"جمہوریت ارسطو کے نزدیک"

بدھ 18 نومبر 2020

Syed Saim Shah

سید صائم شاہ

 ہم لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ ہم  اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے ہیں.مگر کیا واقعی پاکستان میں جمہوری نظام رائج ہے؟کیا ہم واقعی جانتے ہیں کہ جمہوریت ہے کیا چیز؟ کیا واقعی پاکستان میں تخت والا نظام نہیں؟ کیا پاکستانی قوم آج بهی ایک مخصوص طبقے کی غلام نہیں ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں کہ جن کا جواب آجکے اس کالم میں ہم ڈهونڈنے کی کوشش کریں گے.
تاریخ علم و فلسفہ رکهنے والے ہزاروں انسانوں سے بهری پڑی ہے مگر ارسطو کے نام کی پہچان تاریخ میں نرالی ہے..ارسطو افلاطون کے شاگرد اور سکندر اعظم کے استاد تهے..جنہوں نے سائنس،سیاست اور اخلاقیات کے متعلق کئی گہرے رازوں کو افشاں کیا..

(جاری ہے)

یہ انکی ہی تربیت کا اثر تها کہ سکندر اعظم نے پوری دنیا پر اپنی سلطنت قائم کرنے کا عظیم خواب دیکها اور پهر اس خواب کو حقیقت کا لباس پہنایا.ارسطو کے نزدیک "جمہوریت" کا فلسفہ بڑا ہی وسیع ہے..انکے نزدیک ایک ملک جمہوری ملک اس وقت بنے گا جب ملک پر اہل ثروت حکمران نہیں ہوں گے بلکہ ملک پر حکومت متوسط اور غریب طبقے کی ہو گی..کیونکہ جمہوری نظام میں عوام کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کا نظام چلانے والو کا انتحاب کر سکیں اور ملک میں غریبوں کی تعداد اشرافیہ سے ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے اسلیے اگر واقعی کہیں پر جمہوری نظام رائج ہے تو غریبوں کو ملک کا نظام چلانے کا موقع ملنا چاہیے کیونکہ وہی اکثریتی عوام کے دکه درد سمجه سکتے ہیں اور ان کا مداوا بهی کر سکتے ہیں..اور ارسطو کا یہ بهی نظریہ ہے کہ ملک کی باگ دوڑ علم رکهنے والے افراد کو سنبهالنی چاہیے اور ایک جمہوری ملک میں نسلوں سے چلے آنے والے تخت و تاج کا خاتمہ ہونا چاہیے...جمہوریت میں ہر ایک کو یکساں حقوق میسر آنے چاہیے..قانون کی نظر میں ریشمی لباس پہننے والا اور پهٹے پرانے کپڑے پہننا والا دونوں برابر ہونے چاہیں..یہی جمہوریت کا فلسفہ ہے اور جس ملک میں ایسا نظام رائج ہو گا وہی صیح معنوں میں جمہوری ملک کہلائے گا.
 حقیقی جمہوریت کے اس فلسفے کو ذہن میں رکهتے ہوئے آیئے موجودہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے  جمہوری نظام پر روشنی ڈالتے ہیں..اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طبقاتی اور جاگیردارانہ نظام رائج ہے..قیام پاکستان کے بعد ملک کی 97% آبادی پر 3% لوگ کسی نا کسی صورت میں  حکومت کرتے آ رہے ہیں..یہ 3% لوگ جاگیر دار اور اہل ثروت ہیں..بظاہر عوام کے لیے ان لوگوں کے درمیان کافی اختلافات موجود ہیں مگر حقیقتاً یہ سب متحد ہیں اور انکا صرف ایک ہی کام ہے کہ باری باری پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹنا.یہ لوگ ملک کی غریب عوام کا استحصال کرتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر خود کو بادشاہ اکبر بنائے بیٹهے ہیں...انتحابات کے وقت عوام کے درمیان نمودار ہوتے ہیں اور پهر ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے تپتے صحرا میں گرنے والا پہلا بارش کا قطرہ غائب ہو جاتا ہے.ایسے لوگوں کے اہل و اعیال تو بہترین تعلیمی و طبی سہولیات سے استفادہ حاصل کرتے ہیں مگر جو عوام انہیں منتحب کرتی ہے اسکے بچوں کو سکول کی ٹپکٹی ہوئی چهت اور ادویات میں پیناڈول کے علاوہ کوئی چیز نصیب نہیں ہوتی.ایسے جمہوری نظام سے تو اچها تها کہ ہم انگریزوں کے ہی غلام رہتے!
 آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو اڑنے کا موقع حاصل ہونا چاہیے..فضاوں میں ہر ایک کو اپنے پروں کی طاقت کے مطابق اڑان بهرنی چاہیے..یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جن کے باپ دادا پہلے فضاوں میں اڑتے پهرتے تهے انہیں تو اڑنے کے لیے ہر آسائش دی جائے اور انہیں پکڑ پکڑ کر اڑایا جائے مگر کوئی عام آدمی اڑنے کی کوشش کرے تو اسکے پر ہی کتر دیے جائیں...اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج زوال کی گہرائیوں میں ہے..جس دن اس طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو گا اور ملک میں حقیقی جمہوریت (وہ جمہوریت جس کا فلسفہ ارسطو نے دیا تها) رائج ہو گی اس دن پاکستان ثریا کی بلندیوں پر مقیم ہو گا انشاء اللہ.!اللہ قادرمطلق صیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا فلسفہ سجهنے میں ہماری مدد فرمائے..!آمین..ثم آمین..!

  مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
 کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :