بلال بھائی۔۔۔ اُف۔۔۔

ہفتہ 24 اکتوبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

یہ 1983ء کے موسم سرما سے ذرا پہلے کا زمانہ تھا جب پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت میں اس برس داخلہ لینے والے طالب علموں کی کلاسوں کا آغاز ہوا۔ وہاں میری ملاقات زاہد مقصود اور طاہر رفیق سے ہوئی۔ ہم تینوں ہاسٹل کے رہائشی ہونے کے باعث آپس میں ذرا جلدی شناسا ہوگئے۔ وہیں ہاسٹل میں ہماری ملاقا ت پنجابی کے طالب علم اور شاعر واجد فاروق سے بھی ہوئی۔

ہم چاروں کے حلقے میں دو اور کا اضافہ ہوگیا جن میں سے ایک زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے منظور قادر اور دوسرے راولپنڈی کے نوجوان وکیل ممتاز احمد بلال تھے۔ وقت اتنی ہی تیزی اور چالاکی سے گزر گیا جتنی تیزی اور چالاکی سے اس کے گزرنے کا شکوہ ہرکوئی کرتا آیا ہے اور یوں 2020ء آگیا۔ میں اسلام آباد چلا آیا تھا اور یہیں کا ہوگیا۔

(جاری ہے)

زاہد مقصود لاہور ہی رہے اور سینئر صحافی ہوگئے۔

طاہر رفیق نے مختلف شہروں کے صحافتی اداروں میں کام کرنے کے بعد فیصل آباد میں اپنے آبائی مشہور پرنٹنگ پریس کا نظم و نسق سنبھالا۔ واجد فاروق کئی ملکوں سے ہوتے ہوئے کینیڈا آباد ہوئے۔ منظور قادر علم و دانش کی منزلیں طے کرنے کے بعد ڈاکٹر منظور قادر بن گئے اور انٹرنیشنل سائنسی تحقیقی اداروں میں کام کرتے ہوئے کینیڈا جابسے۔ راولپنڈی کے اُس وقت کے نوجوان وکیل ممتاز بلال نے اپنا شہر نہ چھوڑا اور وہ ترقی و شہرت کے زینے چڑھتے ہوئے سپریم کورٹ کے نامور سینئر ایڈووکیٹ بن گئے۔

اِن گزشتہ 37 برسوں میں بہت کچھ بدل گیا لیکن اگر نہیں بدلا تو اِن چھ کا دوستانہ نہ بدلا۔ ان بیتی چار دہائیوں میں کوئی موقع ایسا نہیں تھا جب ان چھ میں سے کوئی آپس میں ملاہو یا گفتگو کی ہوتو اُنہوں نے فرداً فرداً باقی سب کا حال دریافت نہ کیا ہو لیکن 9اکتوبر 2020ء بروز جمعہ وقت نے آخرکار ان چھ کو شکست دے دی۔ میں صبح دفتر جارہا تھا کہ موبائل پر زاہد مقصود کی کال کی گھنٹی سن کر چونکا کیونکہ یہ وقت عمومی گفتگو کا نہ تھا۔

میرے ہیلو کرنے کے بعد بھی دوسری طرف خاموشی رہی۔ پھر زاہد کی آواز آئی کہ ایک بری خبر ہے۔ میں نے تشویش سے کہا خدا خیر کرے۔ دوسری طرف پھر خاموشی چھا گئی۔ چند سیکنڈ بعد زاہد نے کہا بلال نہیں رہا۔ میں نے اپنے گم ہوتے حواس میں چیخ کرکہا کون سا بلال؟ حالانکہ ہمارا بلال ایک ہی تھا اور اسی کی تصویر ذہن میں بھی آگئی لیکن اس خبر کے حوالے سے میں اسے پہچاننا ہی نہیں چاہتا تھا۔

میری چیخ کے جواب میں زاہد نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس میں نے دوسری طرف سے خاموش آنسوؤں کی آواز سنی۔ پتہ نہیں ہم دونوں میں سے کس نے فون بند کیا۔ تھوڑی دیر بعد طاہر رفیق کی کال آگئی۔ میں نے کال ریسیو کرتے ہی کہا پلیز مجھے کوئی اطلاع نہ دینا۔ اس کے پاس بھی کچھ کہنے کو نہ تھا۔ ہم دونوں کانوں سے موبائل لگائے صرف ایک دوسرے کی خاموشی سن رہے تھے۔

6اکتوبر 2020ء کو اچانک بلال کا بلڈپریشر شوٹ کرگیا، پھر برین ہیمرج کا حملہ ہوا اور 3دن بعد 9اکتوبر کو وہ سب کو چھوڑکر چلے گئے۔ ممتاز بلال اپنی شخصیت، اپنی فطرت اور اپنی عادتوں میں بہت ممتاز تھے۔ وہ پرسکون اور آسان انسان تھے۔ وہ دوسروں کوسکون اور آسانی مفت بانٹتے تھے۔ قہقہے اور خوش دلی ان کا ٹریڈمارک تھا۔ ایک دفعہ بلال نے مجھے بتایا کہ حکومت انہیں قانونی شعبے میں اہم سرکاری ذمہ داری دینا چاہتی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔

میں نے ازراہِ مذاق چھیڑنے کے انداز میں کہا کہ بلال بھائی آپ نے انکار کیوں کیا؟ اس عہدے کی دوسری سہولتوں کے ساتھ ساتھ آپ کو جھنڈے والی لمبی گاڑی بھی ملتی۔ وہ سنجیدگی سے بولے میں گاڑی کا قیدی نہیں بننا چاہتا۔ مجھے سمجھ آگئی کہ جیل اور گاڑی کے قیدی ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ بلال آخری سانس تک صرف ضمیر کے قیدی رہے۔ اسی لیے وکلاء برادری کی ایک بڑی تعداد انہیں اپنا عزیز رکھتی تھی اور بہت عزت دیتی تھی۔

بلال کی ایک معصومانہ اور دلفریب عادت تھی کہ وہ دوستوں سے گپ شپ کرتے ہوئے جب بھی کسی ناول، فلم یا واقعے وغیرہ کو بہت متاثرکن بتانا چاہتے تو سامنے بیٹھے دوست کو مخاطب کرکے اُس چیز کے بارے میں آدھا جملہ بولنے کے بعد چند لمحوں کا پاز دیتے جس سے حاضرین کا سسپنس بڑھ جاتا۔ اس کے بعد وہ ذرا زور سے صرف اُف کہتے۔ مثلاً یار زاہد تم نے وہ فلم دیکھی ہے؟۔

۔۔ اُف۔۔۔ یا یہ کہ طاہر تم نے وہ ٹائی پہنی ہے؟۔۔۔ اُف۔۔۔ یا مجھے کہتے پیرو وہ کتاب پڑھو۔۔۔ اُف۔۔۔ گویا ان کے جملے کی ادائیگی کے بعد اُف کہنے سے ہم سمجھ جاتے کہ کوئی بہت ہی زبردست اور اہم بات ہے۔ بلال بھرا میلہ چھوڑ گئے۔ بعض اوقات بھرا میلہ چھوڑنے والے میلہ لوٹ بھی لیا کرتے ہیں لیکن بلال بھائی آپ اوپر سے ذرا نیچے دیکھیں کہ آپ کے جانے کے بعد ہمارا کیا حشر ہوا ہے اور ہرایک کا دل سسک سسک کر کہہ رہا ہے بلال بھائی اُف۔

۔۔ اب ہم باقی پانچوں ایک دوسرے کو تکے جارہے ہیں حالانکہ ایک دوسرے کو تکنے کی تاب نہیں رکھتے۔ ایک دوسرے کو سنتے جارہے ہیں حالانکہ ایک دوسرے کے سامنے چپ ہیں۔ کینیڈا سے ڈاکٹر منظور قادر نے طاہر، زاہد اور مجھے فون کیا اور کہا میں کس سے کس کا افسوس کروں۔ دوسروں کو زندگی خوش خوش گزارنے کا ہمیشہ مشورہ دینے والا واجد فاروق، روپڑا وہ آپ آج مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے۔

بلال اپنے خاندان کے لیے ایک سرسبز، خوش نما، خوشبو دار، پھل دار اور سایہ دار درخت تھے۔ ان کی جدائی سے محترم بھابھی پر غم کا جو پہاڑ گرا اس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ بلال بھائی آپ کی لاڈلی راج دلاری حبا نے تو ابھی اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل ہی کی تھی کہ آپ چلے گئے۔ بلال بھائی آپ کی آنکھوں کا تارا مستقبل کا روشن ستارہ آپ کا بیٹا موسیٰ اگلے برس جب یونیورسٹی کانووکیشن میں اعلیٰ تعلیمی ڈگری حاصل کرکے ڈائس سے اترے گا تو آپ کو نہ پائے گا۔

بلال بھائی آپ کے بہن بھائی اور عزیز رشتے دار آپ کو تلاش کررہے ہیں۔ یہ سب نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں بس روتے ہی روتے ہیں۔ بلال بھائی آپ نے تو ان سب کی آنکھوں میں کبھی ایک آنسو بھی نہیں آنے دیا تھا۔ بیشک موت ایک حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت بہت ظالم بھی ہے۔ بلال بھائی آپ کے بارے میں لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہمت نہیں رہی۔ بس آخر میں ایک شعر لکھ رہا ہوں جو اکتوبر 2018ء میں آپ نے مجھے سنایا تھا۔ آج ٹھیک دوسال بعد وہی شعر میں آپ کو واپس لوٹا رہا ہوں۔
کوئی مضبوط سی زنجیر بھیجو
تمہاری یاد پاگل ہوگئی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :