گمنام پتا والی بستی کی سیر

جمعہ 26 جون 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

آپ کو ایک بڑے جدید شہر کے ایک ایسے پتے پہ لے چلتا ہوں جو گمنام ہے جس کے بارے میں آپ لوگ شاید نہیں جانتے۔ چلئے چلتے ہیں۔ گاڑی سے اترےئے۔ اب آپ سڑک پر ہیں۔ چلتے لوگ، بھاگتی گاڑیاں، کئی منزلہ عمارتیں، شاپنگ مال اور بڑی چمچماتی دکانیں اور غضب کی ہلچل ہے۔ اپنے پیروں کو تکلیف دیجئے، آگے بڑھئے، تھوڑا اور۔ سیدھا چلتے رہئے۔ بس اب دائیں یا بائیں کسی بھی طرف مڑ جائیے۔

کیا ہوا؟ راستہ ختم؟ ارے نہیں راستہ تو یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ دھیان سے دیکھئے۔ دو عمارتوں کے بیچ کچھ سرنگ سا دِکھ رہا ہے؟ بس صحیح راستے پہ ہیں۔ رکےئے مت، چلتے جائیے۔ یاد رہے آگے کا راستہ صرف پیروں سے نہیں، آنکھ، ناک سے لے کر دماغ تک سب کو چوکنا رہنا ہے۔ ذرا سی چوک ہوئی تو نقصان ہوسکتا ہے، جسم اور جیب دونوں کا۔

(جاری ہے)

اب چوڑی سڑکیں تنگ گلیوں میں بدل چکی ہیں۔

عمارتیں ٹین پلاسٹک کے دس گنا دس کے گھروں میں۔ شہر کی چمک کسی گھپ اندھیرے میں کھو چکی ہے اور اپارٹمنٹس کے باہر رکھے گملے اب کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ تھوڑا اور آگے جائیے۔ گلی اب نالی بن چکی ہے اور نالی ہی آگے کا راستہ ہے۔ چاہیں تو پینٹ کے ساتھ بھنوئیں بھی اوپر اٹھا سکتے ہیں۔ ناک پر رومال ڈال سکتے ہیں پر آنکھیں کھلی رکھیں۔

اُن پر پردہ نہیں ڈال سکتے کیونکہ یہ سپنا نہیں سچ ہے۔ ایسا بھی ایک پتا ہے۔ ارے نہیں ابھی پہنچے نہیں ہیں۔ تھوڑا اور چلئے، آگے جاکر دائیں مڑنا ہے۔ پر دھیان رہے، موڑ اور گھر کے دروازے ایک جیسے ہیں، بس ایک فٹ ہی چوڑے۔ کیا ہوا؟ کسی کے گھر میں تو نہیں گھس گئے؟ کوئی نہیں، بھول بھلیاں جیسا کچھ نہیں ہے، بس ایک ہی کمرہ ہے۔ شاید آپ کے سٹڈی جتنا بڑا ہوگا۔

اسی ایک کمرے میں پانچ لوگوں کا خاندان رہتا ہے۔ کچن بیڈروم سے لے کر باتھ روم تک سب یہیں ہے۔ کتنے طریقے سے ایک کے اوپر ایک دال آٹے کے کنستر رکھے ہیں۔ کپڑے کی ایک الگ الماری نہیں ہے۔ بس دروازے کے پیچھے دو گٹھڑ بناکر رکھ دےئے ہیں۔ اب دیوار پر دیکھئے۔ اُدھر، ہاں آپ کے پیچھے، وہیں کچن کے شیلف پر۔ تھالی سے لے کر کرچھی تک سب وہیں پر ٹنگے ہیں۔

جو بغل میں دو فٹ کی دیوار ہے ناں، ہاں بس وہی باتھ روم ہے۔ کیا ہوا؟ بیڈ نہیں دِکھ رہا؟ وہ جو کونے میں ڈھیر رکھا ہے وہی بیڈ ہے۔ سونے کے وقت کھول لیا جاتا ہے۔ کیا ہوا؟ آپ کو نیچر کال آرہی ہے؟ ارے جلدی کرےئے باہر آجائیے۔ اب نیچر کال ریسیو کرنا تو آدھا کلومیٹر دور چل کر پھر لمبی لائن میں لگنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ چلیں اُس کو ہولڈ پر ڈالئے، آگے بڑھتے ہیں۔

آگے سے دائیں مڑ جائیے۔ اگر دایاں بایاں کچھ سمجھ نہیں آیا تو کوئی بات نہیں ہے۔ فون مت نکالئے، یہاں گوگل ابھی تک نہیں آیا ۔ سامنے دیکھئے کچھ لوگ دِکھ رہے ہوں گے، کچھ دھواں سا اٹھ رہا ہوگا۔ ہاں وہیں جہاں سے چلم کی مہک آرہی ہے، تاش کے پتے سجے ہیں۔ اُن سے پوچھئے، یہاں کے واسکو ڈے گاما وہی ہیں۔ آگے کا راستہ انہیں بخوبی معلوم ہے۔ ان کے بتائے راستے سے آگے بڑھئے۔

اب گلی اور بھی تنگ ہوچکی ہوگی۔ دونوں طرف چولہے جل رہے ہوں گے، شاید پانی ابل رہا ہوگا یا اس میں چاول بھی پڑچکا ہوگا۔ پلاسٹک، گتے اور کچرے سے چولہے میں آگ پھونکنے کی کوشش کررہی بڈھی مائی دِکھ رہی ہوگی۔ آگے بڑھتے جائیے۔ کوئی ایک چھوٹا بچہ بنا کپڑوں کے گھوم رہا ہوگا۔ نہیں نہیں پولیس کو فون کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ بچہ کھویا نہیں ہے۔

یہ اُس کا اپنا علاقہ ہے، اِن گلیوں سے اُس کا اپنے ماں باپ سے کہیں زیادہ واسطہ ہے۔ اب سیدھے چلتے جائیے، ایسے ہی نظاروں سے دوچار ہوتے جائیں گے۔ گھبرائیے مت، آپ کا پتا آگے ہی ہے۔ اِس شہر میں کئی پتے آج بھی ایسے ہیں جہاں ڈاک کی ڈیلیوری نہیں ہوتی۔ مندرجہ بالا منظرکشی والی تحریر پڑھ کر کیا یہ خیال نہیں آتا کہ ایسی جگہیں ہمارے ہاں جگہ جگہ آباد ہیں مگر 22کروڑ عوام کے درد کا راگ الاپنے والے ہمارے لیڈروں کو اِن جیسی اندھیری گلیوں سے کیا سروکار؟ اِن جیسی کالی بستیوں کے باسی جو انہی تاریکیوں میں پیدا ہوتے ہیں، زندہ رہتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔

کیا ان کے بارے میں بھی فیض احمد فیض کا یہی مصرع درست نہیں ہے کہ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے؟ لیکن مفاد بھری نیتوں والے لیڈر اِن تاریک لوگوں کی کبھی کورونا کے باعث کسمپرسی اور ہلاکتیں اور کبھی غربت کی تاریکی کو بھی اپنے حق میں بتاکر اپنی سیاست چمکاتے رہتے ہیں۔ اگلے اقتدار کی چمک دیکھنے کے لیے شہروں میں سیاسی طاقتوں کے مظاہروں کا چلن عام ہے۔

اپنی پارٹی کی طاقت دکھانے کے لیے جلسہ گاہ کو جن لوگوں سے بھرا جاتا ہے اُن میں بیشتر ایسے ہوتے ہیں جو ایسی ہی کالی بستیوں سے لائے گئے ہوتے ہیں اور جلسہ ختم ہونے کے بعد انہی بستیوں میں واپس پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ کالی بستی سے لائے گئے یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کرپشن، ناانصافی اور دھاندلی کے خلاف لیڈروں کی تقریروں پر زور زور سے تالیاں بجاتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں جس پر لیڈر اچھل اچھل کر اپنے مخالفین کو للکارتے ہیں اور عوام کے ٹھاٹھیں مارتے اس سمندر کو اپنے ساتھ بتاتے ہیں جبکہ یہی لیڈر اُن عوام کے ساتھ نہیں ہوتے۔

اگر لیڈر عوام کے ساتھ ہوتے تو ملک میں ایسی کوئی بستی نہ ہوتی جہاں کے دن بھی تاریک ہوں، جس میں سے گزرتے ہوئے یہ بھی نہ پتا چلے کہ گلی ہے یا کسی کا گھر۔ اقتدار کا مزہ لینے اور اپنے وعدے بھول جانے کے بعد یہ لیڈر یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے اپنے جدید شہر میں ایسی کتنی بستیاں ہیں جہاں کے لوگ گمنام پتا کے رہائشی ہیں، جہاں ڈاک کا لفافہ بھی کھوجانے کے خوف سے جانے سے انکار کردیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوکہ ہمارے لیڈروں کو اِن گمنام پتوں والی بستیوں کی سیر کرائی جائے اور کچھ دیر کے لیے اِن لیڈروں کو گمنام پتا کا رہائشی بنا دیا جائے۔ کیا کبھی ایسا ہوگا؟ کیا کبھی پینڈولم دوسری طرف بھی جائے گا؟
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :