"تعلیمی ادارے 11 جنوری تک بند"

پیر 4 جنوری 2021

Syed Saim Shah

سید صائم شاہ

13مارچ 2020 جب کرونا کا خوف پوری دنیا کے ذہنوں پر چهایا ہوا تها.کرونا کی وجہ سے خواہ ترقی پذیر ممالک ہوں یا پهر ترقی یافتہ ممالک سب کو اپنے ملک کی معیشت کی بربادی کے ڈراونے خواب آ رہے تهے.سبکے دل میں بے چینی تهی اور سب اضطراب کا شکار تهے..اسوقت حکومت پاکستان نے بهی دوسرے ممالک کی طرح اپنے ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا.تمام تعلیمی ادارے بلا کچه سوچے سمجهے بند کر دیے گئے..اور سمارٹ لاک ڈاون کی پالیسی اپنائی گئی.

(جاری ہے)

پہلے 30 اپریل تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا کہا گیا تها مگر رفتہ رفتہ پیشن گوئیاں کرنے والوں نے پیشن گوئیاں کیں کہ  جون جولائی میں کرونا کی وباء پاکستان میں عروج پر ہو گی اور پاکستان کو صحت کے شعبے میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اسلیے تعلیمی اداروں کو بند ہی رکهنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ کرونا کا پهیلاو کم سے کم ہو اور تمام طالبعلموں کو پچهلی جماعت کے نمبرات کے ساته 3% اضافی نمبرات دے کر پروموٹ کر دیا گیا.مگر اللہ قادر مطلق نے اس ترقی پذیر ملک پر اپنا خاص کرم کیا اور ساری کی ساری پیشن گوئیاں دهری کی دهری رہ گئیں اور پاکستان کرونا سے نمٹنے میں ترقی یافتہ ممالک سے بازی لے گیا.رفتہ رفتہ حکومت نے کاروباری سرگرمیوں کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا.تمام دفاتر،مارکٹیں اور بازار کهول دیے گئے اور ٹرانسپورٹ کا نظام پهر سے بحال کر دیا گیا..بلاشبہ سمارٹ لاک ڈاون کی پالیسی بہتر تهی مگر حکومت نے تعلیم اور مستقبل کے معماروں کے متعلق بہت ہی غلط اور بغیر سوچے سمجهے فیصلے کیے جس پر جتنی بهی تنقید کی جائے کم ہے.
حکومت نے تمام سرگرمیاں بحال کر دیں مگر تعلیمی اداروں کو فی الحال 11 جنوری تک بند کرنے کا فیصلہ کر دیا .

حکومتی عہدیداروں کا تو کیا ہے انہیں تو ثروت والی زندگی میسر ہے انہیں کیا معلوم کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے سے منسلکہ لاکهوں خاندان ہیں.انہیں شاید نہیں معلوم کہ پانچ ماہ ہونے کو آئے ہیں یہ لوگ کس طرح گزر بسر کرتے ہونگے.کہتے ہیں ناکہ
جس تن لگے وہی تن جانے
دکهیا کی کوئی نہ مانے
پاکستان میں صرف 197626 پرائیوٹ سکولز ہیں اور ان سکولوں میں کام کرنے والے ہر فرد کے ساته ایک خاندان جڑا ہوا ہے اور پانچ ماہ سے یہ لوگ کس طرح اپنے گهر کو سنبهالے ہونگے یہ بات خدا کی ذات ہی بہتر جانتی ہے.حکومت کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں کرونا پهیلنے کا خدشہ ہے تو حکومت کو کیا یہ معلوم نہیں کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں معمول کے مطابق سب کام ہو رہے ہیں.حکومتی عہدیدار تو اپنی قیمتی گاڑیوں میں  پهرتے رہتے ہیں وہ تو عوامی جگہوں پر جاتے ہی نہیں اگر کبهی جائیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ ایسی گاڑیاں جن میں عام حالات میں چه چه لوگ سوار ہوتے تهے آجکل دس دس لوگ سوار ہوتے ہیں.پهر ایسی جگہوں سے کرونا کیوں نہیں پهیلتا اور تعلیم کا مقصد کیا ہے کہ طالبعلموں کی ایسی تربیت کرنا تاکہ وہ مستقبل میں آنے والے خطرات اور چیلینجز کا جوانمردی سے سامنا کر سکیں.معذرت کے ساته مگر ہمیں تو فی الحال یہی سکهایا جا رہا ہے کہ جب کوئی بهی وباء یا آفت آئے تو پہلے اپنے تعلیمی اداروں کو بند کرو اور پهر گهر کے اندر آرام سے بیٹهے رہو اور مغربی دنیا سے فنڈز اکهٹے کرتے رہو اور انهی پر جیو اور انتظار کرو کہ کب مغربی دنیا وباء سے نمٹنے کے لیے کوئی ویکسین بنائے گی.اور جب ویکسین بن جائے پهر گهر سے باہر نکلو .

ہمیں کاہلی کا درس دیا جا رہا ہے.
تعلیمی ادارے ایس او پیز کے ساته کهولے جا سکتے ہیں تاکہ مستقبل میں جنہوں نے اس ملک کی بهاگ دوڑ سنبهالنی ہے  کسی بهی قسم کی آزمائش میں ثابت قدم رہیں اور جوانمردی سے اس کا مقابلہ کریں.ماسک پہننے سے کرونا کے پهیلاو کا خدشہ 85% تک کم ہو جاتا ہے اور اگر مکتب گاہوں میں ایس او پیز کے ساته کلاسز دو شفٹس میں لی جائیں تو کرونا پهیلنے کا خدشہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور اس طرح طالبعلم علم سے بہرہ ور بهی ہو سکتے ہیں اور انکا وقت بهی ضائع نہیں ہو سکتا اور لاکهوں خاندان کسمپرسی کی زندگی سے باہر نکل سکتے ہیں.مگر ہماری حکومت تعلیمی اداروں کو نہیں کهولتی بلکہ مفت میں طلباء کو نمبر تهما دیتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت کی ناکام پالیسی سے طلبہ 1100 میں سے 1103 نمبر لے لیتے ہیں.اور حکومت تعلیمی سلیبس آدها کر دیتی ہے.مطلب آدها پڑها کر مکمل ڈگڑی سے نواز دیتی ہے.کہتے ہیں نا کہ "ادهورا علم خطرے کا موجب ہوتا ہے"آئیے ایک مثال سے اس خطرے کے بارے میں جانتے ہیں"ایک طالبعلم ریڈیکٹویٹی کے متعلق پڑهتا ہے مگر اسے ریڈیشنز کے نقصانات کے متعلق نہیں پڑهایا جاتا اب وہ کسی ریڈیوایکٹو میٹریل پر تحقیق شروع کر دیتا ہے بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے.اور دیکهتے ہی دیکهتے اس ریڈیوایکٹو میٹریل سے نکلنے والئ ریڈیشنز اسکے ساته ساته اس علاقے میں رہنے والے سارے لوگوں میں مختلف بیماریاں پهیلا کر انہیں ابدی نیند سلا دیتی ہیں."
حکومت کو تعلیمی اداروں کو کهولنے کے متعلق فیصلے پر دوبارہ سے غور کرنا چاہئے کیونکہ تعلیمی ادارے بند کرنے سے کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے کے پورے ملک کا نقصان ہو رہا ہے جس کا احساس ہمیں مستقبل میں ہو گا انشاءاللہ .

اللہ قادرمطلق ہم سبکو اپنی حفظ و امان میں رکهے اور کاہلی اور سستی کو ہم سے دور کر دے.آمین..ثم آمین.!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :