کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟

جمعرات 17 فروری 2022

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

دیگیں کھڑک رہی ہیں، خوشبو کے بھبھوکے فضاء میں بکھر رہے ہیں۔ ایک ہا ہا ہو ہو کار مچی ہوئی ہے۔ کسی کو گلہ یہ ہے کہ اس کی پلیٹ میں بوٹی کیوں نہیں آئی اور کسی نے لیگ پیس نہیں کھانا تو اسے اس کی تبدیلی مقصود ہے۔ دھڑا دھڑ بھر بھر پلیٹیں بریانی کی تقسیم کی جا رہی ہیں۔ برتاوے بھاگ دوڑ کر کے تقسیم کر رہے ہیں۔ کھانے والے دو اٹھتے ہیں تو چار مزید بیٹھنے کو تیار ہیں۔

ایک دیگ خالی ہوئی تو دوسری کا ڈھکن کھل جاتا ہے۔ یہ صورتحال گھنٹوں برقرار رہتی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ یقینی طور پر کسی کی مہندی کا کھانا ہو گا یا پھر برات کا، یا اور کچھ نہیں تو خوشی کے کسی چھوٹے موٹے فنکشن میں ایسا منظر دکھائی دیا ہو گا۔ لیکن تمام اندازے غلط ہیں۔ اور یہ منظر کسی خوشی کے لمحے کی نہیں بلکہ مرگ والے ایک ایسے گھر کی ہے جہاں سے چند منٹ پہلے ہی ایک جنازہ اٹھا۔

(جاری ہے)

کسی کے باپ، کسی کے بیٹے، کسی کے بھائی، کسی کے شوہر کا جنازہ اٹھایا گیا۔ اور جنازہ اٹھنے کے فوراً بعد دیگیوں کا منہ کھولا گیا۔ اور اب سب مرگ والے گھر میں مزے سے چوکڑی مار کے کھانے پہ ٹوٹے ہوئے ہیں۔
دلیل پر اثر ہے کہ مہمان دور سے اگر آتے ہیں تو ان کے کھانے کا بندوبست بھی ہونا چاہیے۔ لیکن مہمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر سینکڑوں افراد کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے کی مجبوری، کسی بھی طرح صاحبِ خانہ کے لیے سہولت یا آسانی مہیا کرنا نہیں ہے۔

اور صاحبِ خانہ جن پہ پہلے ہی مرگ کی صورت میں دکھوں کا پہاڑا ٹوٹا ہوتا ہے، ان کے لیے سینکڑوں لوگوں کی پیٹ پوجا کا بندوبست کرنا مزید عذاب بن جاتا ہے۔ آپ ایک لمحہ ایک سفید پوش گھرانے کا تصور کیجیے کہ جنہیں پہلے تو کفن دفن کی فکر ستاتی ہے کہ یہی انتظامات کرنا اس دور میں جوئے شیر کھود لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ آپ کو کم و بیش آٹھ دس دیگیں تیار کروانی پڑ جائیں تو رونے دھونے سے زیادہ معاشرے کے رسوم و رواجات کو قائم رکھنے کی فکر ستانے لگتی ہے۔

ہم بظاہر تو دکھ میں ساتھ دینے کے لیے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم مرگ والے گھر کو ایک ایسی مشکل میں گرفتار کرنے کا باعث بن جاتے ہیں کہ جس سے وہ ایک طویل عرصہ نہیں نکل پاتے۔ اگر مرگ ایک طویل بیماری کے بعد ہوئی ہے تو علاج کے اخراجات، اور اچانک ہوئی ہے تو کوئی پیشگی انتظامات نا کر سکنا، کمر توڑ دیتا ہے۔ اور آپ کو ایسی صورت میں معاشرے کے ساتھ ہمقدم ہونے کے لیے اگر کھانے کا بندوبست کرنا پڑ جائے، اور پاس دھیلا نا ہو تو ایک لمحہ سوچیے کہ وہ کیسے کرئے گا؟
ہم بطور قوم ایک ایسے ہیجان کا شکار ہیں کہ ہم فضول معاشرتی رسوم کو پورا کرنے کے لیے ادھار جیسی لعنت میں گرتے چلے جاتے ہیں۔

ہمیں یہ فکر ستائے جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور حیرت ہے اس معاشرے کی اکائیوں پہ بھی کہ مرگ والے گھر سے اگر کھانا نا ملے یا بہتر نا ملے تو گلے شکوے کرنا فرضِ عین ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس گھر میں مرگ ہوئی ہے ان کی مالی حیثیت کیا ہے، ہم تو صرف باتیں کرنا جانتے ہیں۔ ہم کہنے کو دکھ بانٹتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے زخموں پہ نمک پاشی کے لیے جاتے ہیں۔


بیشک معاشرتی طور پر ہم مسائل کا شکار ہیں۔ لیکن ہم میں سے کسی کو تو پہل کرنا ہو گی۔ کوئی آواز تو ان رسومات کے خلاف بھی بلند ہونی چاہیے۔ مرگ والے دن، یعنی پہلے دن کے کھانے کے اخراجات ہوں یا ہر جمعرات پوری برادری اور محلے کو جمع کر کے کھانے سے ان کی تواضع کرنا، بہرصورت یہ ایک اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سوئم، قل، دسواں، چالیسواں، تمام مواقع پر دعا کے نام پر جس طرح کھانے کا اہتمام ہوتا ہے وہ صاحبِ ثروت لوگوں کے لیے تو کوئی مسلہ نہیں، لیکن ان صاحبِ ثروت لوگوں کے اس عمل کی وجہ سے سفید پوش افراد صرف معاشرتی رسمیں نبھانے لیے اپنی نسلوں تک کو قرض میں ڈبو جاتے ہیں۔


ہماری نسل آخری گواہ ہے لحاف میں چھپ کر نانیوں دادیوں سے کہانیاں سننے کی۔ ہم سنتے تھے کہ جب کبھی محلے میں فوتگی ہو جاتی تو صاحبِ خانہ کو علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ اگر میت کو رات رکھنا پڑتا اور جنازہ صبح ہوتا تو کہاں مہمان ٹھہرائے جانے ہیں۔ اور کہاں ان کے آرام کا بندوبست ہو گیا۔ سب اہلِ محلہ کرتے تھے۔ صبح کا ناشتہ پڑوسیوں کے ہاں سے آتا تھا۔

فوتگی کا پہلا دن، سوئم، قل، دسواں، چالیسواں مکمل طور پر فوتگی والے گھر چولہا جلانے سے حتی الوسع روکنے کی سعی کی جاتی تھی۔ اور آس پڑوس سے عزیز، اقارب، دوست، احباب مدد کو آتے تھے۔ لیکن یہ سب اب کہانیوں میں ملتا ہے۔ یہ قصے شائد گئے وقتوں کے ساتھ ہی کہیں چلے گئے۔ اب میت ہو جانا الگ دُکھ ہے اور میت کو سنبھالنے کے ساتھ مہمانوں کو سنبھالنا الگ زحمت۔

غریب کا تو اب زندہ رہنا بھی مشکل اور مرنا بھی۔ لاکھوں کے اخراجات اٹھ جاتے۔ سفید پوشوں کا دیوالیہ ہو جاتا مرگ سنبھالتے ہوئے۔ کاش ہم معاشرتی رسوم کی نفی کرتے ہوئے احساس کو جگہ دے سکیں۔ ہم فضول روایات کا قلع قمع کرتے ہوئے پرانی اقدار کو ہی واپس لے آئیں۔
اگر میت والے گھر چوکڑی مار کے پیٹ پوجا کرنا واقعی دُکھ بانٹنا ہے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :