عالمی منظر نامہ اور پاکستانی میڈیا

جمعرات 16 اپریل 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پوری دنیا میں اس وقت ہیجان انگیزی ہے۔ امریکہ 9/11 کے بعد عالمی اتحاد کی سربراہی کے ساتھ ساتھ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی بھی سربراہی کر رہا ہے تو افریقی ممالک غربت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ برطانیہ جہاں غیر قانونی تارکین کی وجہ سے پریشان ہے تو بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح سے بھی فکر مند ہے۔ خلیجی ممالک میں تبدیلی کی جو لہردسمبر 2010 میں تیونس سے شروع ہوئی تھی ابھی تک جاری ہے ۔

اس تحریک کو نام تو "عرب بہار" کا دیا گیا تھا لیکن اس نے پرتشدد رخ اپنا لیا اور قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ جس کا تازہ شکار یمن بنا ہے۔ پوری دنیا میں پھیلنے والی بے چینی کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بظاہر اس کی بڑی وجوہات مذہبی ، معاشی اور سیاسی مفادات ہی ہیں۔

(جاری ہے)

ان مفادات کو اجاگر میڈیا نے کیا ہے۔

اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ میڈیا کا عالمی منظر نامے میں اہم کردار ہے۔
پوری دنیا میں میڈیا کے لیے اصول و ضوابط وقتاً فوقتاً طے کیے جاتے رہے ہیں۔عالمی میڈیا میں تو کسی نہ کسی حد تک ملکی مفادات کا تحفظ دیکھا جا سکتا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے باوجود ذمہ داری کا عنصر موجود نہیں ہے۔ یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک ذمہ داری کا عنصر موجود نہیں ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ذمہ داری کا عنصر پیدا ہو جائے۔

عالمی میڈیا کے حوالے سے کردار کا جائزہ لیا جائے تو 9/11 امریکہ میں ہونے والے واقعات،7/7 برطانیہ میں دہشت گردی کی کاروائی ، انڈیا میں26/11 کی کاروائی اور اسی طرح پوری دنیا میں رونما ہونے والے دیگر واقعات و حادثات میں ان ممالک کے میڈیا کا کردار مکمل طور پہ مخالف فریق کی طرف نشتر برساتے ہوئے نظر آیا۔ اس کے علاوہ عالمی میڈیا کا عام حالات میں بھی جائزہ لیں تو یہ احساس ابھرتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا میڈیا حالت جنگ یا حالت امن دونوں صورتوں میں ذمہ دارانہ کردار نبھاتا نظر آتا ہے۔

اپنی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کے میڈیا کا جائزہ لیں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔
1999 ء میں مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں میڈیا کو پذیرائی ملنا شروع ہوئی اور میڈیا نے ترقی کرنا شروع کی ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گاکہ 2000ء کے بعد سے میڈیا نے ترقی کے جوزینے طے کیے وہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک میڈیا کا سنہری دور ہے۔

ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجود دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک آمر کا دور میڈیا کی آزادی کا دور کہلاتا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں لیکن پاکستان 9/11 واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد پورے ملک کو بھی دشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس پورے دور میں میڈیا اپنے بنیادی کردار یعنی اطلاعات کی فراہمی کے بجائے مجموعی طور پر سنسنی پھیلانے کا باعث بنتا رہا۔

توجہ طلب امر یہ ہے کہ اطلاعات کی فراہمی اور ملکی مفاد کے بجائے بریکنگ نیوز اور ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کو اہمیت دی جاتی رہی۔ ذمہ دارانہ صحافت کے بجائے سنسنی خیز صحافت حاوی رہی ۔ اور بریکنگ نیوز کے چکر میں ذمہ دارانہ صحافت کہیں دب کر رہ گئی ۔ جو کردار میڈیا نے امریکہ میں9/11 کے واقعات کے بعد وہاں کے میڈیا نے نبھایا وہ ہمارا میڈیا نہ کر سکا۔

امریکہ میں حکومتی اداروں کی ناکامی پر بھی تنقید ہوئی لیکن ان کا میڈیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی رائے تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ۔ اسی طرح بھارت میں ہونے والے حملوں کے بعد وہاں کا میڈیا مکمل طور پر پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع ہو گیا۔اسی طرح فرانس میں حالیہ واقعات کے بعد پورا فرانسیسی میڈیا اخبار کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اسلام کو بدنام کرنا شروع کر دیا ۔

اس کے برعکس پاکستا ن میں سب سے زیادہ توجہ ریٹنگ کو دی جانے لگی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا چیز ملکی مفاد میں ہے اور کیا چیز ملک کی بدنامی کا باعث بنے گی بلکہ صرف بریکنگ نیوز کی پٹی اہمیت اختیار کر گئی ۔
اسی طرح میڈیا کی اہم ذمہ داریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ عوام میں شعور بیدار کیا جائے۔اور شعور کی بیداری کے لیے غیر جانبداری سب سے اہم ہے۔

لیکن پاکستان میں میڈیا پچھلے چند سالوں سے مختلف معاملات میں ایک فریق بن کے ابھرا ہے۔ دھرنے ہوں یا دہشت گردی کی کوئی کاروائی، عالمی واقعات ہوں یا ملکی مسائل ،الیکشن کا عمل ہو یا کوئی سیاسی سکینڈل، پاکستان میں میڈیا نے حقائق عوام کے سامنے رکھ کر انہیں فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کے بجائے خود فیصلے صادر کرنا شروع کر دیے۔ میڈیا نے غیر جانبدار رہ کر عوام میں شعور بیدار کرنے کے بجائے ہر معاملے میں فریق بننے کو ترجیح دی ۔

صرف سیاست کو ہی سامنے رکھیں تو بڑے میڈیا گروپس مخصوص سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ نظر آتے ہیں۔ وہ عوام کو سچائی و حقیقت دکھانے کے بجائے اپنے اپنے من پسند سیاستدانوں کی شان میں قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں اور مخالفین کی ذات کے بخیے ادھیڑتے نظر آتے ہیں۔ گالم گلوچ پروگرامز کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگی۔
میڈیا کا ایک اور اہم کردار عوام کو تفریح فراہم کرنا ہے اس تفریح میں ملکی ثقافت کی بقاء ایک لازمی جزو ہے۔

پاکستان کے میڈیا کا صرف چند گھنٹے بیٹھ کر جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ یہ کسی اور ملک کے چینلز ہیں۔ ایساکم از کم تین گھنٹے مختلف چینلز کو دیکھ کر کہا۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ انڈین ڈراموں میں مسلمان ثقافت کو اس طرح سے مجروح نہیں کیا جا رہا جس طرح سے ہمارے ہاں کیا جا رہا ہے۔ ایک انڈین ڈرامے میں مکمل طور پر مسلمان کرداروں کو مکمل طور پر اسلامی ناموں کے ساتھ ، اسلامی روایات و ثقافت کے عین مطابق دکھایا گیا ۔

جب کہ ملکی چینلز پہ ایسے پروگرامز کی بھرمار ہے جن میں باقاعدگی سے ہندوانہ تہذیب و تمدن کی ترویج کی جاتی ہے۔ ہمارے بچوں کے ذہنوں میں اسلامی تہوار اس طرح سے نقش نہیں جس طرح ہولی نقش ہو رہی ہے۔ اغیار باقاعدہ حکمت عملی کے ذریعے تفریح کے نام پر اپنی مذہبی روایات ہماری آنے والی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔ لیکن ہم اپنے تفریحی پروگرامز تک کو بھی ان سے متاثر ہو کر ان کی تہذیب دکھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ناپختہ ذہنوں میں اغیار کے مذہبی ترانے نقش ہیں۔ کسی کو میرے نقطہء نظر سے اختلاف ہو تو ان سے صرف یہ گذارش ہے کہ صرف ایک سے دو گھنٹے پاکستان کے تمام نیوز اور تفریحی چینلز کو الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا۔
ایک دشمن وہ ہے جس سے ہم سرحدوں پر اور شورش زدہ علاقوں میں نبرد آزما ہیں لیکن ایک دشمن وہ ہے جس سے ہم اپنے گھروں میں لڑ رہے ہیں۔

اور یہ دشمن سرحدوں پر موجود دشمن سے کہیں گنا زیادہ خطرناک ہے اس دشمن کی کاروائیوں کے اثرات پاکستان کے مستقبل کو منتقل ہو رہے ہیں۔ نئی نسل ایک ان دیکھے طریقے سے اسلامی روایات اور پاکستانی تہذیب و تمدن سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اور اگر ہم نے بروقت فیصلے نہ کیے تو نہ صرف بطور قوم ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا بلکہ انفرادی سطح پر بھی ہم کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ ہمیں نہ صرف اپنا معیار خود قائم کرنا ہو گا۔ بلکہ اطلاعات، شعور کی فراہمی، تفریح کے لیے بھی میڈیا کو خود ضابطہ اخلاق بنانا ہو گا۔ میڈیا کی آزادی یقینا کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن لیکن شتر بے مہار آزادی معاشروں کی تباہی کا سبب بھی بنتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :