نیا افغانستان اور پاکستان

جمعہ 1 اکتوبر 2021

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

خبریں سامنے آئیں کہ امدادی ٹرک نے افغانستان کا بارڈر کراس کیا تواس پہ لگا ہوا پاکستان کا جھنڈا اتار دیا گیا اور اس کی جگہ کوئی اور جھنڈا لگا دیا گیا۔ یہ خبر شہہ سرخی تو نا بن پائی لیکن سوشل میڈیا کے توسط سے کم از کم موضوع ء بحث ضرور بن چکی ہے۔ اور اس حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ قیاس آرائیوں کا کیا ہے وہ تو ہوتی رہتی ہیں۔

لیکن ان میں کسی نا کسی حد تک سچائی بہرحال موجود ہوتی ہے۔ امریکی انخلاء کے بعد تاثر یہی تھا کہ پر امن انتقال ِ اقتدار ممکن ہو سکے گا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ پنج شیر کو حاصل کرنے کی جہدو جہد ہو یا پھر کابل ائیرپورٹ پر دگرگوں حالات، افغانستان کے دیگر صوبوں کے حالات ہوں یا بطور مجموعی خواتین کے حقوق سے متعلق معاملات، حالات بہتری کی طرف رفتہ رفتہ ہی آ سکیں گے۔

(جاری ہے)


اشرف غنی کا خاموشی میں افغانستان سے نکل جانا ان کو ایک شورش زدہ ملک کے لیڈر کے بجائے ایک عام سیاستدان بنا گیا۔ امر اللہ صالح کے بارے میں کچھ لوگ خیال کر رہے تھے کہ وہ شائد خود کو مسیحا ثابت کریں گے لیکن مفادات کی جنگ مسیحا بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ تاجکستان میں ہونے والی کانفرنس اور دیگر عالمی معاملات میں جس طرح مجوزہ نئی افغان حکومت ردعمل دے رہی ہے وہ نا صرف حوصلہ افزاء ہے بلکہ بدلے ہوئے افغانستان کا منظر نامہ بھی پیش کر رہا ہے۔


پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اہم ترین خطے میں واقع ہے۔ اور یہ جغرافیائی اہمیت ہی پاکستان کے گلے بھی پڑ جاتی ہے۔ جب پڑوسی ملک میں حالات تبدیل ہو رہے تھے تو اس وقت پاکستان یقینی طور پر کردار ادا کرنے کی کوپوزیشن میں تھا اور کردار ادا بھی کیا گیا۔ لیکن یہاں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہم ایک مرتبہ پھر سے نائن الیون والی جگہ پر کھڑے ہیں اور دنیا ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔

اور ہمارے پاس ہر گزرتے دن کے ساتھ آپشنز کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ مکمل طور پر معاملات امریکہ کی بد انتظامی، بد حواسی اور معاملہ فہمی سے دوری کی وجہ سے خراب ہوئے لیکن آوازیں ایسی سامنے آنا شروع ہو گئیں کہ جیسے یہ کیا دھرا پاکستان کا ہے۔ انخلاء کے لیے پاکستان کی مدد ناگزیر تھی اس لیے مدد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی طرف نرم رویہ روا رکھا گیا۔

انخلاء میں مدد کی درخواست ہو یا پھر فوجیوں کا اسلام آباد میں آنا ، ہر لحاظ سے پاکستان سے نا صرف امریکی فوج، امریکی اور دیگر غیر ملکی شہری ہوں یا پھر اقوام متحدہ سے منسلک غیر ملکی افراد، پاکستان نے ہرلحاظ سے نا صرف مکمل راہنمائی و مدد فراہم کی بلکہ پر امن انخلاء بھی یقینی بنایا۔ لیکن دوسری جانب کیوں کہ سوچ میں ہی کھوٹ تھی ،اس لیے یہ نرم رویہ دنیا کا، عارضی ثابت ہوا اور جیسے جیسے حالات بدلتے گئے اور انخلاء مکمل ہوا پاکستان کے حوالے سے دنیا کا رویہ بھی تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔

اس کا انداز اس بات سے لگا لیں کہ امریکی انتظامیہ نے سب سے پہلے دبے دبے لفظوں میں گلے شکوے شروع کیے تو پھر رفتہ رفتہ دیگر ممالک کا رویہ بھی تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ جو پاکستان امریکی فوجیوں کے لیے محفوظ تھا وہ کھلاڑیوں سے کے لیے نا صرف غیر محفوظ ہو گیا بلکہ اس حوالے سے ہر طرح کی یقین دہانی کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔


نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو سربراہ ء مملکت کے برابر پروٹوکول اورسیکیورٹی فراہم کی گئی۔ اور بظاہر ان کی کچھ عرصہ قبل سیکیورٹی ٹیم بھی مطمئن دکھائی دی۔ لیکن ، صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق، عین پہلے میچ سے قبل نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے دورے سے ددستبرداری کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم کی سطح کا رابطہ بھی کام نا آیا۔

مقام حیرت یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے سیکیورٹی الرٹ کو پاکستان کے ساتھ شیئر نا کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے جس نے مزید شکوک کو جنم دے دیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ برطانوی کرکٹ ٹیم نے بھی اپنا دورہ منسوخ کر دیا۔ کھیلوں کا میدان ہو یا عالمی فورمز پہ افغانستان کے حوالے سے مباحثہ ، آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے حالات مزید نازک ہوتے جائیں گے۔ اور شنید یہی ہے کہ پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ اس لیے کر لیا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکی غلطیوں پہ پردہ نہیں ڈالا۔

افغانستان کے بے قابو مسلے کا ملبہ اپنے سر کیوں نہیں لیا۔ اس پہ مزید حالات نے پلٹا ایسا کھایا کہ چین ، روس اور ترکی کا کردار امریکی توقعات کے برعکس ہو گیا۔ اور اس کا ملبہ بھی کسی نا کسی طرح عاقب نا اندیش پاکستان پہ ہی گرا رہے ہیں۔
بظاہر امریکی انتظامیہ پاکستان کو تختہء مشق بنا رہی ہے لیکن حقیقت میں غصہ چین اور روس کے کردار پہ ہے۔

اور قرائن بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں چوکھٹا جو سامنے آ رہا ہے وہ پاکستان ، چین، روس اور ترکی پہ مشتمل ہو سکتا ہے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے۔ قطر پہلے ہی نئی مجوزہ افغان حکومت کے قریب ہے کہ پہلے ہی دوحہ میں نئی مجوزہ افغان حکومت کا سیاسی دفتر مکمل طور پر نا صرف فعال ہے بلکہ تمام عالمی معاملات پہ مکمل گرفت بھی مضبوط کر رہا ہے۔

اور قطر ہی کابل ائیرپورٹ کے آپریشنز کے حوالے سے مثبت طرز عمل اپنائے ہوئے ہے۔ ترکی بھی اس معاملے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروا چکا ہے۔ ان حالات میں امریکی بلاک کا ہیجان اور پریشانی کا شکار ہونا یقینی تھا۔ بیس سالہ جنگ کے بعد امریکہ اندرونی طور پر مسائل کا شکار ہے لیکن وہ گھنٹی یقینی طور پر پاکستان کے گلے باندھنے کی کوشش میں ہے۔

نیا محاذ اس وقت شروع کرنا ممکن نہیں ہے لیکن امریکہ، برطانیہ اور حواری ایک نئی سرد جنگ کے آغاز کی کوششوں میں مصروف ہو چکے ہیں۔ اور اس سرد جنگ میں بھی پاکستان کا کردار یقینی طور پر ایسے ہی ہے جیسا سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ماضی کی سرد جنگ میں تھا۔
پاکستان کے لیے معاملات ایسے ہی ہیں کہ، نا اگل سکتے ہیں، نا نگل سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود دانشمندی ، بردباری، حوصلہ، متانت اور معاملہ فہمی وقت کا تقاضا ہے۔

ہمیں یقینی طور پر امریکہ کے رویے کے لیے پیش بندی کے ساتھ تیار رہنا ہو گا اس کے ساتھ ہمیں خطے میں چین ، ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ معاملات زیر بحث لاتے ہوئے اپنا کردار مثبت انداز سے ادا کرنا ہو گا۔ بھارت یقینی طور پر پہلے ہی پریشان ہے اپنی سرمایہ کاری کو ڈوبتا دیکھتے ہوئے۔ لہذا ہمیں نا صرف سیاسی طور پر اپنے آپ کو مستحکم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا بلکہ نئی مجوزہ افغان حکومت کے ساتھ بھی معاملات ایسے انداز میں طے کرنا ہوں گے کہ پاکستان کے لیے ترقی اور خوشحالی کا ایک محفوظ راستہ سامنے آ سکے۔

کیوں کہ اگر ہم پھر ایک ان دیکھی جنگ کا حصہ بن گئے تو ملک نا صرف ترقی کی دوڑ میں پیچھے چلا جائے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمارا کردار محدود ہو جائے گا۔
نیوزی لینڈ اور برطانوی کرکٹ ٹیموں کے پاکستان کے دورے سے انکار ایک دھچکا ضرور ہے لیکن ایک بوسٹر بھی ہے کہ ہمیں حالات کے لیے نا صرف تیار رہنا ہو گا بلکہ حفظِ ماتقدم کے طور پر کچھ اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :