انتہا پسندی کے اسباب اور سدباب

جمعہ 28 مئی 2021

Sheeba Zulfiqar

شیبا ذوالفقار

انتہا پسندی معاشرتی تنازعات کی ایک شدید شکل اور غیر معمولی رویے کی ایک انتہائی حد ہے۔ انتہا پسندی کی کوئی جامع تعریف کرنا تو ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کو مختلف مواقع پر مختلف نظریات سے پرکھا جاتا ہے مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنی بات کو حتمیت اور قطعیت کے درجے پر رکھنا انتہا پسندی ہے۔ یہ رویہ معتصب سوچ کے باعث جنم لیتا ہے اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انتہا پسندی وہ معتصبانہ سوچ ہے جسے جبراً معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے۔

سادہ سے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنی ذاتی رائے کو حتمی قرار دینا اور اس کو حرف آخر منوانے کے لئے تشدد کرنا کسی دوسرے کی رائے کو قبول نہ کرنا انتہاپسندی کے زمرے میں آتا ہے۔
ہم ایک اسلامی  ریاست میں رہتے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دین اسلام  ”اعتدال“ہے۔

(جاری ہے)

اس میں افراط و تفریط کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔  اعتدال دراصل افراط و تفریط اور انتہا و تشدد سے پاک ایک راستہ ہے جو دین ِاسلام کی طرف جاتا ہے۔

اللہ تعالی نے دین ِ اسلام کو خاص امتیازات سے نوازا ہے ان میں ایک طرہ امتیاز ” اعتدال“ہے یعنی قرآن مجید میں ارشاد ہے :
”اور ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا“۔(البقرہ: 143)
انتہا پسندی کا تصور بہت گہرا ہے۔ اس کا رجحان سب سے زیادہ فرقہ ورایت میں پایا جاتا ہے۔ جب ریاستیں اپنے نوآبادیاتی ماضی سے مخلوط معاشرے میں تبدیل ہوئیں تو رنگ، نسل، مذہب اور شخصیت کا تعین بھی ہوا۔

یہ سب وہ عوامل ہیں جو اب تک تشویش کا سبب بنے ہوئے ہیں رنگ نسل اور شخصیت کی تقسیم سے ہر دور نے جرائم کو فروغ دیا جو کسی بھی معاشرے کے زوال کا ایک بڑا سبب ثابت ہوئے۔
عوامی زندگی کے تقریباًہر شعبے میں انتہا پسندی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم ہی سے انسانی اکثریت انتہاپسند ثابت ہوئی ہے۔ اپنے مادی فوائد حاصل کرنے کے لیے تباہی ،صریحاً تشدد، دہشت گردی سمیت انتہائی ظالمانہ اور وحشیانہ اقدام اٹھائے گئے۔

سیاست، مذہب ، ماحول،فن، موسیقی ، ادب غرض ہر شعبہ ہائے زندگی انتہا پسندی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ لوگ تعصب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے لیے دلوں میں بغض رکھے ہوئے ہیں۔ مشاہدے میں آتا ہے کہ تعلیمی  اداروں ومدارس میں طلبہ اساتذہ کے لئے سیاسی یا مذہبی عقائد کی بنا پر دلوں میں بغض رکھنے لگتے ہیں اسی طرح دفاتر میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے، عملہ معمولی اختلافات سے ایک دوسرے کے لیے بغض رکھنے لگتا ہے اور یہ بغض آہستہ آہستہ دشمنی میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔

انتہا پسندی سے بچنے اور اپنے معاشرے کو بچانے کے لیے تعلیم کے نظام کو آگہی سے تعبیر کرنا ہو گا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
جو اک خلوص تھا ناپید ہوگیا احسن
غبارِبغض ہے اب دوستی کے چہرے پر
نوجوان طبقے میں انتہا پسندی کا رجحان نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں کے ذریعے ماحول میں پھیلنے والی انتہا پسندی اب زور پکڑتی جارہی ہے۔

ان کا مقصد اپنے اہداف کو حاصل کرنا ہے وہ اہداف خواہ مناسب ہوں یا غیر مناسب اس سے ان کو غرض نہیں اور وہ ہٹ دھرمی پر تلے رہتے ہیں۔نوجوانوں کے ذریعے کیے گئے انتہا پسند جرائم کی تحقیق اور اس کی روک تھام ایک حل طلب مسئلہ ہے۔
    ایک اور چیز جو سامنے آئی ہے  کہ یہ دوسرے لوگوں، طبقات، مذاہب، کلچر اور روایات کے خلاف کبھی نہ ختم ہونے والی نفرت رکھتے ہیں۔

خواتین کے حقوق کی مخالفت، تشدد اور کبھی کبھار انھیں دہشت آمیز حملوں کے ذریعے جھکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ تاریخ میں ہمیشہ انتہا پسندی کا شکار تقریبا عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ رہی ہیں تقریبا دوسرے ممالک میں بھی کم و بیش یہی صورتحال نظر آتی ہیں۔
آئے روز میڈیا خواتین پر تشدد کی رپورٹ دیتا ہے اور مرد کی عزت ِنفس کی خاطر عورتوں کو مار دیا جاتا ہے۔

مرد کی عزت کی خاطر عورت کو پسند کی شادی نہیں کرنے دی جاتی ،جہیز کے مطالبات ہوتے ہیں یہ روایات تقریباً عام ہوتی جارہی ہیں اس سب میں مرد انتہاپسند ثابت ہوتا ہے اور عورت اس کا نشانہ۔یہ حتمی رائے نہیں ہے کہ صرف خواتین ہی اس کا شکار ہوتی ہیں بلکہ عورتیں بھی بعض اوقات مردوں کو انتہا پسندی کا شکار بنا لیتی ہیں۔ اگر کوئی مرد سمجھتا ہے کہ وہ سب پر حاکم ہے وہی مضبوط ہے تو یہ اس کی انتہا پسندی ہے اور اگر کوئی عورت یہ سمجھتی ہے کہ مرد ہی ساری برائیوں کا ذمہ دار ہے تو یہ اس کی انتہا پسندی ہے۔


اسی طرح بچوں کی ایک بڑی تعداد معاشی استحصال اور جسمانی و ذہنی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ کچھ ملازمین بھی ہیں جو اپنے حاکموں کے ہاتھوں اس تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں عورتوں کے خلاف تشدد میں عورتوں کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ کبھی اس کا لباس اس سب کا ذمہ دار ہے تو کبھی اس کا رویہ اس کے تشدد کا سبب بنا دیا جاتا ہے۔


جبری گمشدگی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو کہ انتہا پسندی کی بدترین شکلوں میں سے ایک ہے جو ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلا جا رہا ہے۔ اس کے پھیلنے کی ایک وجہ جاگیر دارانہ کلچر ہے کہیں نفرتوں کے مبلغ عورتوں کو اغوا کر رہے ہیں تو کہیں ان پر  تیزاب  پھینکا جارہا ہے۔ اقلیت کے مخالف لوگ مذہب کے نام پر بھی مدارس ، اسکول یا مندروں سے ملزمان کو کھینچ کر معاملہ عدالت کے سپرد کرنے کی بجائے گلیوں میں لاکر ان پر تشدد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔


اس وقت ہم جس موڑ پر کھڑے ہیں کہ ہر کوئی اپنی اصلاح کرے، معاشرتی تنازعات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اپنےاندر آدم برداشت پیدا کریں تاکہ متعدد ہلاکتیں اور ناجائز سلوک کے معاملات میں کمی آئے ورنہ معاشرے میں تباہ کن جارحیت کی نشوونما بہت تشویش کا باعث ثابت ہو سکتی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی معاشرے کو اقداری الجھنوں سے پاک کیا جائے اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ایکشن لیا جائے۔


 جہاں تک مذہب کے نام پر تشدد پسندی کا تعلق ہے تو اس کی ذمہ دار بھی ریاست خود ہے جس نے غفلت اور مجرمانہ کوتاہیوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ اسے نظر انداز کرنے کی روش اختیار کی۔کسی بھی ریاست کا اہم کام انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور یہ اس کی حفاظت کی کلید ہے۔  پچھلی تمام حکومتوں نے مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا مگر مذہبی انتہا پسندی کو نمٹانے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے ہیں؟ اب وقت ہے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچا جائے اور اس سے نمٹنے کے لئے کچھ ضروری اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ مذہب کے نام پر قتل و غارت جیسے جرائم پر قابو پایا جاسکے۔

اگر آج ہم اس قدر انتہا پسند ہو گئے ہیں تو ہماری آنے والی نسلوں میں اس کے اثرات کس قدر ہوں گے آج ہمارے اندر اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ عدم رواداری نہیں ہے تو کل ہماری نسل کا جو رویہ ہمارے ساتھ ہوگا وہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
 گمان تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
 یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :