کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟

بدھ 26 مئی 2021

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

ہندوستان کو اپنی تاریخ کے بحران کا سامنا ہے۔ پہلے معاملہ آکسیجن مہیا کرنے کا تھا لیکن اب اس سے بھی بدترین، کیونکہ وہ اب لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لاشوں کو آگ کے حوالے کرنے میں ہندو اکثریت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسلم اقلیت کو اپنے پیارے اور قریبی افراد کی تدفین کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

شمشان گھاٹ اب 24 گھنٹے مصروف ہیں۔ قبرستان اب بڑی تعداد میں لاشوں کی آمد کے باعث سکڑ رہے ہیں۔ بات اجتماعی تدفین تک آ پہنچی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کورونا کی تیسری لہر بڑھنے کی وجہ کیا تھی؟ ہندوستان نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوی کیا، لیکن کیوں سب سے بڑی جمہوریت اپنی عوام کے لئے کافی کام کرنے میں ناکام رہی؟ مودی سرکار اس انسانی المیہ کے لئے کاغذی بیانات کی حد تک تو تیار تھی لیکن حقیقت میں نہیں۔

(جاری ہے)

وہ اس وبائی مرض سے لاعلم معلوم ہوتے ہیں۔ مودی سرکار کی حکمت عملی اور منصوبوں سے سنجیدگی غائب تھی۔ اب پورا ہندوستان رو رہا ہے اور حکومت اب بھی اس صورتحال سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے۔ انہوں نے کمبھ کے اجتماع کی اجازت دی جو مثبت تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔
پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔ ہم ابھی بھی موجودہ صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

ہم ابھی بھی ہندوستان کی صورتحال دیکھ کر کچھ سخت اقدامات اپنانے سے گریزاں ہیں۔ ہم ابھی تک اجتماعات میں مصروف ہیں، ہندوستان کی صورتحال کو کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر کی ابتدائی یاد دہانی کے طور پر نہیں لے رہے ہیں۔ ذمہ داری کون لے گا؟ این سی او سی؟ وزارت داخلہ؟ محکمہ صحت؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے؟ یا کوئی اور؟ فی الحال موجودہ حالات کی شدت سے کوئی بھی پریشان ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

بھارت نے اسے نظرانداز کیا اور بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بھی اس صورتحال سے نمٹنے کے موڈ میں نہیں ہے اور اسے اپنی تاریخ کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کچھ دکانداروں اور سڑک پہ کاروبار کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا خیال تھا کہ کورونا کا کوئی مسلہ نہیں ہے اور حکومت صرف ان کے کاروبار کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

کتنی اعلیٰ سوچ ہے۔ ہم ابھی بھی اس وبائی حالت کو لطیفے کے طور پرشمار کر رہے ہیں۔ اگر ہم اس کو سنبھالنے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو نہ صرف ہماری حکومت اور ادارے بلکہ عام عوام بھی اس وباء کے نقصانات سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس مسئلے کی شدت کو پہنچانے کے لئے مقامی تاجروں سے بات کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ عید کے دوران لاک ڈاؤن میں طرز عمل یہ رہا تھا کہ اگر آپ کسی کو کچھ نذرانہ ادا کرسکتے ہیں تو شٹر بند ہونے کے باوجود بھی آپ اپنا کاروبار جاری رکھ سکتے تھے۔

دوسری طرف، اگر آپ کچھ بھی ادا کرنے پر راضی نہیں ہیں یا قابل نہیں ہیں تو، آپ کو سخت لہجے یا بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی مقامی مارکیٹوں میں جمع ہونے والے ہجوم کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ اور وہ صرف میڈیا میں اپنی موجودگی دکھانے پہ مصر نظر آتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ ہو یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئی بھی مقامی بازاروں میں اور شاہراہوں پہ ہجوم بننے سے روکنے میں دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا۔


مزید یہ کہ، ہم مکمل طور پر دوسرے ممالک سے تحفے اور عطیے میں دی جانے والی ویکسین ڈوز پر انحصار کر رہے ہیں۔ کوویڈ ویکسین کی خریداری کے لئے ابھی تک حکومت پاکستان کا کوئی واضح ارادہ نظر نہیں آ رہا۔ اگر ہم سرمایہ کاری ویکسین کی خریداری میں نہیں کررہے ہیں تو پھر پوری آبادی کو اس ویکسین کی ایک بھی ڈوز کیسے لگائی جا سکے گی، یہ بات غیر یقینی سی ہے۔

اس میں کوئی سوال نہیں ہے کہ ہم عطیات کے ذریعہ پورے پاکستان کو ویکسین کی دو خوراکیں کسی بھی صورت فراہم نہیں کر سکتے۔کورونا کے خلاف لڑائی میں دلچسپی نہ رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کو ایک بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ہم سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کرتے ہیں تو پاکستان کو بھی اس بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت پاکستان سے ہر لحاظ سے آبادی، وسائل اور افرادی قوت میں چار مرتبہ بڑا ملک ہے۔

تو ذرا سوچئے کہ اگر وہ صورت حال سے نمٹنے میں ناکام رہا تو پاکستان میں یہاں کوئی بحران پھیل گیا تو ہم کیا کر پائیں گے؟ ہم صرف پاکستان اسٹیل مل کے ترک شدہ آکسیجن پلانٹ پر انحصار کر رہے ہیں۔
ہمیں اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ طرز عمل اور رویہ کو وسیع پیمانے پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عام عوام مشترکہ کوششوں سے اس وباء کو شکست دے سکتے ہیں بصورت دیگر آنے والے دنوں میں صورتحال انتہائی خراب ہوجائے گی۔

جیسے جیسے گھڑی کی سوئیاں چل رہی ہیں، وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ہم ضروری کوشش کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ لیکن اب بھی وقت ہے۔ صرف کاغذات پر لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں ہے۔ دانشمندی سے کام کریں، دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ حقیقت میں کچھ سختی دکھائیں۔ یہ ایک حقیقی دنیا ہے جس کو انسانی المیے کا سامنا ہے۔ کسی خیالی دنیا سے دور ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ کچھ نہیں ہوگا۔

اگر ہم اس وبائی مرض سے بچ جائیں تو ہم کسی اور وقت کاروبار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم پریشانیوں کے اس سمندر سے دور ہوجائیں تو ہم دوبارہ اجتماعات اور پروگراموں کی تنظیم نو کر سکتے ہیں۔
رویہ، رویہ اور رویہ ہی ایک چیز ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا کی تیسری لہر کی شدت مہلک ہے۔ یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ تلخ حقیقت ہے۔ آئیے اپنے پڑوسیوں کی چیخیں سنیں اور جواب میں کچھ سنجیدگی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ ہم اس وبائی مرض کی تیسری لہر کی زد میں آسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :