انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان خود ہے

جمعرات 29 اپریل 2021

Summiaya Nilofer Kichloo

سُمَیّہ نیلوفر ِکچلو

بچپن سے سنتی آئی تھی کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان خود ہے ۔ یہ بات سمجھنے میں انسان کی پوری زندگی لگ جاتی ہے۔ یہاں بات اصل میں نفس کی ہو رہی ہے ۔نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور انسان کو جتنی جلدی یہ بات سمجھ آجائے اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ,
"فلاح پا گیا وہ جس نے اس نفس کو پاک کر لیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے آلودہ کیا ." (سورہ شمس)
نفس ایک ایسی چیز ہے جس کی اگر خبر لینا چھوڑ دیں تو یہ سرکش اور قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور اگر اس کی ملامت  کرتے رہیں تو یہی نفس آپ کو فائدہ بھی پہنچا سکتا ہے ۔


نفس  بیک وقت دوست بھی ہو سکتا ہے اور دشمن بھی۔ اگر اپنی طبیعت کو شریعت کے تابع کر لیں تو یہی نفس ہمارا سب سے بہترین دوست بن جائے گا اور اگر اسے کھلا چھوڑ دیں اور شریعت کے خلاف ورزی کرنے دیں گے تو اس سے بدترین اور کوئی دشمن ہو ہی نہیں سکتا ۔

(جاری ہے)


اب یہ نہیں کرنا کہ ایک دن اچانک احساس ہوا تو نفس کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھا لیا اور اگلے دن پھر اسی خراب حالت پر واپس آ گئے ۔

بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ روز روز, ہر لمحہ,استقامت کے ساتھ , چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے جائیں اور اپنے نفس کو شریعت پر راضی کیا جائے حتی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ گناہ کرنے سے نفس بھی بے چین ہو جائے ۔
ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے نفس کو دو ریمائنڈر باربار دیا کریں ایک موت کا اور دوسرا آخرت کا ۔
موت کو یاد کرنے سے نفس کمزور پڑتا ہے اور گناہ سے ڈر لگتا ہے ۔

جب ہمیں یقین ہے کہ موت برحق ہے اور کسی بھی وقت آسکتی ہے تو پھر ہم کیوں دنیا میں مگن رہتے ہیں اور آخرت کی تیاری نہیں کرتے حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ،
"قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں کہ کھیل کود میں پڑے رہتے ہیں ۔

دل ان کے (دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں .". . .  (سورہ انبیاء)
دوسرا ریمائنڈر میں آخرت کی یاد ۔جب انسان کو اس بات پر یقین ہوجائے کہ ایک نہ ایک دن حساب کتاب ہونا ہے تو وہ کیسے اپنے نفس کو ڈھیل دے گا۔ پھر کیوں نہیں انسان اپنی ابدی زندگی سنوارنے کی کوشش کرے گا ۔جب کہ اسے یہ معلوم ہوگا کہ آخرت میں تو سب کو اپنے کیے گئے اعمال کا بدلہ ملنا ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے
"اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی ." (سورہ النجم)
نفس کو قابو میں رکھنا ایک مستقل عمل ہے۔ ایک لمحے کی غفلت بھی انسان کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے ۔
ہم دنیا کے لئے تو پاگلوں کی طرح محنت کرتے ہیں جبکہ اس کی ذمہ داری تو اللہ نے لے لی ہے۔ اور جس آخرت کو اللہ نے ہماری کوشش پر منحصر کیا ہے اس کی بالکل پروا ہی نہیں ہے۔

اس کے لئے کوشش کو حقیر سمجھتے ہیں ۔ یہ تو ایمان کی نشانی نہیں ہے ۔اگر صرف زبان سے ایمان لانا کافی اور معتبر ہوتا تو منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں کیوں ہوتے ۔مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں ,
"دنیا توں بغیر طلب کے مل سکتی ہے لیکن ہدایت بغیر طلب کے نہیں ملتی۔"
ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اللہ تعالی کی نافرمانی کی جرات  ہی کیوں کرتے ہیں۔

اگر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دیکھ نہیں رہا تو پھر تو یقینا کافر ہیں۔  یك اگر یہ جانتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے پھر بھی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو پھر ہم سخت بے حیا ہیں ۔
اکثر ہم صرف اس وجہ سے اپنی خواہشات نفس کی مخالفت نہیں کرتے کیونکہ یہ بہت محنت طلب کام ہے ۔کیا ہم ایسے دن کے انتظار میں ہیں جس دن خواہشات کی مخالفت کو آسان بنا دیا جائے گا ایسا دن تو اللہ تعالی نے پیدا ہی نہیں کیا اور نہ پیدا کرے گا جنت جب ملے گی ہمیشہ ایسے کام کرنے سے ملے گی جو نفس کو ناگوار گزرتے ہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ,
"جہنم کو لذتوں اور نفس کی خواہشات سے گھیر دیا گیا ہے اور جنت کو سختیوں اور مشکلات سے گھیر دیا گیا ہے "
جب ہم دنیا میں چھوٹی چھوٹی خواہشات کی مخالفت سے نفس کی ناگواری نہیں برداشت کر سکتے تو ہمیں کیوں لگتا ہے کہ ہم جن میں خدا کا عذاب برداشت کر لیں گے ۔
ان ریمائنڈر کے بعد بات آتی ہے نفس کو کمزور کرنے کے عملی طریقوں پر۔

اکابرین روزمرہ زندگی میں اس کے تین طریقے بتاتے ہیں ۔
1۔ قلت طعام ( کم کھانا ) :
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کھانا پینا چھوڑ کر صحت خراب کر لی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بار زبان کی لذت کی خاطر نفس کی کھانے کی ہر خواہش پوری کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جتنا ہوسکے سادگی اپنانی چاہیے۔

قلت منام (کم سونا) :

زیادہ سونے سے بھی نفس سرکش ہوتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ سونے کے لیے مناسب وقت مقرر کیا جائے اور نیند کی تھوڑی قربانی دے کر اس وقت کو اللہ کی یاد میں صرف کیا جائے  ۔
3۔ قلت کلام (کم بولنا) :
کہتے ہیں خاموشی عبادت ہے, بالکل صحیح کہتے ہیں .انسان کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر اور صرف کام کی بات کرے. ورنہ خاموش رہے اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھے ۔


یہ تو تھی احتیاطی تدابیر ۔اب اگر کسی سے گناہ سرزد ہو جائے یا گناہ عادت بن جائے تو اس کا کیا حل ہے؟
اس کا حل یہ ہے کہ اپنے نفس کو سزا دی جائے ۔سزا کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نیکیوں کی تعداد اور شدت بڑھا دی جائے۔ اپنی زندگی کا ایک اصول بنا لیں کہ جیسے ہی کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو خدا سے توبہ کریں اور پھر اس گناہ کی تلافی کے طور پر اور نفس کو سبق سکھانے کے لیے زندگی میں نےنیکیاں بڑھا دیں ۔

تین باتیں سلف صالحین کے تجربے سے ثابت ہیں :
1۔روزہ
پورا دن بھوکا رہنے سے نفس بہت کمزور ہو جاتا ہے اور آئندہ گناہ کرنے سے گھبراتا ہے ۔
2۔ نفل
اس میں ایک مثال یہ ہے کہ اگر کبھی خدانخواستہ کوئی نماز رہ جائے تو اس کی قضا پڑھیں اور پھر اس نماز کی رکعتوں سے بڑھ کر نفل رکعتیں ادا کریں تاکہ نفس کی عقل ٹھکانے پر آجائے اور آئندہ ایسی غلطی کرنے سے گھبرائے۔


3۔صدقہ خیرات
جب گناہ کے بدلے جیب سے مال خرچ کرنا پڑے گا تو نفس خودی سدھرنا شروع ہو جائے گا ۔
اختتام پر بس ایک خوبصورت سی دعا لکھنا چاہوں گی جو اس سفر کو آسان کرنے میں ہماری مدد کرے گی ۔
أَللّٰهُمَّ اٰتِ نَفْسِىْ تَقْوَاهَا وَ زَكِّهَا اَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا اَنْتَ وَلِيُّهَا وَ مَوْلَاهَا
اے اللہ ! میرے نفس کو اس کا تقوی عطا کر اور اسکو پاک رکھ، تو ہی اس کو بہترین پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کا ولی اور مولا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :