے۔جب تک بیماری نے انہیں مکمل عاجز نہیں کر دیا تب تک وہ معمولات زندگی میں مکمل گرم جوشی سے سرگرم عمل رہے۔حفیظ تائب کی شخصیت کا ایک اور بہت دلچسپ  پہلو ان کے مختلف مسالک کے درمیان قابل قبول ہونا بھی تھا۔مذہبی شناخت کے حامل لوگ زیادہ تر ایک خاص حلقے کے نمائندہ بن کر ہی اپنی زندگی گزارتے ہیں لیکن حفیظ تائب کے حلقۂ ارادت میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے  اور وہ ان سب کے لئے محبت کی علامت تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ ان کا عوام و خواص میں یکساں مقبول ہونا بھی حیرتوں کے باب کھولتا ہے۔ان کی نعت نگاری کی گونج  کا دائرہ اہل علم و ادب، علماء و مشائخ،میڈیا ونشریاتی اداروں، صحافتی و قلم کار برادری  کے ساتھ ساتھ عوامی سطح کے نعت کا ذوق رکھنے والے کثیر حلقے تک پھیلا ہوا تھا جہاں ہر کہیں انہیں احترام و عقیدت سے دیکھا جاتا تھا۔اس تمام کے ساتھ ساتھ  ہم اطراف میں دیکھتے ہیں کہ کسی بھی شعبے میں عزت اور مقام پانے والوں کے اپنے اعزاء و اقارب اور اہل خانہ سے تعلقات اتنے اچھے نہیں رہ پاتے ۔

حفیظ تائب نے بطور نعت نگار اس محاذ پر بھی حضور کی سیرت سے استفادہ کرتے ہوئےکامیابی سے سفر کیا۔ان کی اولاد نرینہ نہیں تھی لیکن اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے۔ بیٹیوں کے  سسرال اور دیگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں تھا جسے ان سے  کسی حوالے سے شکر رنجی ہو۔بلا شبہ آج کے دور میں یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔رشتوں کو نبھانا اور ان کو ساتھ لے کر چلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔

ان کے  چھوٹے بھائی عبدالمجید منہاس انہیں اپنا مرشد اور رہنما گردانتے ہیں ۔ان کے نواسے نعمان تائب بڑی محنت سے ان کے کام کو کتابی شکل میں محفوظ بنانے کاکام نہایت خوش اسلوبی   سے سر انجام دے رہے ہیں۔ان کےنعتیہ کلام کے علاوہ ان کی دیگر شاعری، شخصی و موضوعاتی نظمیں اور وطن کے لئے لکھے گئے نغمات بہت اثر پذیر ہیں جن پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔

اپنی اسی شاعری پر مشتمل کتاب "تعبیر" کو انہوں نے صحافت میں بے باکی اور حق گوئی کی علامت مرحوم مجید نظامی کے نام کیا تھا۔ "حمد و نعت کی بہاریں" کے عنوان سے  نعتیہ کتب  کا سالانہ جائزہ بھی لکھتے رہے جو بہت محبت سے پڑھا جاتاتھا جس میں وہ سال بھر میں شائع ہونے والی کتابوں کا ایک تعارفی خاکہ پیش کرتے تھے ۔ وہ شخصی اوصاف اور فنی خصائص  کے حسن توازن  اور حسین امتزاج میں گندھے ہوئے آدمی تھے۔دعا ہے اللہ کریم ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کا کام آنے والی نسلوں کو نعت کے نئے آفاق دکھاتا رہے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :