پاکستانی سفیروں کی تذلیل

پیر 10 مئی 2021

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی قصبے کے دو زمینداروں میں ٹھن گئی۔ دونوں ایک دوسرے کا سرنیچا کرنے کی فکر میں رہنے لگے۔ دونوں چاہتے تھے کہ اپنے مخالف کے خلاف ایسا انتہائی راست اقدام نہ کیا جائے جس سے بڑا تصادم جنم لے۔ آخرکار اُن دونوں میں سے ایک زمیندار کو نہ جانے کس نے مشورہ دیا اور وہ ترپ کا پتا کھیل گیا۔ پلان کچھ یہ طے ہوا کہ مخالف زمیندار سے براہِ راست انگیج ہونے کی بجائے جگہ جگہ اُس کی تذلیل کا بندوبست کیا جائے۔

اس کے لیے سمجھدار زمیندار نے قصبے کے ایک ایسے شخص کو چنا جس کی اوباش جوانی کی داستانیں مشہور تھیں۔ اس کے لوفرانے مزاج اور لاابالی پن کے باعث قصبے کے سنجیدہ لوگ اس سے دور ہی رہتے تھے۔ سب جانتے تھے کہ اُس کے منہ لگنا اپنی عزت کو تارتار کرنے کے برابر ہے۔

(جاری ہے)

یعنی جسے اپنی عزت کی پروا نہ ہو وہ دوسروں کی عزت کا کب خیال کرے گا۔ یہ شخص سمجھدار زمیندار کے منصوبے کے لیے بالکل فٹ تھا۔

سمجھدار زمیندار نے اُس شخص کو سارا منصوبہ سمجھایا اور انعام و اکرام کے طور پر قصبے کو اُس کے اختیار میں دینے کا بھی وعدہ کیا۔ بس کام یہ تھا کہ وہ شخص سمجھدار زمیندار کے مخالف کے بارے میں جگہ جگہ جھوٹی غلط باتیں پھیلائے، اُسے ہرچوک ہرگلی میں ذلیل کرے۔ یہاں تک کہ مخالف زمیندار جہاں کہیں سے گزرے وہ شخص اُس کے راستے میں کپڑے اتارکر ننگا کھڑا ہو جائے۔

گویا مخالف زمیندار کی تذلیل کے لیے وہ سب کچھ کرے جسے دیکھ کر بدذات بھی آنکھیں بند کرلیں۔ اتنا جھوٹ بولا جائے اور غلط الزامات لگائے جائیں کہ اخلاقیات اپنا گلا خود دباکر مرجائے۔ چونکہ مخالف زمیندار وہ سب کچھ نہیں کرسکتا تھا جو سمجھدار زمیندار نے اپنے پلانٹڈ شخص سے اپنے مخالف کو سبق سکھانے کے لیے کروایا اس لیے سمجھدار زمیندار کا منصوبہ کامیاب رہا لیکن اُس کے پلانٹڈ شخص کی حرکتوں کے اثرات قصبے کے معاشرتی، اخلاقی اور اقتصادی ماحول پر پڑنے لگے۔

ہرطرف بے چینی اور بدامنی کی فضا پھیلنے لگی۔ قصبے کے باشندے اُس شخص کی حرکتوں اور بدحکمتی کے باعث سراپا احتجاج بن گئے۔ علاقے کے دیگر قصبے اِس قصبے کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھنے لگے۔ دوسرے دوست قصبوں نے بھی اِس قصبے سے تعلقات میں سردمہری شروع کردی۔ یہ سب باتیں رفتہ رفتہ سمجھدار زمیندار کی سمجھ میں آنے لگیں۔ سمجھدار زمیندار کا مقصد پورا ہوچکا تھا یعنی اپنے پلانٹڈ شخص کے ذریعے مخالف زمیندار کو اتنا گندہ کیا کہ غلاظت کے پہاڑ بھی چھوٹے دکھنے لگے۔

اب سمجھدار زمیندار کو قصبے کے حالات کی بھی فکر لاحق ہوئی۔ سمجھدار زمیندار نے اپنے اُسی پلانٹڈ شخص کے ذریعے قصبے کے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش شروع کردی مگر کوشش کے باوجود بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اُس شخص کو صرف دوسرے کی تذلیل اور بڑھکیں مارنے کے علاوہ کوئی کام نہ آتا تھا۔ پلانٹڈ شخص نے اپنے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے اپنے اردگرد جو چھوٹے اکٹھے کررکھے تھے ان کے پاس بھی مخالف کو صرف ذلیل کرنے کی ہی قابلیت تھی۔

وہ سب جھوٹ بولنے، الزام لگانے اور تذلیل کرنے کا وہ لائسنس رکھتے تھے جس کی کوئی حد نہ تھی۔ قصبے کے معاملات کا بگاڑ یہاں تک جاپہنچا کہ سمجھدار زمیندار کو بھی پریشانی ہونے لگی۔ اُس نے معاملات کی بہتری کا یہی حل سمجھا کہ متبادل کو تلاش کیا جائے۔ سمجھدار زمیندار، اس کے پلانٹڈ شخص اور قصبے کے حالات کا ذکر یہیں چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اس سلسلے میں ہسٹری ہمیں بہت کچھ باربار بتا چکی ہے۔

آئیے ایک نئے موضوع کی طرف جاتے ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت نوازشریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ وہ اب یہ زبان اُن طبقوں کے خلاف بھی سرعام استعمال کررہے ہیں جو طبقے انہی کی حکومت کے اہم حصے ہیں۔ انہی اہم حصوں کے ذریعے حکمران اپنی حکومت چلاتے ہیں۔ ان میں حکومت کے وہ اہم حصے بھی ہیں جو ملک کو انٹرنیشنل برادری سے جوڑے رکھتے ہیں۔

ملک کی بیوروکریسی کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کی جگہ جگہ منہ ماری کی خبریں تو عام تھیں لیکن اس کا افسوس ناک مظاہرہ فردوس عاشق اعوان کی طرف سے خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ سیالکوٹ میں کیے جانے والے سرعام سلوک کی صورت میں سامنے آیا۔ اگر کوئی بردبار سیاست دان ہوتا تو وہ اسسٹنٹ کمشنر کی غلطی یا نالائقی سے گلی محلوں کے جگے کی طرح نمٹنے کی بجائے اپنے سرکاری اختیارات کے ذریعے دفتر میں بیٹھ کر بردباری سے نمٹتا لیکن ایسا کیونکر ہوتا، جو ذرہ جس شے کا حصہ ہوتا ہے اُسی کی خصوصیات اپنے اندر لیے ہوئے ہوتا ہے۔

ابھی اس واقعے کا غم و غصہ ملک کی معاشرتی اور سرکاری زندگی میں کم نہ ہوا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے دنیا میں موجود پاکستانی سفیروں کو سرعام برابھلا کہا۔ سفارت کار دوسرے ملک میں اپنے ملک کا نمائندہ ہوتا ہے۔ یعنی وزیراعظم عمران خان نے اپنے ملک کے نمائندوں کو دوسرے ملک کے نمائندوں کے سامنے ذلت کا نشان بنادیا۔ وزیراعظم کی اس فہم و فراست کا ماتم کرنا پڑے گا کہ جہاں انہوں نے پاکستانی سفیروں کو بے عزت کیا وہیں بھارتی سفیروں کی دل کھول کر تعریف کی۔

اگر ایسی حرکت ن لیگ یا پیپلز پارٹی کے دور میں کی جاتی تو ان کے ساتھ کیا کیا جاتا اس کو تحریر کرنا ضروری نہیں۔ کہتے ہیں اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھائیں تو اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی سرکاری فضائی کمپنی پی آئی اے کے پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور نے جو بیان دیا تھا اس کے اثرات پی آئی اے پر کیا پڑے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

اب نہ جانے وزیراعظم عمران خان نے ایسی بات کیوں کی۔ کیا یہ صرف جہانگیر ترین کو خوش کرنے کے لیے تھی جو شاہ محمود قریشی کے مخالف ہیں کیونکہ پاکستانی سفیروں کے انچارج تو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے سفیروں کی تذلیل کرنے اور بھارتی سفیروں کی تعریف کرنے سے دنیا بھر میں پاکستانی سفارت کاری کو شرمندگی سے بچنے اور منہ چھپانے کے لیے جن گہرائیوں میں گرا دیا ہے اس کا احساس پی ٹی آئی کو ہوہی نہیں سکتا کیونکہ انہیں عزت اور بے عزتی کا شعور ہی نہیں ہے۔

دنیا بھر میں آئندہ جب پاکستانی سفیر بھارتی سفیروں کا سامنا کریں گے تو کیا بھارتی سفیر پاکستانی سفیروں کو یہ طعنہ نہیں دیں گے کہ تم تو نالائق، نااہل اور کرپٹ ہو کیونکہ تمہارے ہی وزیراعظم عمران خان نے تم پر سرعام یہی بداعتمادی کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی اِس نادانستہ حرکت پر اگر پاکستانی سفیر متحد ہوکر کوئی ردعمل اختیار کریں جس میں چھٹی کی درخواستیں دینا شامل ہوسکتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ وزیراعظم عمران خان کے اپنے ہی سفیروں کو ساری دنیا کے سامنے بے عزت کرنے کے بعد اگلے روز کے بھارتی اور انٹرنیشنل میڈیا کو اگر کوئی پڑھ لے یا دیکھ لے تو اُس کے ماتھے کا پسینہ چُھپا نہیں رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :