چند محاوروں پر غور کرتے ہیں۔ پہلا محاورہ ”پِنا کھول دینا“ ہے۔ پِنے سے مراد وہ رسی، دھاگہ یا پتنگ کی ڈور ہوتی ہے جو ایک گول گیند کی مانند لپٹی ہوتی ہے۔ اِ س چھوٹے سے گولے میں سینکڑوں فٹ لمبی رسی، دھاگہ یا پتنگ کی ڈور ایک ترتیب کے ساتھ گول گول چکر کھاتی ایک دوسرے کے اوپر جڑی ہوتی ہے۔ اگر گولے کی رسی، دھاگہ یا پتنگ کی ڈور ضرورت کے تحت یا بے احتیاطی کے باعث کھل جائے تو اُسے واپس اُسی ترتیب کے ساتھ گولے کی شکل میں لپیٹنا مشکل کام ہوتا ہے۔
اگر رسی، دھاگے یا پتنگ کی ڈور کا کچھ حصہ لپیٹ بھی لیا جائے تب بھی کچھ حصہ ضائع ہو جاتا ہے اور لپٹے ہوئے حصے میں بھی مٹی اور رگڑیں لگ جاتی ہیں جن کے باعث وہ رسی، دھاگہ یا پتنگ کی ڈور اپنی اصلی افادیت کھو دیتی ہے۔ اسی لیے پِنا کھولنے کے محاورے کو اُس کام کی تشبیہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں معاملات بکھر جائیں اور انہیں واپس ترتیب میں لانا مشکل ہو۔
(جاری ہے)
دوسرا محاورہ ”گُنجل پڑ جانا“ ہے۔
اِس سے مراد ہے کھلی ہوئی رسی، دھاگے یا پتنگ کی ڈور آپس میں اس طرح الجھ جائے کہ اُسے سلجھا کر ایک ترتیب میں لپیٹنا مشکل ہو جائے۔ بعض اوقات رسی، دھاگے یا پتنگ کی ڈور میں اتنے سخت گُنجل پڑ جاتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ لپیٹنے کے لیے بھی رسی، دھاگے اور پتنگ کی ڈور کے کئی حصوں کو کاٹنا پرتا ہے۔ گُنجل ختم کرنے کے لیے رسی، دھاگے یا پتنگ کی ڈور کو کاٹنے کے بعد جو حصے بچتے ہیں انہیں جوڑنے کے لیے گانٹھیں لگائی جاتی ہیں جو رسی، دھاگے اور پتنگ کی ڈور کی مضبوطی کو نہ صرف کمزور کردیتی ہیں بلکہ بدصورتی کا باعث بھی بنتی ہیں۔
یہ محاورہ روزمرہ کے تعلقات کے حوالے سے بھی استعمال ہوتا ہے جب دو یا دو سے زائد فریقین کے آپس کے تعلقات اتنے الجھ جاتے ہیں کہ سلجھانا مشکل ہوتا ہے۔
اسی لیے گُنجل پڑ جانے کے محاورے کو اُس کام کی تشبیہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں معاملات یا تعلقات بکھر جائیں اور انہیں واپس ترتیب میں لانا مشکل ہو۔ تیسرا محاورہ ”کھلارا ڈالنا“ ہے۔
یہ محاورہ بھی اپنے معنی میں اوپر کے دونوں محاوروں سے ملتا جلتا ہے۔ مثلاًاگر پہلے سے ترتیب میں پڑی چیزوں کو اِدھر اُدھر بکھیر دیا جائے تو اُن چیزوں کی بے ترتیبی کو کھلارا ڈالنا کہا جاتا ہے یا اگر کسی کو ایک پراجیکٹ کی منصوبہ بندی کی ذمہ داری دی جائے تو وہ اُس پراجیکٹ میں بہت سی غیرضروری چیزیں شامل کردے۔
یہاں تک کہ اُس پراجیکٹ کا فوکس ہی نظروں سے اوجھل ہو جائے اور افرادی قوت و بجٹ کا بہت بڑا حصہ اُن غیرضروری چیزوں کی نظر ہو جائے۔
اِس طرح کی مثال کو بھی کھلارا ڈالنا کہا جاتا ہے یا گلی محلے میں کوڑے کرکٹ کا ڈھیر آندھی، کسی جانور یا بدانتظامی کی وجہ سے گلی محلے میں بکھر جائے تو عموماً محلے والے کہتے ہیں کہ ہرطرف کھلارا پڑگیا ہے۔ اسی لیے کھلارا ڈالنے کے محاورے کو اُس کام کی تشبیہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں معاملات اِتنے بکھیر دےئے جائیں کہ انہیں ترتیب میں لانا اور سنبھالنا مشکل ہو جائے ۔
تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے وہ مندرجہ بالا تینوں محاوروں کے عملی نمونے پیش کررہی ہے۔
الیکشن 2018ء کے بعد جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو سب سے پہلے یہ پِنا کھلا یا گُنجل پڑا یا کھلارا ڈلا کہ پی ٹی آئی کی حکومت سلیکٹڈ حکومت ہے اور عمران خان سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں۔ پی ٹی آئی کو جتوانے کے لیے الیکٹیبل امیدواروں کو قابو کیا گیا یا پنجاب میں ن لیگ کو زیادہ سے زیادہ ڈیمیج کرنے کے لیے خاص مذہبی جماعت کو میدان میں اتارا گیا یا اور بھی بہت کچھ وغیرہ وغیرہ۔
ابھی یہ معاملات چل ہی رہے تھے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے 90دن پورے کرلیے اور انتخابی مہم کے دوران 90دن کے اندر کیے جانے والے کاموں کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے قوم سے مزید تین ماہ کا ٹائم مانگ لیا۔
گویا نیا پِنا کھل گیا، مزید گُنجل اور کھلارا پڑ گیا۔ اِس دوران پی ٹی آئی کی حکومت نواز شریف اور آصف علی زرداری کی کرپشن کے خلاف کوئی بین الاقوامی ثبوت بھی نہ لاسکی۔
یہاں تک کہ حسین نواز اور حسن نواز کے خلاف پی ٹی آئی کو برطانوی حکومت کی طرف سے بھی یہ کہہ کر جواب مل گیا کہ حسین نواز اور حسن نواز کے خلاف برطانوی حکومت کو پیش کیے گئے ثبوت کرپشن سے زیادہ سیاسی ہیں۔ اب آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت پر اپنے مخالفین کے خلاف سیاسی انتقام کے الزام کی جو مہم چل سکتی ہے اُسے تجزیہ نگار یہی لکھیں گے کہ پی ٹی آئی نے بہت سے پِنے کھول دےئے ہیں، معاملات میں گُنجل پڑگئے ہیں یا سیاسی کھلارا ڈل گیا ہے۔
اِن محاوروں کا ایک اور عملی نمونہ کابینہ میں غیرمنتخب لوگوں کی شرکت ہے۔ اِس پِنے کے کھل جانے سے پی ٹی آئی کے باہر سیاسی گرداب میں جو تیزی آئی سو آئی لیکن پی ٹی آئی کے اندر بھی بہت سے گُنجل پڑگئے ہیں۔ مثلاً وزارت اطلاعات کے ایک قلم دان کے لیے جہاں فواد چوہدری اور شیخ رشید اپنے آپ کو فردوس عاشق اعوان سے زیادہ باصلاحیت سمجھتے ہیں وہیں فواد چوہدری اور شیخ رشید اس وزارت کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی سرتوڑ کوشش بھی کررہے ہیں۔
اِس ریس کو جیتنے کے لیے فواد چوہدری اور شیخ رشید اپنے کچھ پرانے تعلقات کے ساتھ ساتھ شاید کچھ پرانی رشتے داریوں کو بھی استعمال کرکے ہرصورت میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
شیخ رشید نے تو قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے وزارت اطلاعات سے اپنے عشق کا درپردہ اظہار کچھ یوں کردیا کہ ”اگر میں (شیخ رشید) ریلوے کی وزارت کا خسارہ پورا نہ کرسکا اور ریلوے کو منافع بخش ادارہ نہ بنا سکا تو میں (شیخ رشید) وزیراعظم عمران خان صاحب کو کہوں گا کہ مجھے (شیخ رشید) ریلوے کی وزارت کی جگہ کوئی دوسری وزارت دے دیں“۔
اِن باتوں کے علاوہ تحریک انصاف نے اپنی معاشی ٹیم کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ماہرین کا انتخاب کرکے جو پِنا کھولا ہے اُس سے جو گُنجل پڑیں گے اُن کا کھلارا سمیٹنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ان سے بڑھ کر آنے والے دنوں میں وکلاء کی ہڑتالی سرگرمیاں بھی وزیراعظم عمران خان کے لیے مشکل ٹاسک ہوں گی اور اس سے بھی بڑھ کر کچھ خاص معاملات جو شاید بعد میں کبھی میڈیا میں آئیں گے۔
مندرجہ بالا اِن سب معاملات کو کل ملاکر دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ یکے بعد دیگرے اتنے زیادہ سیاسی محاذ کھول دینا پی ٹی آئی کی حکومت کا اناڑی پن تھا یا رٹے ہوئے سبق پر عملدرآمد لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن کھلے ہوئے پنوں کو لپیٹے گا کون؟ اِن کے گُنجل کیسے نکلیں گے؟ یہ کھلارا سمیٹنے کون اور کیسے آئے گا؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔